؎ میں اپنی بات شروع کروں کہاں کیسے؟
یہاں ہر شخص ہے کہ ڈنڈا بردار ہے!
پنجاب پولیس کی جانب سے ملزموں پر کیا جانے والا ظلم و تشدد کوئی نئی بات نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ظلم رکےگا کیسے ؟ راؤ انوار جیسا قاتل آزاد گھوم رہا ہے اور صلاح الدین جیسے ذہنی معصوم لوگ پولیس تشدد سے ہلاک ہو رہے ہیں۔’ ہم حیوانوں کے معاشرے میں بستے ہیں کبھی سیالکوٹ میں بے گناہ معصوم بھائی مار دیے جاتے ہیں کبھی تین سو کی چوری پر بچے کو اتنا مارتے ہیں کہ جان ہی چلی گئی پھر نا سمجھ چھوٹے بچوں کے سامنے ماں باپ کا بے دردی سے قتل ۔ اور کبھی پولیس کے عقوبت خانوں میں ان گنت لوگ بنا کسی جرم کے قانون کی درندگی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ اب کچھ دنوں قبل ہی کی بات ہے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں اے ٹی ایم سے رقم چرانے کے الزام میں پکڑے جانے والے صلاح الدین نامی شخص کی پولیس کی حراست میں ہلاکت ہوگئی بعدازاں رسمی کارروائی پوری کرنے کیلئے تشدد میں ملوث اہلکاروں پر تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کردیا گیا جو قتل عمد کے بارے میں ہے ۔
35 سالہ صلاح الدین نامی اس شخص کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں اسے اے ٹی ایم توڑتے اور اس عمل کے دوران سی سی ٹی وی کیمرے کو دیکھ کر شکلیں بناتے دیکھا جا سکتا تھا۔اس حوالے سے پولیس نے صلاح الدین کو رحیم یار خان سے حراست میں لیا تھا اور یکم ستمبر کو یہ بات سامنے آئی کہ وہ دورانِ حراست ہلاک ہو گیا ہے۔صلاح الدین کے لواحقین کے مطابق وہ ایک ذہنی مریض تھا جو ہمیشہ ادھر ادھر گھومتا رہتا تھا۔اس کے ہاتھ پر گھر کا پتہ کندہ تھا جولواحقین کی بات کی تصدیق کرتا ہے کہ متوفیٰ صلاح الدین واقعی میں ذہنی طور پر ٹھیک نہیں تھاایسے میں پولیس کاذہنی بیمار ملزم کو عدالت میں پیش کرنے کے بجائے ظلم کرنا کسی وحشیانہ عمل سے کم نہیں۔
پنجاب پولیس ایسی داستانے رقوم کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ اس سے قبل بھی سیکڑوں کیس ایسے ہیں جو ظلم کی تاریخ سے بھرے پڑے ہیں لیکن ہر نیا ظلم پرانے ظلم کو مٹا دیتا ہے حالانکہ کچھ ماہ پہلے ہوا ساہیوال سانحہ ایک ظلم کبیر تھا مگر بھولے بھٹکے صلاح الدین کی جیل میں ہلاکت بھی کسی قیامت ڈھانے سے کم نہیں۔
؎ مانا ہم ٹھہرے مجرم تیرے دربار کے
پر کیا جرم اتنا بڑا کہ سزا فقط موت ہے!
اے ٹی ایم کارڈ چرانے پر ، اتنی بڑی سزا کہ ملزم کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے اگر پنجاب پولیس کی کارکردگی پر فلم بنی تو اس کا نام غالبا منی 1984 ہونا چاہیے جس میں بھارتی پنجاب پولیس کی جانب سے اپنے ہی لوگوں پر کیا جانے والا ظلم تاریخ کی کتابوں میں ان ہی کے لہو سے درج ہے اور پاکستان کی پنجاب پولیس بھی لمحہ بہ لمحہ ان ظلمات کو دوہراتی رہتی ہے۔ کبھی دروازے توڑ کر بے لگام گھروں میں گھسنا اور خواتین کے ساتھ بے ادبی سے پیش آنا، روڑ پر خواتین کو گھونسے او رتھپڑ مارنا اور نہتے بے قصور مردوں کو قید کرکے ان کی خواتین سے رہائی کی شرائط منوانا یہ وہ کارنامے ہیں جو ہماری پنجاب پولیس بخوبی ثواب سمجھ کر سرانجام دے رہی ہے۔
انسانیت اور ہمارا مذہب اسلام ،چھوٹی سی چوری پر تشدد اور ظلم کرکے کے ہلاک کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور بھولے کے بارے میں تو بزرگوں نے کیا خوب کہا ہے کہ؛ “یہ اللہ کے دوست ہیں اور معصوم ہیں انہیں نہ چھیڑو اگر تم اپنے پاس کسی برائی کے آنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔” تو صلاح الدین پر ظلم کرنے والے کس خوش فہمی کا شکار ہیں انہیں بے آواز لاٹھی کا ڈر نہیں یا ان کے سینوں میں دل نہیں ۔” شاید یہی بات ہو!
وردی بھی تبدیل کرلی، عمران خان حکومت نے 2 بار آئی جی بھی بدل دیے، اصلاحات لانے کی بھی بات ہوگئی اب پھر سے وردی بدلنے کے مشورے ہورہے ہیں یہ تو وہی بات ہوگئی گھر میں سب سے شریر بچے کو کہا جائے جاؤ جا کر نئے کپڑے پہن لو جبکہ وہ دن میں پہلے ہی 3 لباس اتار چکا ہے۔ عوام کی جانب پی ٹی آئی کو ووٹ دینے اور ان کے لیے مہم چلانے کی وجہ یہ تھی کہ عمران خان پاکستان میں سماجی انصاف یقینی بنائیں گے۔ اور یہاں دو نہیں ایک پاکستان ہو گا۔ ایک پاکستان جو ہر ایک کا ہو گا قطع نظر اس کے کہ کسی کا سماجی رتبہ کیا ہے۔ خان اپنے ووٹر کو مایوس مت کرو۔’ میں خود وزیر اعظم عمران خان سے محبت کرتا ہوں مگر جب اگلی بار وہ یہ الفاظ کہیں کہ ‘مدینہ کی ریاست میں’ تو میرے ذہن میں پہلا خیال اور تصویر جو آئے گی وہ صلاح الدین کی لاش کی ہو گی اور اس کے والد کی ہو گی جو اسے گلے لگانے کے منتظر ہیں، ساہیوال کے قتلِ عام کی ہو گی۔’ قارئین کی یاددہانی کیلئے عرض ہے؛
“پاکستان تحریک انصاف کے منشور میں پولیس اصلاحات ایک اہم ترین موضوع تھا۔ اس سیاسی جماعت کو صوبہ خیبر پختونخوا میں پولیس اصلاحات لانے کے حوالے سے پذیرائی بھی حاصل ہوئی تھی لیکن ابھی تک پنجاب میں گزشتہ ایک سال کے دوران کوئی ایسے خاص اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ پولیس اہلکاروں کی جانب سے حراست میں لیے گئے شہریوں پر تشدد کرنے کا مسئلہ بہت گھمبیر ہے۔ پولیس اہلکار پولیس کو ہی جواب دہ ہیں اس لیے احتساب کے معاملے میں ان پر سختی نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ پولیس والوں کو بھی ڈر ہو کہ وہ کہیں جواب دہ ہوسکتے ہیں۔ پولیس کو وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ پولیس کو جدید طریقے سے تفتیش کرنے کی تربیت نہیں دی گئی۔ یہ نہیں سکھایا جا رہا کہ یہ تشدد کے بغیر بھی تحقیقات کر سکتے ہیں۔”
لہٰذا تبدیلی وردی بدلنے سے یا آئی جی کے تبادلوں سے یاپھر نئے منشور مرتب کرنے سے نہیں آئے گی بلکہ تبدیلی اس وقت رونما ہوگی جب آپ میٹرک اور مڈل کلاس پاس پرانے وقتوں میں بھرتی ہوئے اہلکاروں کی بین الاقوامی معیار پر تربیت نہیں کردیتے کہ آیا انہیں ملزموں سے پیش کس طرح آنا ہے اور ڈیوٹی کے دوران راہ گیروں سے کیسے بات کرنی ہے یا پھر گھر میں ریڈ کرتے وقت کن اخلاقیات کا خیال رکھنا ہے؟ ساتھ ساتھ یہ بات بھی معنی خیز ہے کہ پولیس میں بھرتی کرنے کے بعد جسمانی تربیت سے زیادہ ان کی اخلاقی تربیت پہ زور دینا چاہیے کیونکہ کوئی بھی مہذب انسان ان کے پاس جانے سے ڈرتا ہے’۔اگر بالفرض انہیں ٹریننگ بھی دے دی جائے تب بھی یہ باز نہ آئیں تو انہیں جبری طور پر ریٹائر کردیا جائے اور ان کی جگہ پڑھے لکھے سلجھے جوانوں کو میرٹ پر نوکریاں دی جائیں کیونکہ زمین بنجر ہو تو جتنا مرضی پانی دے دو ہریالی نہیں آتی اور کتے کی دم سو سال بھی سیدھی رکھ کر چھوڑو آخر وہ ٹیڑھی ہی رہے گی!۔