ڈینگی کیا ہے؟،اس سے کیسے بچیں

پاکستان کے بیشتر شہروں میں ڈینگی وائرس ایک بار پھر بے قابو ہے، جہاں ڈینگی کے ہزاروں کیسزرپورٹ ہوئے ہیں۔ جبکہ بڑے شہروں کے سرکاری ہسپتالوں میں ڈینگی کے مریضوں کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ اس ضمن میں ڈینگی کنٹرول پروگرام حکام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس موجود اعداد و شمارکے مطابق اس وقت پورے ملک میں ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد تقریباً 3674 ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق متاثرہ مریضوں میں سے 2158 پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں ڈینگی بخار کی تشخیص ہو چکی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی صوبائی حکومت سمیت شہری انتظامیہ کی جانب سے تاحال ہنگامی بنیادوں پر وہ اقدامات اٹھتے دکھائی نہیں دے رہے جس کے حالات متقاضی ہیں۔ یہاں یہ امر انتہائی توجہ طلب ہے کہ جس رفتار سے ملک کے مختلف حصوں سے ڈینگی مچھر کی موجودگی کی رپورٹیں سامنے آ رہی ہیں، انتظامیہ کو فوری طور پر ہر شہر میں مچھر مار سپرے کروانا چاہیے۔ یہاں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مارکیٹ میں مچھر مار اور ڈینگی علاج کی ادویات نہ صرف مہنگے داموں فروخت کی جا رہی ہیں بلکہ ناقص مصنوعات بنانے والی کمپنیاں بھی اس کی آڑ میں متحرک ہیں، جن سے نمٹنے کے لئے قانون کو بلاتاخیر حرکت میں آنا چاہئے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری ہے کہ ملک کے دیگر شہروں میں حفاظتی انتظامات پر کڑی نظر رکھی جائے، آنے والے دن ڈینگی مچھر کے حوالے سے نہایت خطرناک ہوں گے۔ کیونکہ اگست سے دسمبر تک ان مچھروں کی تیزی سے افزائش ہوتی ہے تاہم سردموسم میں ان کی افزائش نسل رک جاتی ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں ڈینگی کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ مناسب آگاہی اور حفاظتی تدابیر کا نہ ہونا بھی ہے، جس کے باعث یہ بیماری مہلک اور خطرناک صورت اختیار کر لیتی ہے۔ عوام میں اس بیماری کے بارے میں بہت زیادہ خوف و ہراس پایا جاتا ہے، ضروری ہے کہ آگاہی فراہم کی جائے، اور بتایا جائے کہ ڈینگی قابل علاج مرض ہے اس سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے۔ اس مرض پر قابو پانے کے لیے حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ مچھروں کی افزائش نہ ہو۔
اگر یہ کہا جائے کہ موسم برسات اور ڈینگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے تو یہ بے جا نہ ہو گا کیونکہ موسم برسات آتے ہی ڈینگی مچھر بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ سر اٹھانے لگتا ہے خصوصاً وہ علاقے جہاں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں یا سیلاب زدہ علاقوں میں ڈینگی کے خدشات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ عموماً برسات میں بارشوں کی وجہ سے جمع شدہ پانی یا کھلے برتنوں میں جمع صاف پانی میں ڈینگی مچھر پرورش پاتا ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق ڈینگی بخار ایک وائرل بیماری ہے جسے ہڈی توڑ بخار بھی کہا جاتا ہے، یہ ایک مخصوص مادہ مچھرکے کاٹنے سے ہوتی ہے۔ یہ مچھر خصوصاً طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت زیادہ کاٹتا ہے، اس بیماری کا حملہ اچانک ہوتا ہے اور کچھ دنوں کے لئے اس کے اثرات جسم کے اندر موجود رہتے ہیں۔ ڈینگی مچھر زیکا اور چکن گنیا جیسے امراض کا بھی سبب بن سکتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال پانچ کروڑ سے زائد افراد ڈینگی بخار کا شکار ہوتے ہیں اور سالانہ بیس ہزار سے زائد افراد اس مرض سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ تاہم بروقت علاج سے صحت یابی کا تناسب بہت زیادہ ہے اور99 فیصد مریض اس سے مکمل طور پر صحت یات ہو جاتے ہیں۔
دنیا بھر کے ممالک میں ڈینگی وائرس پھیلانے والے اڑتیس اقسام کے مچھر ہیں، پاکستان میں ان میں سے صرف ایک قسم کا مچھر پایا جاتا ہے۔ ڈینگی مچھر کی پہچان یہ ہے کہ اس کا جسم سیاہ ہوتا ہے جبکہ اس کی ٹانگوں اور چھاتی پر سفید دھاریاں ہوتی ہیں۔ یہ صاف پانی یا نیم کثیف پانی کے چھوٹے چھوٹے ذخیروں میں پیدا ہوتا ہے۔ عام نزلے کے ساتھ شروع ہونے والا ڈینگی وائرس،تیز بخار،سر اور آنکھوں میں شدید درد، تمام جسم کی ہڈیوں، گوشت یہاں تک کہ جوڑوں میں شدید درد، بھوک کم ہو جانا، متلی ہونا،بلڈپریشر کم ہونا، جسم کے اوپر والے حصے پر سرخ نشان ظاہر ہونا اس کی واضح علامات ہیں۔ اگر نوعیت شدید ہو جائے تو ناک منہ سے خون بھی جاری ہو سکتا ہے۔ اس مرض کی تشخیص صرف لیبارٹری میں خون کے ٹیسٹ CBC کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ڈینگی وائرس کا شکار ہونے والے افراد پر اگر یہ وائرس دوبارہ حملہ آور ہو تو یہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ یہاں اس بات کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ یہ بیماری براہ راست ایک شخص سے دوسرے شخص کو منتقل نہیں ہوتی بلکہ مخصوص مچھر ہی اس کے انتقال کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے ڈینگی سے متاثرہ مریض سے علیحدہ ہونے کے بجائے مچھروں کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ بعض اوقات مریض کو علیحدہ رکھا جاتا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ متاثرہ شخص کو کاٹ کر مچھر مزید بیماری پھیلانے کا باعث نہ بنیں۔ ڈینگی وائرس سے احتیاطی تدابیر کے طور پر ضروری ہے کہ ماحول کو خشک اور صاف رکھاجائے،کھڑکیوں اور دروازوں پر جالی لگوائی جائے۔ پانی کے برتن اور پانی کی ٹینکی کو ڈھانپ کر رکھا جائے۔ فریج کی ٹرے، گملوں اور پودوں کی کیاریوں کی صفائی کا خاص خیال رکھا جائے، کیونکہ سر دست اس مچھر کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ اس کے ساتھ ہر ضلعی و شہری انتظامیہ کو بارشی پانی کی نکاسی اور گڑھے بھرنے میں تاخیر نہیں کرنا چاہیے اور ماحول کو مچھروں سے محفوظ رکھنے کے لئے ہر وارڈ، ہر گلی میں مچھر مار اسپرے کرواناچاہیے۔ ان معمولی احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد سے ڈینگی وائرس پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔

حصہ
mm
رانا اعجاز حسین ایک منجھے ہوئے قلم کار ہیں وہ مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں