نئے تعلیمی سال 2020 کے لیے حکومت برطانیہ نے 370 اسکولوں میں ایک نئے کورس کا اضافہ کیا ہے۔ اس کا نام “مائنڈ فُل نیس” ہے۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ “نیشنل ہیلتھ سروس” کے مطابق برطانیہ میں پانچ سال سے 19 سال تک کی عمر کے ہر آٹھ میں سے ایک بچے کو کسی نہ کسی قسم کی ذہنی اذیت اور دباؤ کا سامنا ہے۔ 2017 نومبر کی ہی رپورٹ کے مطابق 1999 میں 15 سال کی عمر کے بچوں میں 2017تک 9.7 فیصد سے گیارہ اعشاریہ دو فیصد تک ذہنی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے، جبکہ نوجوانوں میں ہر بارہ میں سے ایک بچہ اینگزائٹی اور ڈپریشن کا شکار ہے۔
اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نفسیاتی دباؤ، اینگزائٹی اور ڈپریشن کی یہ بیماریاں بچیوں میں زیادہ پائی جاتی ہیں۔ بچوں سے متعلق برطانیہ کے محکمہ “مہمات اور پالیسیز “کے ڈائریکٹر عمران حسین کہتے ہیں کہ ہم نےاسے”مینٹل ہیلتھ کرائسسز” کا نام دے دیا ہے۔
نفسیاتی امراض، ذہنی دباؤ اور اعصابی تناؤ کا یہ حال ہے کہ برطانیہ میں نوجوانوں کی تعلیم کی وجہ سے خودکشیوں کا تناسب روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے اور وزیراعظم تھریسامے نے 2021 تک سب اس مضمون “مائنڈ فلنیس” کا دائرہ پورے ملک تک بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ تھریسا مے کے اپنے بیان کے مطابق 14 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بچوں کی ایک بڑی تعداد ذہنی بیماریوں اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہورہی ہے اس لیے حکومت برطانیہ اس کورس اور مضمون کو پورے ملک کے تعلیمی اداروں تک وسیع کرے گی۔
اس کورس میں بچوں کو اسکول شروع ہونے سے پہلے، بعد اور درمیان میں مختلف وقتوں میں میڈیٹیشن، یوگا، کھیل کود اور مختلف ورزشوں کے ذریعے سے ان کو “ذہنی اور روحانی سکون” دینے کی کوشش کی جائے گی اور اس کام کے لیے فی الحال 500 ٹرینرز کو بھی رکھ لیا گیا ہے۔
اس وقت دنیا میں ہر سال دس لاکھ سے زیادہ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ اس تعداد میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے، سب سے زیادہ تعلیم کے نام پر خود کشیاں ہندوستان میں کی جارہی ہیں 24گھنٹوں میں 26 خودکشیاں نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنی تعلیم کو لے کر رہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ المناک بات یہ ہے کہ ان تعلیمی خودکشیوں کا دائرہ روزبروز پاکستان میں بھی بڑھتا جارہا ہے آپ “مائنڈ فلنیس” جیسے مزید 100 کورس متعارف کروادیں، آپ صبح سے شام اور شام سے رات تک بلکہ چھٹی والے دن بھی یوگا، ورزش، ٹریکنگ اور ہائیکنگ کروا لیں لیکن پھر بھی اس دنیا کا انسان اسی طرح پریشان رہے گا۔
اس وقت پاکستان میں ایک 6 سے 7 سال کے بچے کا ڈپریشن اور اینگزائٹی کا لیول ہے وہ آج سے چالیس سال پہلے 25 سے 30 سال کے نوجوانوں کا نہیں ہوتا تھا اور اس سب کے پیچھے آپ کا قاتلانہ، متشددانہ اور متعصبانہ تعلیمی نظام ہے۔اچھے سے اچھا اسکول، اچھے سے اچھا گریڈ اور زیادہ سے زیادہ نمبرز نے بچوں کو نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔ یورپ نے ہمیں تقریبا سوا صدی پہلے سمجھایا کہ انسان دراصل “معاشی حیوان” ہے۔ اس نے ہمارے “تصور کامیابی” کو ہی تبدیل کر کے رکھ دیا، وہ مومن جس کا تصور کامیابی “قناعت” تھا اسے معاش کے پیچھے ہلکان کر کے رکھ دیا، جو مسلمان برکت کی دعائیں مانگا کرتا تھا اب وہ بھی “کثرت” کی دعائیں کیا کرتا ہے۔
پاؤں ہیں کہ اپنی چادر سے باہر ہی باہر نکلے چلے جارہے ہیں۔ خواہشات نے ضروریات کا روپ دھار لیا ہے، پہلے ایک کمانے والا دس لوگوں کو سکون سے کھلاتا تھا اور آج دس کھلانے والے مل کر بھی صرف اپنا ہی پیٹ نہیں پا رہے ہیں۔ نسلوں کی تربیت کرنے والی عورت بھی خود کو “معاشی حیوان” سمجھنے پر فخر کرتی ہے۔ اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ “انسان معاشی حیوان نہیں ہے جسے انسانی تجربات سے گزرنا پڑتا ہے بلکہ انسان ایک روحانی مخلوق ہے یہ الگ بات ہے کہ اسے انسانی تجربات سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔” یہ الفاظ کسی مذہبی کتاب کے نہیں بلکہ رابن شرما کی ایک مشہور و معروف کتاب کے ہیں۔
انسان دو چیزوں کا مجموعہ ہے ایک روح اور دوسرا جسم مغرب نے، یورپ نے اور اس مادہ پرستانہ سسٹم اور نظام تعلیم نے اپنا سارا “فوکس” صرف جسم تک محدود کر دیا ہے۔ پورا مغربی معاشرہ زمانہ ہوا “خدا بیزار” ہوچکا ہے، جس کا کوئی خدا نہیں ہوتا اس کا خدا مادہ، پیسہ اور ظاہری شوشا ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے مغرب نے ایک عرصہ پہلے چرچ کے اختیارات محدود کرکے اپنے معاشرے سے خدا کو “دیس نکالا” دے دیا ہے، اس لیے اول تا آخر ان کی کامیابی “پیسہ” اور ظاہری ٹیپ ٹاپ ہے۔ ان کا سارا فسانہ جسم سے شروع ہوکر جسم پر ختم ہو جاتا ہے، اچھے کپڑے، اچھا گھر اچھا کھانا، اچھا پہننا، گانا بجانا، ڈانس کرنا، مرد کا عورت کو اور عورت کا مرد کو کھلونے کی طرح استعمال کرنا اور پھر ٹشو کی طرح پھینک دینا اور جب ان سب سے بھی سکون نہ ملے تو شراب پی پی کر اور پاپ میوزک کو”فل ساؤنڈ” میں چلا کر اپنی روح کو لوریاں دینے کی کوشش کرنا۔ یہ ہے اس معاشرے کا نظام اور اسی پر ان کی “تعلیمی بنیادیں” بھی قائم ہیں۔
تربیت جس چڑیا کا نام ہے وہ اس سے سرے سے ناواقف ہیں۔ کیونکہ تربیت “نفس” کی جاتی ہے جسم کی نہیں اور نفس ان کے پاس چھوڑیں خود ہمارے تعلیمی ادارے تو دور ہمارے گھروں میں بھی سرے سے یہ کوئی موضوع ہی نہیں ہے۔ سیلف کنٹرول صرف نفس کو قابو کرنے کے نتیجے میں آتا ہے اور نفس پر قابوصرف اللہ سے محبت اور اس خوف کا نتیجہ ہوتا ہے۔
ایک اور المیہ یہ ہے کیونکہ ہم نے خدا کو نعوذ باللہ صرف عبادت گاہوں تک “محدود” کردیا ہے تو وہ کام اور معاملات جو صرف اللہ تعالی کے لیے مختص تھے ہم نے اسے اپنے کیریئر اور فیوچر کے لئے کردئیے ہیں۔ مثلاً؛ ماں باپ، بہن بھائیوں کو چھوڑ دینا، اپنا گھر بار اور رشتے دار چھوڑ دینا، ملک سے ہجرت کر جانا، اپنی قیمتی چیز تک قربان کر دینا، اپنا سب کچھ یعنی ساری زندگی کی جمع پونجی لگا دینا حتی کہ شادی نہ کرنا اور گھر نہ بسانا صرف اس لئے کیونکہ ابھی تو “کیریئر” بنانا ہے، ابھی تو اپنت “فیوچر” کو دیکھنا ہے وغیرہ۔ یہ ساری چیزیں اگر آپ قربان کرسکتے ہیں تو صرف راہ خدا میں کرسکتے ہیں۔ بچوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ بیٹا! “زندگی میں کیرئیر ہوتا ہے، کیرئیر میں زندگی نہیں ہوتی ہے۔”
انسان اہم ہوتے ہیں، کام اہم نہیں ہوتے ہیں۔ کام تو ہم انسانوں کے لئے کرتے ہیں انسان “مشین”بنانے کے لئیے تھوڑی پیدا کئیے جاتے ہیں۔ انسان تو اسلئیے ہوتے ہیں تاکہ ان کے ذریعےدل، دماغ، آنکھوں اور روح کو ٹھنڈک ملے۔ ماں باپ، بہن بھائی، بیوی بچے اور رشتے دار اہم ہوتے ہیں، مخلوق خدا اہم ہوتی ہے۔
ہم جب تک اس “روحانی تصور” کو سایہ قرآن اور تعلیمات نبویﷺ کی روشنی میں اپنے گھروں اور تعلیمی اداروں میں متعارف نہیں کروا دیتے اس وقت “مائنڈ فلنیس” جیسے کورسسز کینسر میں پینڈول کا کام کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کرسکتے۔