ڈاک کا محکمہ اور دور جدید …!

        ڈاک کا نظام باہمی روابط کیلئے ایک تاریخی اور عالمی نظام ہے جس کے ذریعے سے ہی دنیا بھر میں معاشی و اقتصادی ترقی ممکن ہو سکی ہے۔ ترسیل ڈاک کا حوالہ آج سے سات ہزار سال پہلے فرعون مصر کے ابتدائی دور سے ملتا ہے ، جب گھڑ سواروں کے ذریعے بہت دور تک پیغامات بھیجے جاتے تھے۔ بعد میں سینکڑوں سال تک پیغام رسانی کا کام کبوتروں سے بھی لیا گیا، جب خط کبوتر کی گردن پر باندھ دیا جاتا اور وہ اسے منزل مقصود تک پہنچا دیتا۔ سائنسی دور کا آغاز ہوا تو دیگر شعبوں کے ساتھ مواصلاتی نظام میں بھی خاصی ترقی آئی، موٹر اور ریل گاڑیوں کی ایجاد کے بعد یہ ڈاک بھیجنے کا بھی ذیعہ بنیں، پھر ٹیلی فون کے نظام کے ذریعے ٹیلی گراف کی ایجاد نے موٹر اور ریل گاڑی کی محتاجی بھی ختم کر دی۔ اس کے بعد وائرلیس ایجاد ہو گیا جو کسی تار کو واسطہ بنائے بغیر فضا میں پائی جانے والی ریڈیائی لہروں کے ذریعے پیغام رسانی کے لیے کام آیا۔ اس کے ذریعے پیغام صرف بھیجا ہی نہیں بلکہ وصول بھی کیا جاسکتا تھا ۔ وائرلیس کو سب سے پہلے بحری جہازوں کے درمیان پیغام رسانی کے لیے استعمال کیا گیا، اس کو عام انسان کے استعمال میں لانے کے لیے جگہ جگہ تار گھر قائم کئے گئے۔ اور پھر انٹرنیٹ اور موبائل فون کی ایجاد کے بعد تو برقی لہروں نے دنیا بھر کے مواصلاتی فاصلوں کو سمیٹ کر رکھ دیا، جب کہ ڈاک کا نظام جوکہ ماضی میں باہمی روابط کا واحد ذریعہ رہا ہے، خطوط کے ذریعے عوام کو آپس میں ملانے میں موثر ترین کردار ادا کر تا آیا ہے. خط کوآدھی ملاقات تصور کیا جاتا تھا۔ سخت گرمی اور سردی میں میلوں کی مسافت طے کرکے پیغام پہنچانے والا ڈاکیا جو محبت کا امین کہلاتاتھا آج اس کی رومانوی حیثیت اور تاریخی کردار کو بھی لوگ ہر گزرتے دن کیساتھ بھولتے جارہے ہیں ۔ آج زیادہ تر سرکاری ادارے اور عدالتیں ہی ڈاک کے نظام سے استفادہ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ یونیورسل پوسٹل یو نین ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھرمیں ڈاک کا 5 سے 11 فیصد حصہ عام لوگوں کی جانب سے جبکہ 80فیصد حصہ حکومتی اداروں کی جانب سے بھیجے گئے خطوط اور کاغذات پر مشتمل ہوتا ہے۔

اقوام متحدہ کی تنظیم یونیورسل پوسٹل یونین(UPU) کے زیر اہتمام نو اکتوبر کے دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں ڈاک کا عالمی دن منانے کا مقصد ملکوں کے درمیان ڈاک کے ترسیلی نظام کے بارے میں قانون سازی کرنا ، اور دور جدید کی جدت کے باوجود ڈاک کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کرنا اورنظام ڈاک کی ترقی کے لئے کاوشیں کرناہے۔ اس روز یونیورسل پوسٹل یونین کی ایگزیکٹو کونسل کے  40 ارکان اور پوسٹل اسٹڈیز کی مشاورتی کونسل کے 35 ارکان کی بھی نامزد کرتی ہے، گزشتہ 5 سال کے عرصے میں ہونے والے کام سے متعلق اپنے متعلقہ اہم شعبوں کی رپورٹوں کا جائزہ بھی لیتی ہے اور اپنے نئے ڈائریکٹر جنرل اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کا تقرر کرتی ہے۔یونیورسل پوسٹل یونین کے سالانہ اخراجات اور اس کے مختلف شعبوں کی سرگرمیوں کا تعین کرتی ہے۔ ہر وہ ملک جو اقوام متحدہ کی خصوصی تنظیم یونیورسل پوسٹل یونین کے ممبران میں شامل ہے اس موقع پر خصوصی ڈاک ٹکٹ کا اجرا ء کرتا ہے، اس روز محکمہ ڈاک کے زیر اہتمام مختلف تقریبات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے ۔ یونیورسل پوسٹل یونین کی سرگرمیوں میں پاکستان کا کردار انتہائی مثبت رہا ہے۔ پاکستان پوسٹ نے ملک بھر میں ڈاک کے نظام کو جدید بنانے کیلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی حکمت عملی پر کام شروع کردیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے تین شعبوں کا چناؤ کیا گیا ہے جن میں اول تو موبائل منی آرڈر، دوئم پاکستان پوسٹ لاجسٹک اور سوئم ری بینڈنگ آف پاکستان پوسٹ شامل ہیں۔ ان شعبوں میں پاکستان پوسٹ پرائیویٹ شعبے کی شراکت سے محکمہ ڈاکخانہ جات کو فعال و متحرک کرے گا اور عوام الناس میں اس محکمے کی کھوئی ہوئی افادیت و اہمیت کو بحال کیا جائے گا۔ محکمہ ڈاک نے صارفین کو ان کی دہلیز پر ڈاک ،رقم اوردوسرے سامان کی بروقت فراہمی کیلئے اپنی کارکردگی بہتربنانے کی غرض سے مختلف اقدامات بھی کئے ہیں، الیکٹرانک منی آرڈر سسٹم کو تمام جی پی اوز تک توسیع دی گئی ہے۔ صارفین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے فیکس منی آرڈر، ارجنٹ منی آرڈر اور آرڈینری منی آرڈر کی زیادہ سے زیادہ حد میں اضافہ کیاگیا ہے۔اسی دن سامان کی ترسیل کے حوالے سے دیگر شہروں کے لئے آزمائشی منصوبے کو توسیع دی جارہی ہے جس کا لاہور سے آغاز کیا جاچکاہے۔ بلاشبہ پوسٹ آفس کے نظام کو کمپیوٹرائزڈ کرکے اور ان میں دور جدید کی مناسبت سے جدت پیدا کرکے ہی ڈاک کے نظام کی بقاء کو یقینی بنایا جاسکتاتھا ۔ اس کے علاوہ ملازمین کی تنخواہوں میں مناسب اضافے ، تازہ دم ملازمین کی بھرتی اور پاکستان پوسٹل سروس میں موجود کالی بھیڑوں سے نجات پاکر ہی ڈاک کے نظام پر عوام کا اعتماد مذید بڑھایا جاسکتا ہے۔ پاکستان پوسٹل سروسز کے مونو گرام میں تحریر بانی پاکستان قائد اعظم پاکستان کے فرمودہ تین سنہری اصول اتحاد، تنظیم، یقین محکم، ان سنہری اصولوں پر کار بند ر ہ کر ہم ملک بھر کے روشن مستقبل اور پائیدار ترقی کے ضامن بن سکتے ہیں۔ ڈاک ٹکٹ کو خاموش سفیر بھی کہا جاتا ہے ، جنرل محمد ضیا الحق نے اپنے دور حکومت میں ملک میں عید میلادالنبی کے موقع پر ایک ڈاک ٹکٹ کا اجراء کیا جس میں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کو اوپر دکھایا ،درمیان میں لکھا کہ ’’اور کہہ دو حق آیا اور باطل مٹ گیا‘‘ یعنی اس ڈاک ٹکٹ کے ذریعے پورے عالم اسلام کو یہ پیغام دیا گیا کہ ہمارا ایمان قرآن پر ہے وہی سب سے اعلیٰ نظام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب اس دنیا میں بھیجا اسی وقت سے حق آ گیا اور باطل مٹ گیا تھا۔ اس دور جدید میں جہاں برانچ لیس بینکنگ، موبائل فون سروسز ، فیکس، انٹرنیٹ اور ای میل سروسز کی بہتاب ہے ان سہولیات کے باوجود صداقت اور امانت کے پیکر پوسٹ مین کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جو ہر روز میلوں کی مسافت طے کرکے عوام کے درمیان باہمی روابط کو استوار رکھتا آیا ہے۔ آج ڈاک کے نظام کو جدید دور سے ہم آہنگ اور ڈاک و سامان کی ترسیل کے لئے پوسٹ مینوں کو موٹر سائیکل سمیت ہر ممکن سہولت فراہم کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

حصہ
mm
رانا اعجاز حسین ایک منجھے ہوئے قلم کار ہیں وہ مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں