منافق کی پہچان میں سے ایک بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ جب بھی بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے۔ اگر ہم خود دروغ گوئی کو گناہ خیال نہ کرتے ہوں بلکہ فخر کے ساتھ بڑے فلسفیانہ انداز میں یہ کہتے ہوں کی اپنے قول و قرار سے پھر جانا (یو ٹرن لینا) عظیم رہنماؤں کی نشانی ہے اور جو قول و قرار سے نہیں پھرتے وہ دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوتے تو پھر ہوتا یوں ہے کہ دایاں دکھا کر بایاں مارنے والوں سے پوری دنیا بھری پڑی ہے۔ ایسا ہی کچھ ہمارے حکمرانوں کے ساتھ پوری دنیا میں کے “عظیم” رہنما کر رہے ہیں اور کرتے چلے آرہے ہیں۔
گڑ کھانا ضروری نہیں کہ ہر فرد کیلئے نقصان کا سبب بنے لیکن گڑ جس کیلئے نقصان کا باعث ہو اس کو گڑ کھانے سے روکنے کی نصیحت کرنے والے کیلئے ضروری ہوجاتا ہے کہ پہلے خود گڑ کھانے سے اپنے آپ کو روکے۔ جب ہم اپنی قوم کے لوگوں سے کئے گئے قول و قرار سے پھر جانا چالاکی، ہنر یا خوبی سمجھنے لگیں تو پھر کسی اور سے اسی قسم کے منافقانہ طرز عمل سے کیسے بچ سکیں گے۔
پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کو یقیناً پوری دنیا نے اس بات کا یقین دلایا ہوگا کہ وہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کے سلسلے میں پاکستان کے مؤقف کی حمایت میں ہیں لیکن جس قوم کے حکمرانوں نے اپنے ماضی کے تجربوں سے کچھ حاصل نہ کیا ہو اور وہ آج تک مسلمانوں کے ساتھ کئے جانے والے کسی بھی امتیازی سلوک سے باخبر نہ ہوں، ان کی ہر توقع اگر خیالِ خام ثابت نہ ہو تو یہ ایک معجزہ ہی ہو سکتا ہے۔ جس اقوام متحدہ کے پاس پاکستان انصاف کی امیدیں وابستہ کرکے دونوں ہاتھ پھیلاکر کھڑا ہوتا رہا ہے کیا اسے یہ علم نہیں کہ وہاں غیر مسلم تو غیر مسلم، وہ ممالک جن کو پاکستان “اسلامی” ممالک میں شمار کرتا ہے، وہ بھی کبھی مسلمانوں کے حق میں نہیں بولے اور اگر کسی مسلمان ملک کیلئے استصواب رائے طلب بھی کیا گیا تو ان کا ووٹ ہمیشہ “مفادات” کے پلڑے میں ہی پڑا ہے۔
وہ کشمیر جہاں ایک اندھے کو بھی مسلمانوں کا خون بہتا نظر آرہا ہو اور ایک بہرا بھی مظلوموں کی چیخیں، آہیں، کراہیں، سسکیاں اور دہائیاں صاف سن رہا ہو اور پاکستان اسی کشمیر کے حق میں دنیا کی اقوام سے رائے طلب کررہا ہو پھر بھی آنکھوں اور کانوں والوں کو نہ تو ظلم دکھائی دے رہا ہو اور نہ ہی چیخیں اور سسکیاں سنائی دے رہی ہوں تو پھر بھی ان ہی اقوام سے انصاف کی توقع کرنا کتنی بڑی نادانی ہوگی۔ کشمیر کے ظلم و ستم پر دنیا کا اندھا ہوجانا بے شک ہر ظلم سے بڑھ کر ظلم ہی سہی لیکن خود مسلمان ممالک، اور حد یہ ہو کہ حرمین و شریفین کی چابیوں کے مالک آل سعود کا کشمیر کے خلاف رائے کا استعمال ہونا، ایک ایسا جرم ہے جس کے بعد بھی پاکستان کی آنکھیں نہ کھلیں اور یہ قول و قرار سے پھر جانے (یو ٹرن) کو دانشمندی ثابت کرنے پر مصر رہیں تو پھر یہ بات کہنے میں کم از کم مجھے تو کوئی خوف یا وسوسہ نہیں کہ ہمیں اپنے آپ کو مسلمان کہنے اور سمجھنے پر از سر نو غور کرنا ہوگا۔
ان ہی سارے حالات اور معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا ہے کہ “حکمرانوں کا 58 ممالک کی حمایت حاصل ہونے کا دعویٰ کہاں گیا؟۔ اقوام متحدہ میں قرار داد پیش کرنے کے لیے مطلوبہ تعداد میں ممالک کی حمایت نہ ملنا ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے، اسلامی ممالک کو پاکستان کا ساتھ دینا چاہیے تھا۔ اقوام متحدہ یا امریکا ہماری مدد نہیں کریں گے، ہمیں اپنی جنگ خود ہی لڑنا پڑے گی”۔
بات یہی درست ہے کہ ہم اس بات کا تو ہر مقام پر تذکرہ کرتے چلے آئے ہیں کہ فلاں فلاں واقعے کے بعد ہمیں امریکہ کی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ جنگ جو سراسر پاکستان کی جنگ ہے، پاکستان اس جنگ کو چھیڑنے میں لیت و لعل سے کیوں کام لے رہا ہے اور اس بات کا خواہشمند کیوں ہے کہ دنیا لازماً اس کا ساتھ دے۔
عمران خان کا ہر فورم پر اس بات کو دہرانا کہ ہمیں امریکہ کی جنگ میں نہیں کودنا چاہیے تھا بے شک بہت درست بات سہی لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کیا صرف امریکہ کی جنگ میں ہی کودا تھا؟۔ اگر سارے معاملات کا بھرپور جائزہ لیا جائے تو روس کے خلاف مجاہدین کو تیار کرنے میں بھی اصل جنگ “ڈالروں” کی تھی، پھر امریکہ کو اپنی سرزمین، فضا اور سمندر دینا بھی “ڈالروں” ہی کی برسات تھی یہاں تک کہ ان سارے جانبازوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا جنھوں نے روس کے دانت کھٹے کر دیئے تھے، کے پس پشت بھی “ڈالروں” کی ریل پیل کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ ان تمام حقائق کو سامنے رکھا جائے تو اب امریکہ یاترائیں اور اقوام عالم سے ساتھ دینے کی اپیلیں بھی محض اس لئے ہیں کہ ہم بنا امداد و تعاون اور ڈالروں کی چمک دمک، دو قدم بھی چلنے کے عادی نہیں رہے ہیں۔
یہاں جو سب سے غور طلب بات ہے وہ یہ ہے کہ دنیا صرف اور صرف اسی کی ہوتی ہے جو “اپنا” ہوتا ہے۔ اپنی قوم سے سچا ہوتا ہے، جو کہتا ہے کرتا ہے اور جس میں اپنی قوم کیلئے اپنے آپ اور اپنی ذات کو فنا کرنے کا جذبہ ہوتا ہے۔
موجودہ حکمران تخت حکومت پر بیٹھنے سے کہیں پہلے اور بیٹھنے کے فوراً بعد جو جو قوم سے وعدے اور دعوے کرتے آئے ہیں جب وہ ان پر ہی پورے اترنے کیلئے تیار نہیں تو دنیا ان کی کس بات پر حمایت کیلئے کھڑی ہوگی۔ میں زیادہ نہیں چند موٹی موٹی باتیں اس زمرے میں بیان ضرور کرنا چاہوں کہ تاکہ حکمرانوں کو اندازہ ہوسکے کہ جب وہ اپنی ہی قوم کے ساتھ اتنے سنگین مذاق پر کسی قسم کی کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے تو دنیا کو کیا غرض پڑی ہے کہ وہ ان کے ساتھ قول و قرار کی پابندی کرے۔
پاناما، سب کا بلاامتیاز احتساب، سوئس بینکوں میں پڑے کھربوں ڈالروں کی واپسی، مہنگائی کا خاتمہ، پٹرول، بجلی گیس کا سستا ہونا، سعودی قیدیوں کی واپسی، قرض نہ لینے کا دعویٰ، ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر، تھانہ کلچر کی تبدیلی، سستا انصاف، بلدیاتی نمائندوں کی خودمختاری، سانحہ ماڈل ٹاؤن، سانحہ ساہیوال، راؤ انوار کی سزا، کلبھوشن کی پھانسی، کرپٹ نظام کا خاتمہ، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا خاتمہ، ایم کیو ایم سے اتحاد نہ کرنا، آزاد امید واروں کو ساتھ نہ ملانا، جس پر کوئی الزام ہو اس کو ساتھ نہ ملانا، ڈاکٹر عافیہ کی واپسی، پروٹوکول کا خاتمہ، وزیر اعظم صدر گورنرز اور وزرائے اعلیٰ کی عمارتوں کو اسکول کالج اور یونیورسٹیاں بنانے کے دعوے، ڈیموں کی تعمیر، دس ارب درخت اگنا اور معیشت کو راتوں رات صحیح کردینا، جیسے سیکڑوں وعدوں سے یک سر پھرجانا جن حکمرانوں کا شعار بن گیا ہو کیا وہ دنیا سے اپنے لئے تعاون کی اپیل اور کشمیر کے سلسلے میں ساتھ دینے کی درخواست کرنے کا حق رکھتے ہیں؟۔
جو بات حقیقت بن کر سامنے آرہی ہے وہ یہی ہے کہ اب بات مذاہب کی تفریق سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ اب دنیا کا مذہب “مفاد” کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ جب خادمینِ حرمین و شریفین کی آنکھیں بھی “چمک” کے سامنے چندیا جایا کرتی ہوں تو پھر کسی اور سے شکوہ و گلا تضیع اوقات کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ جو پاکستان 90 کی دھائی تک بااعتبار معیشت دنیا کے بیسیوں ممالک، بشمول ملائیشیا، ایران، سنگاپور اور خود بھارت سے کئی گنا آگے تھا، وہ اس بات پر غور کرنے کیلئے تیار نہ ہو کہ وہ اس خطے کا سب سے کمزور ملک بن کر کیوں رہ گیا ہے تو پھر وہ یہ توقعات وابستہ کرے کہ دنیا کے ممالک اس کے ساتھ جذبہ ہمدردی کا اظہار کریں گے، خود فریبی کے سوا کیا ہے۔
عالم یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران “اسی عطار کے لونڈے” سے دوا لینے سے باز آکر نہیں دے رہے ہیں جس “عطار” کی وجہ سے وہ بیمار ہوئے تھے اور اب تک اس فریب میں مبتلا ہیں کہ وہی اس کے دکھو کا مداوا کرے گا۔ حکمران اب بھی امریکی صدر کو ثالث بنانے کیلئے تیار و آمادہ ہیں جبکہ کل کے مودی کے جلسے میں اس کی واضح اور صاف صاف گفتگو سن چکے ہیں۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر فاروق حیدر نے کیا پیاری اور سچی بات کہی ہے کہ “مقبوضہ وادی پر ثالثی کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے”۔ جب ایک بات الم نشرح ہوہی چکی ہے تو اب کسی بھی قسم کی امیدیں وابستہ کرنا بہت بڑا سنگین جرم ہوگا۔
ملکوں اور اقوام عالم کے فریبوں سے باہر نکلیں۔ حکمران مسلمان بنیں اور مسلمان بن کر سوچیں۔ ان کے پاس ایک ہی راستہ رہ گیا ہے اور وہ راستہ جہاد کا ہے۔ جہاد اللہ کا حکم ہے اور گریز شیطانیت۔ اگر آج بھی وہ سچے دل کے ساتھ اللہ کیلئے خالص ہو جائیں تو اگر کل پاکستان بن سکتا تھا تو آج کشمیر بھی پاکستان بن سکتا ہے۔ سچی بات یہی ہے کہ آگ بیشک گل و گلزار بن سکتی ہے لیکن اس کیلئے بنیادی شرط ابراہیمؑ کا ایمان پیدا کرنا ہے۔ یہی ایک راستہ ہے جس کو چاہے سرنگر کیلئے لئے چن لیا جائے یا مودی جنونیت کی آگ کا مظفرآباد اور اسلام آباد تک آنے کا انتظار کیا جائے۔