زید خوش تھے کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ اپنی نانی کے گھر جارے تھے ،مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ راستے میں قافلہ ایک جگہ پڑاؤ ڈالتا ہے ۔زید اپنے خیمے کے باہر کھیل رہے تھے کہ اچانک ڈاکوؤں نے حملہ کردیا اور بچے کو اٹھا کر لے گئے اور عکاز کے بازار میں لے جاکر بیچ ڈالا۔اس خوش نصیب بچے کو حکیم بن حزام نے خرید کر اپنی پھوپھی جو کہ مکہ کی مشہور معروف تاجرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو کہ طاہرہ کے لقب سے مکے میں مشہور تھیں۔ ان کو بطور تحفہ پیش کردیا۔ اللہ تعالٰی کے ارادے بھی عجیب ہوتے ہیں جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتاہے تو غیر محسو س طریقے سے اپنے کا م کو پوراکرکے رہتا ہے۔یو ں تو ڈاکوؤں نے اس بچے پر بڑا ظلم کیا مگر اس کے نتیجے میں زید کے حصے میں بڑ ی سعادت ہاتھ آئی۔
زید کے والد اور والدہ اس صدمے سے نڈھال تھے اور پورا گھر سوگوار تھا۔ آپ کے والد نے عرب کا ریگزار چھان مارا مگر زید کا کہیں نام ونشان نہیں ملا وہ روز اپنے لخت جگر کی تلاش میں نکلتے لوگ ہر روز زید کے والد کو زید کی تلاش میں سرگرداں پاتے ،ان کی حالت اس صدمے نے غیر کر دی تھی مگر انہوں نے تلاش کا کا م جاری رکھا، وہ عربی کے بڑے پائے کے شاعر تھے ۔ اس موقع پر جو انہوں نے درد بھرے اشعار کہے وہ بڑے مشہور ہوئے اور عربی ادب کا حصہ بن گئے۔
ادھر زید حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی زیر سایہ رہ رہے تھے ۔ آفتاب رسالت نے ابھی اعلان نہیں کیا تھا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ہر وقت مستعد رہتے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم زید سے بڑی شفقت فرماتے۔ ادھر زید کی تلاش بھی جاری تھی ۔بالاآخرحج کے موقع پر یمن کا ایک قافلہ مکہ آیا اور اس نے زید کو بازار میں دیکھا اور پہچان گیا جب ان لوگوں نے زید سے دریافت کیا تو انہوں نے تصدیق کی اور یہ بتایا کہ وہ بنومعدبن عدنان کے گھرانے میں رہ رہے ہیں جو کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے جد امجد ہیں یہ گھرانہ نسل درنسل سے عزت و شرافت کی پہچان ہے عرب میں اس گھرانے کا مقام سب سے منفرد ہے ۔
قبیلےکے لوگ جب واپس یمن پہنچے توزید کے والد کو سارا ماجرا سنایا اور یہ خوش خبری دی کہ زید ایک بہت ہی اعلی ا ور اشرف خاندان میں رہ رہے ہیں۔زید کے والد حارث بن شرجیل کو کچھ قرار آیا مگر وہ زید کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرناچاہتے تھے۔اسی وقت زید کے والد نے اپنے بھائی کعب بن شرجیل کو ساتھ لیا اور مکہ روانہ ہوئے۔اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: ”اے بنی عبدالمطب آپ خانہ خدا کے محافظ ہیں یتیموں اور بے سہارا لوگوں کے والی ہیں آپ جتنا چاہے فدیہ لے لیں میرا لخت جگر مجھے واپس دے دیں”۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ: ”زید کو موقع دیا جائے وہ جس کا انتخاب کرےاس کے ساتھ جائے میں اس کے بدلے کچھ فدیہ نہیں لوں گا مجھے کوئی اعتراض نہیں۔”
زید کو بلایا گیا حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے زید سے پوچھا” کہ تم ان کو پہچانتے ہوئے”؟
زید نے دونوں کودیکھتے ہی پہچان لیا اور کہا کہ ”ایک میرا چچا اور ایک میرا باپ ہے’۔’
اس کے بعد زید کو انتخاب کا موقع دیا گیا کہ وہ کس کے ساتھ رہنا پسند کریں گے زید کے والد کوزید سے بڑی امید تھی کہ زید ان کے ساتھ جانے پر تیار ہوجائیں گے مگر وہ زید کا جواب سن کر حیرت میں پڑگئے کہ زید نے کہا کہ” میں ہرگز حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی غلامی سے آزد نہیں ہونا چاہتا”۔ خیر حارث بن شرجیل کواس جواب کے بعد اطمینان ہوگیا کہ وہ ایک نہایت شفیق ہستی کی غلامی میں ہیں وہ غلامی آزادی سے بدرجہا بہتر ہے۔ چچا اور والد اپنے لخت جگر سے مل کر واپس چلے گئے مگراب ان کے دلوں میں اطمینان کی کیفیت تھی۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم زید کو ساتھ لے خانہ کعبہ گئے وہاں آپ نے اعلان کیا کہ آج سے زید میرا بیٹا ہے اس کے بعد زید کو زید بن محمد کہا جانے لگا جس کو بعد میں اللہ نے سورہ احزاب میں یہ کہہ کر کہ کسی کو بیٹا بنالینے سے وہ تمہارے حقیقی بیٹے نہیں بن جاتے ۔اس رسم کا خاتمہ فرمادیا۔ پھر دوبارہ زید بن محمد کو زید بن حارث کہا جانے لگا۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا نکاح اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت حجش سے کردیا مگر میاں بیوی کا آپس میں نباہ نہ ہوسکا بعد میں طلاق کی نوبت آگئی اس کے بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کا نکاح اللہ تعالٰی نے خود حضرت زینب کے ساتھ کردیا اس نکاح کے بعد دشمنان اسلام اور منافقین نے ایک طوفان بدتمیزی برپا کردیا مگر اللہ تعالٰی نے متبنٰی اور متبنٰی کی مطلقہ بیوی سے شادی کی رسم جاہلیت کا خاتمہ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمادیا۔ حضور اقدس نے فرمایا” کہ جس کو کسی جنتی خاتون سے شادی کرنی ہو وہ ام ایمن سے نکاح کرلے”۔ اس موقع پر بھی حضرت زید نے اپنے آپ کو پیش کردیا ۔ اور اس طرح سے آپ کا اور ام ایمن کا نکاح کردیا گیا۔
غلامی رسول نے آپ کی شخصیت کو تمام صحابہ میں ممتاز مقام عطاء کیا آپ واحد صحابی رسول ہیں جن کا نام قرآن میں آیا ہے۔ آپ رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم سے بے حد محبت کرتے تھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم آپ پر بے حد شفت فرماتے۔ زید بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ مقام حاصل ہے کہ مردوں میں اُ پ ان چارعظیم المرتبت ہستیوں میں شامل ہیں کہ جنہوں نے حق کی دعوت پر پہلے پہل لبیک کہا۔پھر سفر وحجر تمام عمر آپ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی غلامی میں گزارے ۔ ہر مہم میں اللہ کا یہ سپاہی حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہوتا۔آپ کی تیر اندازی ضرب المثل تھی ۔ سن 8 ھجری میں قیصر کے مقابلے میں جنگ یرموک کے موقع پرآپ دشمن کا نیزہ لگنے سے شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔