“رگ و ریشے سے واقف مولانا فضل الرحمان “

آج کل 27 اکتوبر کو ہونے والے آزادی مارچ کے چرچے زبان زدِ عام ہیں۔کوئی تو اسے ملکی و سیاسی مفاد کا شاخسانہ قرار دیتا ہے اور کوئی اسے ملکی و سیاسی مفاد کے لیے زہرِ قاتل سمجھتا ہے۔اپنا حال تو یہ ہے کہ ہمیشہ سے دھرنا سیاست کی مخالفت کی۔ہر اس حرکت کی مخالفت کی جس سے عوام کا،ملک کا،تعلیمی نظام کا اور بزنس کمیونٹی کا نقصان ہوتا ہو۔یہ دھرنے اپنے مقاصد میں اکثر و بیشتر فوری کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتے،لیکن یہ ملک کا فوری طور پر نقصان ضرور کرجاتے ہیں۔جب عمران خان نے کئی ماہ اس ملک کو مفلوج کیے رکھا،اس وقت بھی اس اقدام کی شدید مخالفت کی اور اب جب مولانا فضل الرحمان صاحب یہ قدم اٹھارہے ہیں،ان کے اس قدم اٹھانے کی بھی مخالفت کرتا ہوں۔مولانا فضل الرحمان ایک ذہین سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست کے ماہر کھلاڑی ہیں،اپنا ایک مضبوط حلقہ احباب رکھتے ہیں،اس وقت ملکی سیاست مولانا فضل الرحمان کے گرد گھوم رہی ہے۔موجودہ حالات میں مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کی سیاست ثانوی درجے کی سیاست کی حیثیت رکھتی ہے۔اول درجے میں اس وقت مولانا فضل الرحمان کا تحریک انصاف یا پھر مقتدر قوتوں کے ساتھ سیاسی مقابلہ جاری ہے۔یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھےگا،یہ ہمارے لیے دیکھنے کا منظر ہوگا۔مولانا فضل الرحمان ایک تجربہ کار سیاست دان ہیں،سیاست میں اوٹ پٹانگ چالیں ان سے کھیلی جارہی ہیں،اب یہ بھی دیکھنے کے لائق ہوگا کہ مولانا ان اوٹ پٹانگ حربوں  سے کیسے اپنا سیاسی مقام بچاتے ہیں۔اس سیاسی جھرمٹ میں مولانا کے سیاسی کارکن کس حد تک مولانا فضل الرحمان کے ساتھ سینہ بسینہ کھڑے ہوتے ہیں،یہ بھی چشم کشا ہوتا جائے گا۔
پاکستانی سیاست میں سیاسی مقابلے میں مخالف ہر قسم کا حربہ استعمال کرتا ہے،قطع نظر اس سے کہ وہ درست بھی ہوتا ہے یا نہیں،لیکن مقصد صرف ایک ہوتا ہے، وہ یہ کہ اپنے مقابل کو کسی بھی طرح زیر کرے،مولانا کے مخالف بھی یہی کچھ کررہے ہیں۔ مولانا کے خلاف اس سیاسی مقابلہ بازی میں مخالفین کا ایک حربہ یہ نظر آرہا ہے کہ وہ کچھ غیر سیاسی علماء کو استعمال کررہے ہیں۔اس کا ایک بدیہی نقصان تو یہ ہوگا کہ ان غیر سیاسی علماء کا مقام کم ہوتا جائے گا۔مولانا فضل الرحمان کو ان غیر سیاسی علماء سے نقصان تو شاید نہ ہو،کیوں کہ مولانا کے ورکر زان پر پورا اعتماد کرتے ہیں اور ان کے خلاف آئے ہر موقف کورد کردیتے ہیں۔مولانا کو یہ کام کروانے کے لیے اپنے ورکرز پر اصرار بھی نہیں کرنا پڑتا،لیکن اس سب کے باوجود مولانا کے مخالف اس حربے میں کامیاب نظر آتے ہیں،وجہ اس کی یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان اپنے مقام سے ہاتھ دھوئیں یا نہ دھوئیں لیکن وہ غیر سیاسی علماء اپنا مقام آہستہ آہستہ کھو دیں گے۔مولانا فضل الرحمان کے ورکر زکسی بھی صورت میں ان سے چھٹکارا حاصل کرنا نہیں چاہتے۔مولانا کے اکثر رفقاء نے بھی ان مشکل حالات میں نہ تو ورکر کو کوئی زک پہنچائی اور نہ مولانا کو۔یہ ورکر کا اعتماد حاصل کرنے کی ایک بڑی کنجی ہے۔فقہ حنفی پڑھنے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ماہر فن کی رائے کو جو اس فن کے بارے میں ہو ترجیح دی جاتی ہے۔امام ابو یوسف ایک قاضی بھی تھے، قضاۃ کے متعلقہ احکامات میں ان کی رائے پر عمل کو ترجیح دی جاتی ہے۔مطلب یہ ہوا کہ جو جس فن میں ماہر ہو اور اس کی مہارت مسلمہ ہو تو اس فن کے بارے میں اس کی رائے کو ترجیح دی جائے گی۔اس وقت سیاست کے گھڑ سواروں میں مولانا فضل الرحمان ٹاپ پر ہیں،مذکورہ بالا قاعدے کے مطابق سیاسی معاملات میں مولانا فضل الرحمان کی رائے کو غیر سیاسی علماء کی رائے پر ترجیح دی جاسکتی ہے۔غیر سیاسی علماء کا اپنا اپنا شعبہ ہے،اگر ان شعبہ جات میں مولانا فضل الرحمان ٹانگ اڑائیں گے تو ان کا بھی نقصان ہوگا،لیکن جب سیاسی و غیر سیاسی علماء کا مقابلہ ہوگا تو ماہر فن کی رائے کو ترجیح ملے گی۔کارکنان کو ہر عالم کا ادب واحترام کرنا چاہیے۔ان کی بے ادبی کی جو فضا بن گئی ہے وہ کسی معتدل مزاج شخص کو برداشت نہیں ہوسکتی۔یہ درست ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے ورکرز مولانا کی مخالفت میں آئے ہر شخص پر بے جا الزام لگاتے ہیں،بے جا تنقید کے نشتر چلاتے ہیں، کبھی کبھار تو تہمت سے بھی کام چلا لیتے ہیں، یہ بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے اور مولانا فضل الرحمان کو اس کی روک تھام کے لیے کوئی پالیسی بھی بنانی چاہیے۔ورکر کے اس رویے سے علماء کی بے توقیری میں اضافہ ہوتا ہے اور ساتھ میں مدارس کے تربیت یافتہ لوگوں کے اخلاق کا پول بھی کھلنے لگتا ہے۔
اس وقت مولانا فضل الرحمان کے رویے میں شدت آچکی ہے،ان کا صرف ایک ہی مقصد ہے حکومت کا تختہ الٹنا،اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے انہیں شرانگیزی نہیں کرنی چاہیے،اندھیرے میں چلنے کے بجائے روشنی میں چلنا چاہیے،خدشات کے بجائے پیش کش والی راہ پر چلنا چاہیے،پوشیدگی کے بجائے صلح میں دلچسپی ظاہر کرنی چاہیے اور گرم سلاخ کے بجائے ٹھنڈے سلاخ سے دماغ کو داغنا چاہیے۔حکومت وقت بھی حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے ایسا کوئی قدم نہ اٹھائے جس سے ملک میں افرا تفری پھیلے۔ویسے بھی اس وبا کا بیج بونے کا سہرا اس حکومت کو جاتا ہے اور ویسے بھی یہ احتجاج کسی بھی باشندے کا جمہوری حق  ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ اسے جمہوری حق کہنے والے اس کی تعریف کو جامع و مانع نہ بناسکے۔یہ بہر حال مسلم ہے کہ مولانا فضل الرحمان سیاست کی رگ و ریشے سے واقف ہیں،اب ان کی واقفیت کا امتحان ہے،دیکھنا ہے کہ وہ سرخرو ہونگے یا نہیں؟

حصہ

جواب چھوڑ دیں