پاکستان میں جمہوریت کا سفر اور ثمرات

جمہوریت کا خلاصہ اگر ایک جملے میں بیان کرنا ہو تو عوام کے لئے،عوام کے ذریعے، عوام کی حکومت جمہوریت ہے۔ جمہوریت اس نظام کو کہتے ہیں جس میں محکوم اپنے حکمرانوں کو اور ووٹر اپنے نمائندوں کو کنٹرول کر سکیں، اور ووٹروں کا اختیار اپنے منتخب نمائندوں کے اوپر ہو۔ جمہوری نظام میں عوامی عہدہ رکھنے والے صدر، وزیر اعظم، گورنر، وزیر اعلیٰ، ایم این اے، ایم پی اے و جملہ افسران کے مفادات کی بجائے آئین طاقت ور ہوتاہے۔ جمہوریت کے خلاف طاقت کے آخری مرکز سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ساری دنیا میں حکمرانی کا کوئی ایسا قابل ذکر ماڈل نہیں ہے جو جمہوریت کا مقابلہ کرسکے، جو کہ آج کے زمانے میں سب سے زیادہ پسندیدہ اور کامیاب طرز حکومت ہو۔ تاہم دیکھا جاتاہے کہ دنیاکے گنجان آبادی والے بر اعظموں ایشیا اور افریقہ کے ممالک میں جمہوریت کے فوائد عام لوگوں تک نہیں پہنچتے، یہاں نوزائیدہ جمہوریت کو چیلنج کرنے کے لیے آئے روز نئی طاقتیں اٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔ اور جہاں جمہوریت سینہ سپر ہے وہاں کلیدی کارکردگی کے پیمانے عوام کے حالات میں کسی طرح کی بہتری دکھانے میں بری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔جمہوری ملکوں میں عوام کے حقوق سلب کرنے والے افراد کی کمی نہیں، لفظ ”جمہوریت“ ایک دلکش کہاوت کے طور پرعوام کو سبز باغ دکھانے کے طور پر بھی استعمال ہوتاآیا ہے۔ ایسی جمہوریت میں طاقتور طبقات سیاست اور حکومت پر قابض ہوجاتے ہیں اور ایسی پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں جن کا فائدہ اشرافیہ کو پہنچتا ہے۔ ملک کے وسائل امیر طبقات کے درمیان گردش کرتے رہتے ہیں اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے رہتے ہیں۔ 15 ستمبر کے دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم جمہوریہ منانے کا مقصد جمہوریت کے فروغ کے لئے عوامی شعور بیدار کرنا اور غیر جمہوری قوتوں کا راستہ روکنے کیلئے آواز بلند کرنا ہے۔قوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2007ء میں جمہوریت کا عالمی دن منانے کے آغاز کا اعلان کیا تھا، اور 15ستمبر 2008ء کو پہلا عالمی یوم جمہوریت منایا گیا تھا۔ جمہوریت کو فروغ دینے اور مستحکم بنانے کیلئے حکومتوں کی کوششوں کو معاونت فراہم کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی جانب سے دنیا بھر میں متعدد سرگرمیاں جاری رہتی ہیں،تاہم اپنے چارٹر کے مطابق اقوام متحدہ کسی رکن ملک میں اس کی خصوصی درخواست کے بغیر کوئی سرگرمی شروع نہیں کرتی۔
یہاں اگر پاکستان میں جمہوریت کے سفر اور اس کے ثمرات کی بات کی جائے تو قیام پاکستان سے ابتک بہتر سالوں میں جمہوریت مستحکم نہیں ہو سکی۔ جمہوریت کو ہمیشہ خطرات لاحق رہے ہیں، غیر جمہوری قوتوں نے متعدد بار جمہوریت پر شب و خون مارا۔ یہاں آئین کو پامال کرکے جمہوریت کی بساط لپیٹی جاتی رہی، جس کی وجہ سے آج بھی جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ جبکہ جمہوری دور حکومت میں بھی محض سیاسی جماعتوں اور انتخابات ہی کو جمہوریت سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ جمہوریت ایک ایسا سیاسی نظام ہے جس میں گڈ گورننس بنیادی تقاضہ ہے، جس جمہوریت میں گڈ گورننس نہ ہو اسے جمہوریت نہیں کہا جاسکتا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قانون کے مطابق تو ملت کے تمام افرادکو معاشرتی اور معاشی مساوی حقوق حاصل ہیں مگر جمہوری نظام کے باوجود امراء ہی اقتدار پر قابض رہے ہیں، اور امراء کی حکمرانی میں قانون و انصاف اور دیگر امور میں غریب عوام سے جس طرح کا سلوک رواء رکھا جاتا رہا ہے اس کی کسی جمہوری ملک میں مثال نہیں ملتی۔ گزشتہ بہتر سال سے پاکستان میں جمہوریت کے جس ماڈل پر عمل کیا جاتا رہا ہے اس کا نہ تو علامہ اقبال کے جمہوری تصور سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی قائد اعظم پاکستان ایسا پاکستان چاہتے تھے جہاں امیر و غریب میں امتیاز برتا جاتا ہو، جس نظام میں شہریوں کو مساوی حقوق و مواقع میسر نہ ہوں۔یہاں کروڑوں افراد کو اپنی خداداد صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا موقع ہی نہیں ملتا،اگر کبھی موقع مل جائے تو پنکچر لگانے والا بھی بی اے کے امتحان میں فرسٹ پوزیشن حاصل کرکے یہ ثابت کردیتا ہے کہ غریب عوام میں ٹیلنٹ تو موجود ہے مگر ان کو پروان چڑھانے کے مواقع میسر نہیں۔ پاکستان میں موجود امیروں کی جمہوریت کے ثمرات امیروں میں ہی گردش کرتے رہتے ہیں اور ایسی جمہوریت میں عوام کا کردار محض پانچ سال کے بعد پرچی پر مہر لگانے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ نتیجتاً عوام بھی الیکشن میں اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کرتے اور صرف بیس فیصد کہیں پچیس فیصد ٹرن آؤٹ پر وہی لوگ حاکم مسلط ہوجاتے ہیں جنہیں عوام پسند ہی نہیں کرتے۔ جبکہ اکثر جمہوری سیاست دانوں و حکمرانوں کے اثاثے پاکستان سے باہر موجود ہیں، وہ پاکستان میں صرف اقتدار انجوائے کرنے کیلئے آتے ہیں، مدت اقتدار پوری ہونے یا ملک میں ان کی کرپشن عیاں ہونے پر یہ واپس بیرون ملک منتقل ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کو پھلنے پھولنے کے لیے، عوام کی زندگیوں میں شفاف انداز میں بہتری لانے کی ضرورت ہے، کیونکہ کسی بھی ملک میں جمہوریت اس وقت ہی مضبوط و مستحکم ہوسکتی ہے جب ہر ادارے اور سیاسی پارٹیوں کے اندربھی جمہوری عمل پر پختہ یقین ہو، اور شفاف انداز میں انصاف، صحت، تعلیم کے شعبہ جات میں بہتری اور بڑھتی ہوئی مہنگائی، اور کم ہوتی ہوئی فی کس آمدنی کی صورتحال کو بہتر کیا جائے۔ اور سرکاری اداروں میں ناقص کارکردگی دکھانے والوں کے خلاف بلاامتیاز کاروائی عمل میں لائی جائے۔جب تک موجودہ جمہوری سسٹم کو تبدیل نہیں کیاجا تا پاکستان کے غریب عوام کی ترقی منجمدہی رہے گی۔جمہوری سسٹم کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ ملک سے کرپشن اور اقرباء پروری کا مکمل خاتمہ ہو، حکمران اور سیاسی شخصیات ملک سے لوٹا ہوا سرمایہ پاکستان واپس لائیں۔ اگر مفادات کی سیاست سے بالا تر ہو کر پاکستان کے استحکام اور دو قومی نظریہ پر ایمان کی حد تک یقین رکھنے والے صادق و امین لوگوں کوکلیدی عہدوں پر زمہ داریاں سونپی جائیں تو وہ دن دور نہیں جب قیام پاکستان کے مقاصد کے عین مطابق حقیقی اسلامی فلاحی و جمہوری ریاست کا قیام عمل میں آئے گااورپاکستان میں جمہوریت مضبوط و مستحکم ہوگی۔
٭……٭……٭

حصہ
mm
رانا اعجاز حسین ایک منجھے ہوئے قلم کار ہیں وہ مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں