ہم دنیاوی اعتبار سے کوئی بھی چیز دیکھتے ہیں، دیکھنے کے بعد اس چیز کے بنانے والے (یعنی کارگر) کی طرف دھیان جاتا ہے جس سے بنانے والے کی قدرو منزلت کا اندازہ ہو جاتا ہے، اسی طرح ہم اپنے معاشرے میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز اپنے ہی جیسے مرد و خواتین کو دیکھتے ہیں، ایسے ہی ہنر مند افراد کو دیکھتے ہیں کہ جو ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے عروج پر پہنچ جاتے ہیں ۔ ان سب عہدوں اور ہنر مندوں کے پیچھے ایک بہت بڑی ہستی موجود ہے جسے استاد کہتے ہیں۔
اساتذ ہ کرام کی عزت اور ادب و احترام کے بارے میں امیر المومنین شیر خدا سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا قول مشہور ہے ۔فرماتے ہیں ‘‘جس سے میں نے ایک حرف بھی سیکھ لیا اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا ، وہ میرا محسن ہے’’ ۔ رب ا لعزت نے اپنی پیاری لاریب کتاب قرآن مجید میں پیغمبر انسانیت، معلم انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے فرمایا ’’ اے ایمان والو!تم اپنی آواز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اونچا مت ہونے دو اور آپ ﷺ سے اونچی آواز میں بات نہ کرو، جیسے تم ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات کرتے ہو، کہیں ایسا نہ کہ تمہارے عمل برباد ہو جائیں اور تمہیں خبر تک نہ ہو ‘‘۔ (الحجرات:2 ) شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اس آیت کریمہ کے بارے میں تفہیمات میں لکھتے ہیں ،اپنے استاد کی آواز سے اپنی آواز اونچا کرنا صریحاً ناشائستگی ہے۔
استاد محترم کے احترام کی ایک عظیم مثال دیکھئے ایک مرتبہ شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کے استاد سید احمد شہیدرحمہ اللہ نے اپنے شیخ استاد محترم شاہ عبد العزیزرحمہ اللہ کے انتقال کی خبر کی تصدیق کے لیے اپنا ذاتی گھوڑا شاہ اسماعیل شہیدرحمہ اللہ کودے کر دہلی بھیجا کہ کیا واقعی ان کے استاد شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ انتقال کر گئے ہیں، شاہ اسماعیل شہید سارے راستے گھوڑے کی باگیں تھامے ہوئے پیدل ہی چلتے رہے اور گھوڑے کی اس زین پر بیٹھنے کی ہمت نہ کی جس پر ان کے استاد بیٹھا کرتے تھے۔ انہی شاہ اسماعیل شہیدرحمہ اللہ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے استاد محترم کی موجودگی میں تقریر نہ کرتے تھے بلکہ خاموش بیٹھے رہتے کہ میرے استاد بیٹھے ہیں ان کے ہوتے ہوئے میں کیا کہہ سکتا ہوں ۔
امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: میرے باپ نے مجھے وصیت کی. پیارے بیٹے!بچپن کا زمانہ اب ختم ہوا ، اب تم سن شعور کو پہنچ گئے ہو، اب پورے طور سے خیر کی طلب یعنی حصول علم میں لگ جاؤ اور ایک ضروری بات کہ اس راہ میں سب سے زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ اہل علم(اساتذہ کرام ) کی اطاعت و خدمت کی جائے ۔ اگر تم ان کی اطاعت و خدمت کرو گے تو علم و فضل سے بہرہ ور ہو گے۔
امام حمادبن سلیمان رحمہ اللہ اپنے عہد کے بڑے محبوب اساتذہ میں سے تھے۔ان کے ایک شاگرامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہیں،ان کاگھر استاد کے گھر سے سات گلیوں کے فاصلے پرتھا،لیکن شاگرد کاادب واحترام دیکھیے کہ اپنے استادمحترم کے گھر کی جانب کبھی پاؤں کر کے نہ سوتے کہ کہیں استادمحترم کی توہین نہ ہوجائے اسی طرح اگر بعض اوقات دوران درس و تدریس کبھی استاد محترم کا بیٹا آجاتا توامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ احترام میں کھڑے ہوجاتے۔
اساتذہ کرام،خواہ وہ دینی علوم سے آراستہ کرنے والے ہوں یامختلف علوم وفنون سے آشناکرنے والے ہوں،سبھی ادب واحترام کے لائق ہیں۔دینی اور عصری علوم دونوں کی انسان کوضروت رہتی ہے۔اس لیے ان علوم وفنون سے آشناکرنے والے اساتذہ کرام کاادب واحترام کرنابے حدضروی ہے۔اساتذہ کرام اپنے علم اور تجربے سے ایسے ایسے گر سکھا دیتے ہیں اور وہ کچھ پڑھا اورسمجھادیتے ہیں کہ اگرخودانسان وہ سفر طے کرکے حاصل کرنے لگے تو اس کی زندگی کاکافی حصہ بیت جائے۔ آج انسانیت جہاں کھڑی ہے وہ اساتذہ کی راہنمائی اور ان کے تجربات اور ایجادات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں تک پہنچی ہے۔
اساتذہ کرام کے ادب واحترام کی ایک جھلک حدیث نبوی ﷺسے بھی ملاحظہ فرمائیں۔ایک مرتبہ امام الانبیاءﷺکے پاس حضرت جبریل علیہ السلام آئے،انتہائی صاف ستھرے لباس میں ملبوس ہوکر اس وقت حضرت جبریل علیہ السلام ایک انسان کے روپ میں تھے۔ آپ کے سامنے ادب واحترام سے دوزانو بیٹھ گئے اور آپﷺسے ایمان ،اسلام اور احسان کی بابت سوالات کرنا شروع کردیے ۔۔۔۔۔گویا کہ حضرت جبریل علیہ السلام ایک شاگرد کی حیثیت سے آپﷺ کے پاس آئے اور ہمیں سمجھا گئے کہ جس سے علم حاصل کیا جائے اس کے سامنے ادب واحترام سے بیٹھا جاتا ہے۔