طالب علم آپ اپنی قسمت کے معمار

        دنیا کے معروف نقاش،سنگ تراش،مصور مائیکل انجیلو کا نا م کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔دنیا میں اس سے بہتر کوئی سنگ تراش اور مصور شاید ہی پیدا ہوا ہو۔ ملکہ بر طانیہ نے لندن کے مشہور و معروف گرجا گھر کی تزئین نواور رنگ وروغن و نقاشی کی ذمہ داری انجیلو کے سپرد کی اسے اس کام کی تکمیل کے لئے دو سال کاعرصہ لگا۔ گر جا گھر کی چھت پر نقش بنانے اور ان میں رنگ بھرنے کے لئے اسے مسلسل ایک اسٹریچر پر افقی سمت میں لیٹ کرکام کر نا پڑتا تھا جس کی وجہ سے وہ ایک نہایت ہی مہلک مرض لمبے گو(lumbago) کا شکار ہو گیا جس کی وجہ سے وہ کھڑے رہنے اور بیٹھنے سے بھی قاصر تھا۔ملکہ بر طانیہ نے ایک دن جب گرجا گھر کی تزئین اور خا ص کر تصویروں کے رنگ و روغن کے معائنہ کا قصد کیاتب مائیکل انجیلو ملکہ کی آمد سے قبل قطعی معائنہ کے لئے پہنچا تو اسے چھت کے ایک کو نے پر رنگوں کا امتزاج پسند نہیں آیا جب کہ یہ امتزاج غلط بھی نہیں تھا پھر بھی اس نے اپنے مدگار کو اسٹریچر کے بند و بست کا حکم دیااور مر ض کی پرواہ کئے بغیر چھت تک پہنچ کر رنگوں کو تبدیل کر دیا۔مر ض کی وجہ سے اس کو چھت تک پہنچنے اور رنگ کو بدل نے کے لئے نہایت تکلیف دہ مشقت کو بر داشت کر نا پڑا۔ جب وہ اس کا م سے فارغ ہو تو اس کے معاون نے پوچھا کہ آپ کو اتنا جو کھم لینے کی کیا ضرورت تھی کہ ملکہ باب الداخلہ سے آتی او ر نکل جا تی رنگوں کے امتزاج کا اس کو مطلق علم نہیں ہوتا اور پہلے والا امتزاج بھی کسی خرابی سے پا ک تھا پھر بھی آپ نے اتنی مشقت کیوں اٹھائی۔ اس امتزاج پر ہم جیسے مشاق مصوربھی مطمئن تھے تو ایک عام آدمی کس طرح سے اس امتزاج کو غلط پا تا۔ مائیکل انجیلو کچھ دیر کے لئے خا موش ہوگیا پھر گویا ہو ا کہ میں ہی وہ فر د ہوں جسے یہ امتزاج غلط نظر آیا اور جب تک میں یہ نقص دور نہیں کر لیتا بھلا مجھے کس طرح سے اطمینان نصیب ہو تا۔

        مائیکل انجیلو کی طرح ہر طالب علم اپنی تعلیم کے تیئں حد درجہ دلچسپی اور انہماک کا مظاہرہ کر یں بالکل اسی طرح اپنا احتساب کر یں جس طرح سے انجیلونے اپنا احتساب کیا۔ اپنے نقائص کی خود جانچ کر یں ہر چند کہ یہ نقائص دنیا سے پوشیدہ کیوں نہ ہوں تاکہ علم میں نکھار پیدا ہو اور وہ اپنے فن میں مہارت حا صل کر سکیں اگر طالب علم اپنے عیب کو جان کر بھی اس کو دور کر نے کی سعی وہ کاوش نہیں کر ے گا تو یہ عیب اس کے مقاصد کے حصول میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن جائے گا۔طلبہ کو علم ہوتا ہے کہ وہ کس مضمون میں کمزور ہیں اور کس مضمون میں انھیں سخت محنت کی ضرورت ہے طلبہ اپنے نقائص دور کر کے ہی  ایک پر سکون تعلیمی سفر جا ری رکھ سکتے ہیں۔ زندگی میں اوج کمال تک پہنچنے اور اعلی پوزیشن پا نے کے لئے صرف درسی کتب کا مطالعہ ہی کا فی نہیں ہوتابلکہ حصول علم کی غرض و غایت سے آگہی لازمی ہوتی ہے اور مقاصد کے حصول اور بہتر زندگی کے لئے محتاط جامع منصوبہ بندی بھی ضروری ہوتی ہے۔ایک صف اول کے اور عام طالب علم میں چاربنیادی امور (1) تجزیہ و تحلیل(analysis)(2) یا داشت(memory)(3) اعادہ(recall)(4)اورتخلیقی صلاحیت(creativity) کا واضح فرق پایا جا تا ہے۔

        تحلیل وتجزیہ کے بغیر پڑھنا ایسا ہی ہے جیسے پیراکی کے لئے کتب خا نے میں جا نا۔مطالعے اور درسی لکچر کے دوران تحلیل و تجزیہ ضروری ہو تاہے دوسروں کے مفروضے یا نظریات کو حتمی یا روشن لکیرنہیں سمجھنا چاہئے۔مطالعہ یا لکچر کے دوران اہم نکات کی نشاندہی اہم ہو تی ہے جس طرح پھل کے چھلکوں کو نہیں بلکہ اس کے معز کو اہمیت دی جا تی ہے اور چھلکوں کو پھینک دیا جا تا ہے اسی طرح غیر ضروری نکات سے احتراز حافظہ کو تیز کر نے اور موثر مطالعے کے فروغ کا با عث ہوتاہے۔ تجزیہ و تحلیل کا عمل بہتر تفہیم اور عمدہ حافظے کی بنیادوں کو استوار کر تا ہے جو طالب علم تحلیل و تجزیہ کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے وہ صرف ایک کتا بی کیڑا بن جا تا ہے اور اس کی یا داشت بہت ہی مختصر ہو تی ہے۔تجزیہ ذہنی دباؤ کو کم کر دیتا ہے جس طرح چند دہائیوں قبل ہمارے ملک میں سوفٹ ڈرنک(مشروبات) کو بو تلوں سمیت برآمد کیاجا تا تھا جس کی دجہ سے ٹرانسپورٹ(حمل و نقل) کے کثیر اخراجا ت کا بوجھ اٹھانا پڑتا تھا لیکن بعد میں مشروبات کے بجائے صرف مرتکز شدہ محلول کو برآمد کر تے ہوئے مشروبات بنائے جانے لگے جس کی وجہ سے ۵۷ فیصد صرفے میں کمی واقع ہوئی بالکل اسی طرح طلبہ تجزیہ و تحلیل کے عمل کو اپنا کر اپنی ذہنی صلاحیتوں کو مزید فروغ دے سکتے ہیں اگر طلبہ بغیر تجزیہ و تحلیل اور غور و غوص کے مضمون کو صرف  یا د کرتے ہوئے ذہن نشین کر نے کے کوشش کریں گے تو اس کی مہنگی قیمت چکانی پڑے گی جس طرح ہمارا ملک مشروبات کی برآمد میں پہلے برداشت کر تا تھا بالکل اسی طرح طلبہ کو بھی شدید نقصان درپیش رہے گا۔ تجزیہ و تحلیل کے بناء کیا گیا مطالعہ یا پڑھائی فعال نیوران میں جگہ حا صل کر نے میں نا کا م ہو جاتی ہے اورجس کی وجہ سے مضمون کا اعادہ ممکن نہیں ہوپا تاہے۔ مضمون کو بغیر تجزیہ و تحلیل کے ذہن نشین کر نے کی کوشش میں زیا دہ سے زیادہ نیوران کی ضرورت در پیش ہوتی ہے جس کی وجہ سے دیگر مضامین کو درکار نیوران کی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تجزیہ و تحلیل میں نکات سازی معاون ہو تی ہے۔مطالعے یا لکچر کی سماعت کے دوران طلبہ جو اہم نکات اپنی زبان اور الفاظ میں قلم بند کرتے ہیں اسے کلیدی نکات سازی سے تعبیر کیا جا تا ہے۔ نکات سازی مختلف مرحلوں پر مبنی ہو تی ہے جیسے مضمون کی سادہ آسان نکات کے ذریعہ تحلیل،ضرورتا خاکوں اور رنگین قلموں کا استعمال،اسکول یا کالج سے واپسی پر اسی دن جماعت میں قلمبند نکات کی توسیع کا عمل،اپنے لکھے ہو ئے نوٹس کا اصل کتا ب سے موازنہ کرنا،کلیدی نکات کو دیکھے بغیر اسے دوبارہ لکھنے کی کوشش کر نا، اور دوبارہ اپنے لکھے ہوئے مواد کا موازنہ کر ناقابل ذکر ہیں۔اس طرح کے افعال کی انجام دہی سے مضمون طلبہ کے ذہنوں سے پیوست ہو جا تا ہے۔لیکن طلبہ اس با ت پر خا ص توجہ مر کوز کر یں کہ نکات کی قلمبندی کے وقت صرف اہم نکات کو ہی نوٹ کر یں اور مضمون کو جس قدرجامع اور مختصر بنا سکتے ہیں بنا ڈالیں تاکہ مضمون کے استحضار میں آسانی پیدا ہو سکے۔

یاداشت یا حافظہ: سائنسدا ں ڈ اکٹر کارن برگ کی دریا فت کے مطابق نیوران ایک خاص تر شے ایسڈ آر این اے کی وجہ سے فعا ل رہتے ہیں۔اس نے ایک چوہے کواکتساب سے متصف کر نے کے بعد اس کے دماغ کی جا نچ کی اورانکشاف کیا کہ ایسی حالت میں آراین اے کے اخراج میں بارہ فیصد اضافہ ہوا۔ڈاکٹر کارن برگ کو اس کارنامے کے لئے 1959  میں نو بیل انعام سے نوازا گیا۔یاداشت دو قسم کی ہوتی ہے ایک دائمی اور دوسری عارضی۔وہ مواد یا اشیاء جن کو انسان دلچسپ اور پر کشش محسوس کر تا ہے وہ اس کے دماغ کے فعال نیوران میں محفوظ ہو جا تے ہیں۔اور جو غیر اہم مواد ہو تا ہے وہ خفتہ نیوران میں جگہ بنالیتا ہے۔ایک طالب علم کو اس با ت کا فیصلہ کر نا ہو تا ہے کہ وہ کس چیز کو فعال نیوران میں رکھے اور کسے خفتہ نیوران میں۔لیکن معاملہ بد قسمتی سے اس کے بر خلاف ہوتا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ طلبہ ٹیلی ویژن پروگراموں کی تفصیلات،فلمی کہانیاں،یوم عا شقان،موسیقی اور کرکٹ کے اعداد و شمار کو یا د رکھتے ہیں۔سائنسی مشاہدات کی روشنی میں ایک آدمی ایک دن میں اکتساب شدہ تصورات کا پچاس فیصد،اندرون ایک ہفتہ پچہتر فیصد اوراندرون ایک ماہ اسی فیصد بھولادیتا ہے۔با الفاظ دیگر ایک طویل مدت میں ایک آدمی صرف اپنے اکتساب یا سکھے ہوئے کا صرف بیس فیصد یا د رکھتا ہے۔طلبہ کو اس بیس فیصد مواد کی پسند کے انتخاب میں نہایت مستعد ہو نا چاہیئے۔مثال کے طور پر ایک طالب علم نے دوپہر کو اپنا پسندیدہ ٹی وی سیریل دیکھا ور رات میں نیوٹن کے کلیات کا مطالعہ کیا۔اب ان کو یادگار بنانے کے لئے یعنی بیس فیصد فعال نیوران میں جگہ دینے کی تر جیحات طالب علم پر منحصر ہو تی ہے۔اگر ٹی وی سیرئل اس کو دلچسپ لگتا ہے تو وہ فعال نیوران کا حصہ بن جا ئے گا بجائے نیوٹن کے خشک کلیات کے۔اسی لئے ماہرین تعلیمات مضامین کو دلچسپ اور پر کیف بنانے کی اکثر تلقین کر تے رہتے ہیں۔جیسا کے سائنسی انکشافات کی روشنی میں یہ حقیقت عیا ں ہو چکی ہے کہ ہم جو بھی سیکھتے ہیں طویل مدتی عر صے میں صرف اس کا بیس فیصد ہی ہم یاد رکھ پا تے ہیں اس کلیہ کی روشنی میں اگر ہم اپنے اکتساب کی مقدار کو بڑھا دیں گے تو بھی طوعا ًو کر ہا ًاس کا بیس فیصدحصہ لمبے عر صے کے لئے ہمارے حا فظے میں محفوظ ہو جا ئے گا اسی لئے کہا گیا ہے کہ مضبوط اکتساب کی بنیاد مقدار اور اس کی تکرار پر منحصر ہوتی ہے۔

        فر ض کیجئے کہ کسی دن ایک طا لب علم ایک سو نظریات کو سیکھتا ہے تو طویل مدت کے لئے اس کا صرف بیس فیصد ہی وہ اپنے حا فظے میں محفوظ رکھ پا ئے گا۔ فر ض کیجئے کہ اس کے سیکھنے،دیکھنے یا تجربے اور مشاہدے میں ہر دن دو سو نظریا ت آرہے ہیں تب اس کے حافظے کی گنجائش چالیس نظریات کی ہو گی اس طر ح سے اگر طلبہ اکتساب کی مقدار یا حد کو بڑھتے جا ئیں تو یہ امر یقینا یاداشت کی مقدار میں اضافے کا باعث  ہوگا۔ہم امتحان گا ہ میں دیکھتے ہیں کہ طلبہ اپنے ناخن چبانے لگتے ہیں وہ سوال کے جواب جانتے ہیں ان جوابات کو انھوں نے پڑھا بھی اور یا د بھی کیا لیکن وہ ان کے اعادہ میں ناکا م ہو جا تے ہیں جیسے کوئی خوف ان کا پیچھا کر رہا ہو وہ اپنے آپ کو بالکل بے بس محسوس کرنے لگتے ہیں جیسا کہ ایک مچھلی ان کے ہا تھ سے پھسلی جا رہی ہو۔بر خلاف اس کے وہ غیر تدریسی نکات جو کہ تفریحات پر مبنی ہو تے ہیں جیسے فلمی گانے، ترانے،لطائف،ڈرامے وغیرہ ہر پل جب وہ چا ہیں ان کو ری کال کر نے میں کا میا ب ہو جا تے ہیں۔یہ اسی لئے ممکن ہو تا ہے کہوہ ان واقعات کو اٹھتے بیٹھتے ہر جگہ دہراتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے فعال نیوران میں یہ مستقل چھپ جا تے ہیں جب کہ نصابی نکات سوال و جواب کو اس طرح با قاعدہ دہرایا نہیں جا تا جس کی وجہ سے وہ خفتہ نیوران میں جگہ پا تے ہیں اور وقت مقررہ پر ان کا دہرانا مشکل ہو جا تا ہے۔ذہنی بہاؤمیں حائل رکاوٹیں بھی اعادہ میں ما نع ہو تی ہیں۔ایک آدمی جس کا گھٹنہ حادثہ میں زخمی ہو چکا تھا اسے ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ وہ ایک مہینے تک روزانہ علی الصبح جنگل میں ایک خا ص درخت کے تنے سے تا زہ تازہ عرق نکا ل کر زخم پر لگائے۔وہ ڈاکٹر کی احکام کی تعمیل کر تا ہے ااس دوران جنگل کا راستہ اس کے ذہن میں پیوست ہو جا تا ہے کہ وہ اندھیرے میں بھی راستہ کی نا ہمواری(گڑھوں) کا اندازہ قائم کر لیتا ہے اور رکاوٹوں سے الجھے بغیر اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں کا میا ب ہو جا تا ہے۔

        یہ طلبہ کے لئے ایک روشن مثال ہے کہ وہ اگر روزانہ اپنے مضامین کو دہراتے رہیں تو اس کی مشکلات کا اندازہ قائم کر تے ہوئے اس کے تدارک کی تدبیر یں آسانی سے کر سکتے ہیں۔ سونے سے پہلے بستر پر لیٹے ہوئے آنکھوں کو بند کر کے دن بھر پڑھے گئے مضامین کو دہرائیں،نہاتے ہوئے (اگر چیکہ یہ با ت عجیب اور مضاحکہ خیز لگتی ہے)کھاتے ہوئے،بس میں بیٹھ کر، اسکول کی ویان یا آٹو میں بیٹھ کر جہا ں کہیں وقت اس با ت کی اجا زت دیتا ہو  پڑھے گئے مضامین کو دہراتے جا ئیں اس طر ح کی مشق سے مضامین ذہن میں پیوست ہو جا تے ہیں اور طلبہ جب چاہیں اور جیسے چاہیں ان کو ری کا ل کر نے کی موقف میں ہوں گے۔دماغ تک جا نے والے الکٹرو میاگنیٹک راستے آپ کے علم (معلومات) کی شاہراہیں ہیں اگر ان شاہراہوں میں زیادہ  رکاوٹیں  (ٹرایفک) حائل ہوں گی تو راستے خراب ہوجائیں گے۔اگر یہ راستے بالکل ویران ہوں گے یا ان پر آمد و رفت بالکل کم ہو گی تو ان راہوں پر خود رو پودے گھانس پھونس اگ جا نے کا خطرہ بڑھ جا تا ہے۔یہ دو نو ں صورتیں بھی بہتر نہیں ہے۔بالکل دماغ کا معا ملہ بھی اسی طرح کا ہے اگر طلبہ غیر اہم ا مور کو اہمیت دیتے ہیں تو ان کے الکٹرو میاگنیٹک راستے غیر ضروری رکاوٹوں کی وجہ سے مسدود ہو جا ئیں گے۔اور حصول علم کا عمل دائمی طور پر ترک کر دیاجائے تویہ راستوں کی ویرانی اور خود کار پودوں اور گھانس پھونس کی افزائش کا با عث بن جا تے ہیں۔ان حالا ت کے سد با ب کے لئے طلبہ بہتر کتا بوں کے مطالعے کی عادت ڈالیں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ طلبہ گزشتہ سال پڑھائے گئے مضامین کے اہم نکات کا اعادہ کیئے بغیر ہی نئے مضامین کی تیار ی شروع کر دیتے ہیں۔ جس طرح ایک کسان اپنے ہر فصل کی کٹائی کے بعد بیج بونے سے پہلے ہل چلاکر زمین کو کا شت کے لائق بنا تا ہے بالکل اسی طرح طلبہ کو چاہئے کہ وہ بھی نئے سال اور نئے امتحان کی تیاری سے پہلے گر مائی تعطیلات کے دوران گزشتہ مضامین کے اعادہ کو اپنا معمول بنالیں جس سے مضامین کی تفہیم میں مدد ملتی ہے اور اکتساب کا عمل بھی تیز تر ہو جا تاہے۔ا ٓج کے سخت مسابقتی دور کی وجہ سے یاداشت کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے۔اسی لئے طلبہ کے نیوران کو متحرک (فعال) اوریاداشت کو بلندیوں کی معراج تک لے جائیں۔آپ کے مقابل بہتر ہیں اسی لئے آپ کا بہترین ہو نا لازمی ہے۔

تخلیقی صلاحیت طلبہ کی تعلیمی زندگی میں سب آخری لیکن سب سے اہم عنصر ہے۔اگر تمام طلبہ ٹھیک طریقے سے سوالات کے جوابات تحریر کرتے ہیں تو ممتحن کو سب سے بہترین معیار والے جواب ہی متاثر کریں گے۔تخلیقی صلاحیت صف اول کے طلبہ کو دیگر طلبہ سے نمایاں کر تی ہے۔تقریبا دو دہے قبل آکسفورڈ یونیورسٹی کے سماجیات کے سال آخر کے پر چے میں ایک سوال دیا گیا جس کے لئے پچاس نشانا ت مختص تھے جواب دس صفحات پر مختلف دلیلوں کے ذریعے تحریر کرنا تھااور وہ سوال تھا جرات کیا ہے۔ لیکن ایک طالب علم جس نے جواب میں صرف ایک جملہ لکھا اسی کو پہلا رینک دیا گیا۔ طالب علم کا ایک جملہ پر محیط جواب تھا کہ یہی جرات ہے۔ صرف ایک جرات والا جملہ جو تخلیقی صلاحیت سے بھر پور تھا دیگر جوابی بیاضوں پر سبقت لے گیا۔ زبان، الفاظ کی بندش،محاورات، فرہنگ اورر قواعد کاعلم تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں اہم کردار انجام دیتے ہیں۔تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعہ مطلوبہ نتائج کے حصول کے لئے ان امو ر پر نظر رکھنا ضروری ہوتاہے۔

(1) جواب کی پیشگی منصوبہ بند ی کا عمل جواب کے مقدارکا تعین اس کے آغاز اور اختتام کا خاکہ جواب کو متاثرکن بناتا ہے۔

(2)کسی بھی جواب کو تحریر کرنے سے قبل یکسوئی کے حصول کے لئے تیس سکنڈ کے لئے آنکھوں کو موندتے ہوئے لمبی اور گہری سانس لیں۔

(3)قواعد اور املا نقص سے پا ک ہونا چاہئے۔

(4)آپ کے جواب کا انداز منفرد ہو نا چاہئے اور جواب اس طرح سے لکھیں کہ ممتحن کسی قسم کی الجھن کا شکار نہ ہو اور باآسانی آپ کے ما فی الضمیر کو سمجھ سکے۔

(5)الفاظ کے استعمال میں چابکدستی کا مظاہرہ ضروری ہوتا ہے غیر ضروری الفا ظ خاص طور پر جن الفاظ کا آپ کو صحیح علم نہ ہو ان کے غیر منا سب استعمال سے ممتحن کو مر عوب کر نے کی کوشش نہ کریں۔

(6)جواب نہایت جا مع واضح اور سوال کے تما م پہلوں کا احا طہ کر تا ہو۔

(7)لفظوں کی تکرار سے بچئے اور آپ کو اس با ت کا علم ضروری ہے کہ آپ کب،کہاں اور کیسے سادہ اور مرکب جملوں کا استعمال کر یں۔صحیح اور ٹھیک پیراگراف کی تر تیب کو ملحوظ رکھیئے اور غیر ضروری علامات جیسے کاما وغیرہ کے   استعما ل سے پر ہیز کیجئے۔

(8) سب سے اہم با ت کہ آپ کو اپنے جواب پر مکمل اعتماد ہونا چاہئے۔زبان خواہ کوئی ہو اس پر عبور ہو نا چاہیے۔ الفاظ کے درست بر محل استعمال کے فن سے واقفیت ضروری ہے ورنہ الفاظ کے بے جا اور بے موقع استعمال سے ہم مذاق کا موضوع بن جا تے ہیں۔ تذکیر،تانیث،واحد،جمع،الفاظ کی بند ش اور جملو ں کی تر تیب کا علم ضروری ہے جس کے ذریعے ہم نہ صرف اپنے جوابات کو بلکہ اپنی گفتگو کو بھی پر اثر بنا نے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

        تخلیقی صلاحیت دراصل ما فی الضمیر کے اظہار کے فن کا نا م ہے۔یہ فن عمر کے ساتھ نمو اور فروغ پا تا ہے۔والدین سب سے پہلے بچوں میں اظہار کی صلاحیتوں کے فروغ کا با عث بنتے ہیں۔طلبہ اس فن کو درج ذیل امور کے ذریعہ فروغ دے سکتے ہیں۔

(1)دنیا میں آپ کے محبوب ترین شخص کے متعلق دس جملے لکھیئے۔

(2)اپنی دس خواہشات کو تحریر کریں

(3)عظیم شخصیات جیسے مرزا غالب،علامہ اقبال،اورنگ زیب وغیرہ پر چند جملے تحیر کیجئے۔

(4) اپنے متعلق دس جملے تحر یر کیجئے۔عموما یہ سوالات بہت آسان نظر آتے ہیں لیکن جب آپ اپنے جوابا ت کو ایک ہفتہ کے بعد پڑھتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہو تا ہے کہ اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور یہی امپرومنٹ تخلیقی صلاحیت سے معنون ہے۔ہر طالب علم اس کے حصول کو ممکن بنا ئے۔ابتدائی مرحلوں میں مذکورہ تکنیک پر عمل آوری تھوڑی مشکل ضروردیکھائی دے گئی لیکن مسلسل مشق کے ذریعہ طلبہ س کے عادی ہوجائیں گے اور یہ عادت ان کو زندگی کے ہر محاذ پرفوزو کامرانی سے ہمکنار کردے گی۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

1 تبصرہ

  1. بہترین ماشاء اللہ جناب فاروق طاہر صاحب
    اللہ تعالیٰ آپ کی عمر ، علم ، عمل میں برکت عطا فرمائے۔

جواب چھوڑ دیں