ہم کہاں جارہے ہیں

ہم پروفیسر صاحبہ کی خدمت میں پڑھائی کے سلسلے میں حاضر ہوئے، ہم کام کر رہے تھے کہ اچانک باہر سے ان کا بارہ تیرہ سال کا چھوٹا بیٹا  بھاگتا ہوا آیا ۔ وہ بڑے غصے میں تھا جیسے باہر کسی سے لڑ کر آیا ہو۔ پروفیسر صاحبہ نے پوچھا تو وہ اسی غصیلے لہجے میں چلانے لگا، وہ فلاں کا بچہ اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے پھر اس کے ساتھ ہی اس نے دو تین گالیاں بھی دے ڈالیں ۔ تعصب اس کے لہجے سے کوٹ کوٹ کر جھلک رہا تھا۔ ایسا ممکن نہیں کہ آپ کا بچہ باہر گلی میں کھیلنے جاتا ہو اور اسے مخصوص گالیاں نہ آتی ہوں۔ سب سے دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ سب الفاظ یاں گالیاں کسی نہ کسی  تعصب کی بنا پر بنائی گئی ہیں، یہ حقیقت ہے مگر افسوس ناک ہے ۔

یہ سننا تھا کہ پروفیسر صاحبہ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور انہوں نے اسے ایک لگائی مگر صرف یہی نہیں بلکہ اسے پاس بٹھا کر اچھا خاصا لیکچر بھی دے ڈالا ۔ ہم نے تو از راہ ہمدردی کہا، میڈم جی اتنی بڑی بات کو توتھی ہی نہیں یہ تو عام سی بات ہے آپ نے ایسے ہی بچے پر اتنا غصہ کر دیا ۔ پروفیسر صاحبہ نے الٹا ہمیں ہی ڈانٹ دیا، ہم اپنا سا منہ لے کر بیٹھ گئے ۔ پھر انہوں نے آرام سے سمجھایا کہ بچے اسی عمر میں ایسی باتیں سیکھتے ہیں اور اگر اس عمر میں ان پر سختی نہ کی جائے اور سمجھایا نہ جائے تو یہ سب ان کا خاصا بن جاتا ہے۔ پھر وہ ان باتوں کو ہی درست مانتے ہیں اور یہی کرتے ہیں اور اسی طرح یہ تعصب پروان چڑھتا ہے جو علاقے، زبان مذہب سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔

آج کل ابھی محرم الحرام کے دنوں میں جہاں کربلا کی کہانی سے ہر دل لرز جاتا ہے اور ہم میں سے ایک بڑی تعداد اس میں مصروف تھی کہ شیعہ صحیح ہیں یا سنی ۔ الٹا کہ ہم اس سے کچھ سیکھتے اور اپنی زندگی کو بہتر بناتے مگر ہم تو سوشل میڈیا اور موبائل پر یہ ثابت کرنے میں مصروف تھے کہ ہم اچھے ایمان والے ہیں اور باقی سب کافر ہیں ۔ ہمارا عقیدہ درست ہے اور باقی سب کا غلط ہے ۔ پھر اس کے نتیجے میں ہونے والی لڑائیوں میں ہم ایک دوسرے کو جہنم واصل کر دیتے ہیں ۔ لوگوں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ موبائل اسکرین سے نکل کر ایک دوسرے کا گریبان پکڑ  لیں ۔ ٹی وی دیکھیں تو ہمارے ماشاءاللہ سے سیاست دان بھی اسی تعصب کو پھیلا رہے ہیں ۔ مذہبی جماعتوں نے مذہب کا سہارا لے کر تعصب پھیلانا ہے اور باقی جماعتیں نسلی اور لسانی تعصب میں قوم کو پھنساتی ہیں۔  اور نتیجہ کیا ہوتا ہے کہ ہم جیسے لوگ ان کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اپنے ہی بھائی کے خلاف ہو جاتے ہیں ۔

کیا فرق پڑتا ہے کہ کوئی سنی شیعہ یا وہابی ہے ،ہیں تو سب مسلمان کلمہ طیبہ کے پیروکار اور اگر آپ کا ذہن نہیں ملتا کسی کے ساتھ، تو آپ نہ مانے اس کی بات مگر یہ ضروری تو نہیں کہ آپ اس کا گریبان پکڑ لیں اور دھینگا فساد شروع کر دیں ۔ ہمارے سیاستدان اسی لسانی مذہبی اور علاقائی فرق کو بنیاد بنا کر ووٹ اکٹھے کرتے ہیں اور ہم ان کی مانتے رہتے ہیں اور اس تعصب کا شکار بنتے رہتے ہیں ۔

کوئی سندھی ہے تو کوئی پنچابی تو کوئی بلوچی تو کوئی پٹھان مگر سب پاکستانی ہیں اور یہی اصل پہچان ہے۔ ہم شروع سے ہی پاکستانی کی بجائے پنچابی بن کر بڑے ہوتے تو پھر ہم اور کسی کو قبول نہیں کرتے۔ مگر سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ ایک درخت کی جتنی مرضی شاخیں نکل آئیں اور جتنی مرضی الگ ہو جائیں مگر جڑ تو وہی ایک ہی رہےگی اور پاکستان ہماری جڑ ہے کوئی جتنا مرضی پنچابی سندھی، بلوچی یا پٹھان بن جائے رہے گا تو پاکستانی ہی۔ ہمیں سب یاد ہے کہ ہم کون ہیں ہماری زبان کیا ہے، سوائے اس کے کہ ہم پاکستانی بھی ہیں ۔ حال ہی میں بلاول بھٹو اور کئی سیاستدانوں کا بیان بھی اسی تعصب کی نذر ہوا، تب سے سب نے علاقائی کمان تھام لی ہے ۔ جب ہمارے حکمران ایسے بیانات دیں گے جس سے تعصب جھلکتا ہو تو ایسے میں عوام جو ان کو مانتی ہے وہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ مسئلہ کشمیر  جس پر ساری انسانیت شرمسار ہے مگر ہمارے حکمران اس پر بھی سیاست کرنے سے باز نہیں آتے ۔ مولانا فضل الرحمن کو کرسی دو، نہیں تو وہ ہر چیز کو سیاست کی نذر کر دیں گے ۔ پھر کشمیر ہو یا پاکستان، مولانا! خدا کا خوف کریں ۔ ہم آپس کی ناچاقیوں میں مصروف ہیں، تعصبات میں الجھی قوم ہیں ۔ اسی لیے تو دنیا ہم پر ہنستی ہے اور ہمارا مذاق اڑاتی ہے کیونکہ ہم ایک نہیں ہیں۔ ہم ٹکڑوں میں بٹے ہوئے لوگ ہیں ہم تو کوئی ایک تہوار بھی امن و سلامتی اور تعصب کے بغیر نہیں گزار سکتے مگر ان سب تعصبات کو پالنے سے صرف تباہی بربادی ہوتی ہے ۔ لوگ مرتے ہیں اور مارے جاتے ہیں اور پاکستان لٹا جا رہا ہے ۔

علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے،

فرقے بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔

آج سے سو سال پہلے بھی یہی مسئلہ تھا اور ہم نے اس  کی وجہ سے ماضی میں بےشمار نقصان اٹھایا ہے جس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ۔ مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا، اور  نہ جانے کتنی تحریکیں چلیں  اور یہ سب ہمارے نفاق کی وجہ سے ہوا ہے۔

 مگر افسوس کہ نہ ہم نے ماضی سے سیکھا، نہ تاریخ کو کھولا اور اب نہ ہی حال سے سیکھ رہے ہیں ۔

اگر ہم مذہب کی بات کرتے ہیں تو وہاں ہم اپنے علاوہ کسی کو ایمان والا ماننے کو تیار نہیں ۔ کفر کے فتوے ہمارے ہاں جس طرح جاری ہوتے ہیں اس کے مطابق تو ہمارے علاوہ  ساری دنیا کافر ہے ۔کوئی عید برات کا موقع ہو یا سوگ کا ہم نے وہاں بھی صرف تعصب ہی پالنا ۔ فلاں، فلاں فرقے کا ہے تو وہ ہماری گھر قدم نہیں رکھ سکتا وگرنہ فلاں کے ساتھ ساتھ میں بھی کافر ہو جاؤں گا۔ فلاں کسی اور مولانا کو مانتا ہے تو فلاں کی مسجد میں میری نماز نہیں ہو سکتی ۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے ان فرقہ وارانہ فسادات کو پھیلانے میں مولانا کا ہی کردار ہے ۔ انہی کو پکڑنا چاہیے جو لوگوں کو اپنے اشاروں پر نچا رہے ہیں اور ایک دوسرے کا دشمن بنا رہے ہیں  ۔ بھئی آپ نہیں مانتے فلاں کو تو نہ مانے مگر اس کا مطلب تھوڑی ہے کہ آپ دوسروں کے ایمان کو پرکھنا شروع کر دیں اور ان پر کفر کا فتوٰی لگا دیں یہ آپ کا یا میرا یا آپکے مولانا کا کام نہیں کہ ہم دوسروں کے ایمان کو  جانچنے اور ان پر فتوے صادر کریں، رب کے کام رب کو ہی کرنے دیں ۔ دلوں کے حال وہی بہتر جانتا ہے آپ اور میں کچھ نہیں جانتے۔ ہم نے قرآن اور کتابوں کو بھی ان فرقہ وارانہ اختلافات  سے خالی نہیں چھوڑا اور اس چکر میں ہمیں یہ تو یاد رہتا ہے کہ فلاں فرقے کےلیے فلاں مولانا نے یہ لکھا ہے مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ ہم سے کیا کہتا ہے ۔ ہم آج بھی سارا وقت اس بحث میں گزار دیتے کہ نبی ختم المرسلین بشر ہیں کہ نور مگر بھول جاتے ہیں کہ وہ محترم قابل احترام تمام عزت کے لائق ہستی نے ہم سے کیا کہا اور کیسی زندگی گزاری ۔ جو ہمارے کرنے کے کام نہیں ہیں ہمیں ان سے دور ہی رہنا چاہیے اور جو اصل مقصد ہے اس پر توجہ دینی چاہیے ۔ جس کے مطابق  ہمیں اپنی زندگی کو ویسے گزارنا ہے جیسا وہ چاہتے ہیں ۔ آج کل تو ویسے ہی دوسروں کے کرداروں اور ایمان کو جانچنے پرکھنے کی ہم نے ٹھیکیداری اٹھا رکھی ہے ۔ اور پھر بس موقع چاہیے دوسرے کو نیچ اور برا ثابت کرنے کا۔

آج پوری دنیا میں مسلمان زیادہ مشکلات کا شکار ہیں حالانکہ نہ ان کے پاس طاقت کی کمی ہے اور نہ دولت کی پھر کیا وجہ ہے کہ ان کی کوئی سنتا نہیں ۔ جس کا بس چلتا ہے مسلمانوں پر ہی زور نکالتا ہے ۔  اب مسئلہ کشمیر کو لے لیجیے کسی اسلامی طاقت نے پاکستان کا ساتھ دیا؟ مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے اور مسلمان خاموش بیٹھا ہے ۔ عجیب بات ہے دوبئی مسلمانوں کا نمائندہ ہوتے ہوئے انڈیا کا ساتھ دے رہا ہے اور ایسا ہی حساب باقی سب کے ساتھ ہے۔ کیا وجہ ہے اتنی بڑی طاقت ہونے کے باوجود ہم ہر بار  خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ ہم میں اتفاق نہیں ہے۔ ہم کسی ایک بات پر اکٹھے نہیں ہیں اور جب تک ہم نے اکٹھے نہیں ہونا دنیا ایسے ہی ایک ایک کرکے ہمیں رسوا کرتی رہے گی اور ہم خاموش تماشائی بن کے دیکھتے رہیں گے حتی کہ ہمارے پاس کچھ نہیں بچے گا۔ پہلے ہمیں بطور  پاکستان متحدہ ہونا ہے اور پھر مسلمان ۔ اگر ہمارا نظریہ کسی اور کے ساتھ نہیں ملتا تو ضروری تھوڑی ہے کہ ہم اس پر اپنا نظریہ تھوپ دیں اور اگر وہ نہ مانے تو اسے ایمان سے ہی خارج کر دیں ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں