مستقل مزاجی کامیابی کی ضمانت

”میں جو کام کرتا ہوں دو چار آٹھ مہینے بعد وہ کام ختم ہو جاتا ہے، چائے کا اسٹال لگایا، پانچ مہینے بعد بند کرناپڑا، بریانی کا ٹھیلا لگایا، آٹھ ماہ بعد خسارہ برداشت سے باہر ہوگیا، مقروض ہو کر ٹھیلا بیچ کرگھر بیٹھنا پڑا۔“نوجوان ہمارے سامنے اداس بیٹھا تھا اور اس کے چہرے پر کئی رنگ آجارہے تھے،فکر کے گہرے سیاہ بادلوں نے اس پرسایہ کر رکھا تھااورہم یہ نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ ہم اسے کیا کہیں،کیسے تسلی دیں۔ ہم نے اس کی پریشانی کا پوسٹ مارٹم کرنا تھا لیکن وہ اپنے ہونٹوں کو مزید کہنے سے روک دیا تھا، ہم اس کی خاموشی کا تالا کھولنا تھا لہذا ہم نے اسے کہا :”دیکھو! اللہ نے اس دنیا میں انسان کو بھیجا ہے تو خالی نہیں بھیجا، ہم انسانوں کو بھیجے (دماغ) کے ساتھ بھیجا ہے، انسان اور جانور میں یہی بنیادی فرق ہے کہ انسان سوچ بچار کر سکتا ہے جب کہ جانور کے پاس یہ صلاحیت نہیں کہ وہ نئے آئیڈیاز پر کام کرے،تب نوجوان کی کچھ ہمت بندھی،اس نے اوپر دیکھا اور بولا:”میں جو کام کرتا ہوں دو چار آٹھ مہینے بعد وہ کام ختم ہو جاتا ہے، چائے کا اسٹال لگایا، پانچ مہینے بعد بند کرناپڑا، بریانی کا ٹھیلا لگایا، آٹھ ماہ بعد خسارہ برداشت سے باہر ہوگیا، مقروض ہو کر ٹھیلا بیچ کرگھر بیٹھنا پڑا۔“ اس کی بات سن کرہماری سانسیں جمنے لگی تھیں کیوں کہ یہ معاشرے کا وہ تلخ المیہ ہے جس سے غربت میں اضافہ، معاشی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے اور پھر مایوسی کا شکارغریب ناکام ہوکر زندگی سے تنگ آجاتا ہے اس کی زندگی کا دیابجھنا شروع ہوجاتا ہے۔ ہم نے نوجوان سے کہا:”کیوں نہ تم کچھ نیاکام سیکھ کر آگے مستقبل کا کوئی مستقل رستہ اختیار کرو،ایسا کام شروع کرو جس میں تم اپنا شوق و جذبہ رکھتے ہو،جس میں تمہیں مہارت ہو۔“
ہم نے نوجوان کے چہرے پر سنجیدگی کی لہریں دیکھیں تو بات کو جاری رکھاتے ہوئے کہا:”دیکھو! مستقل مزاجی انسان کو منزل تک پہنچادیتی ہے اور غیر مستقل مزاج لوگ ہر محاذپر ناکام ہوتے ہیں،جب ایک رستہ متعین کر لیا، منزل ڈھونڈ لی، پھر متبادلات کو سوچنا چھوڑدو،ہمارادین بھی ہمیں مستقل مزاجی کی بھر پور دعوت دیتا ہے اور مایوسی،ناامیدی سے منع کرتا ہے،مستقل مزاجی اور مصمم ارادہ ہی انسان کو فرش سے عرش تک پہنچاتا ہے۔“ ہماری باتوں سے نوجوان کی بانچھیں کھلنا شروع ہوئی تو ہم نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھو ں میں لیے اور مشفقانہ انداز سے کہا:”آپ مجھے بتائیں! اس شخص سے لوگ کیا توقع رکھیں گے جواپنی تخیلات کی آندھیوں میں گم ہو کر رہ گیا ہو، جس نے غیر مستقل مزاجی اور متبادل سوچ کے پیچھے بھاگ بھاگ کر خود کو ہلکان کر لیا ہو،یہ تمہارا نہیں آج کے ہرنوجوان کا مسئلہ بن چکا ہے کہ وہ کرنے کچھ اور جاتا ہے اور ہو کچھ اور جاتا ہے، ہمارے نوجوان ڈاکٹر، انجینئر، آفیسر بننے جاتے ہیں اور چند سال بعد کچھ اور بن کر آجاتے ہیں،اکنامکس پڑھنے والے زمینداری کررہے ہیں، ذراعت پڑھنے والے ہوٹلوں میں کُک ہیں،اسلامیات پڑھنے والے بنکوں میں نوکریاں تلاشتے پھرتے ہیں تو کامرس پڑھے اسلامیات کے استاد لگے ہوئے ہیں، ایسے نوجوان بھی ہزاروں میں مل جائیں گے جو غیر مستقل مزاجی کی بھینٹ چڑھ کر کئی ایک کاموں میں باپ دادا کا پیسا کاروبار میں جھونک کر ناکام ہو کر خالی ہاتھ بیٹھے ہیں اور ان کے پاس سوائے افسوس کرنے کے کوئی کام نہیں بچا۔
نوجوان اب کچھ کھسیانا سا ہونے کی کوشش کررہا تھا،تب ہم نے اس کی کلائی پکڑی اور کہا:”ایک بچے کو سات سال کی عمر میں گھر والے کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں،وہ 9 سال کا ہوتا ہے تو اس کی ماں مر جاتی ہے،21 سال کی عمر تک اس نے صرف ایک سال پڑھائی کی،وہ قانون کی اعلیٰ تعلیم کے خواب آنکھوں میں سجائے پھرتاہے،22 سال کی عمر میں اسٹور کا مالک اسے نوکری سے نکال دیتا ہے،عمر کے 23 ویں سال وہ ریاستی قانون ساز اسمبلی کا الیکشن لڑتا ہے اور ہار جاتا ہے،مگراسے تو ہار سے سخت نفرت تھی، پھر وہ کاروبار میں قسمت آزمائی کرتا ہے اور بھاری قرضوں میں ڈوب جاتا ہے،لیکن وہ ہمت ہارنے والوں کی لائن کا بندہ نہیں تھااس لیے وہ کم ہمتی کا جنازہ پڑھ کرزندگی کے ہر ماہ سال گزارتا اور آگے بڑھتا رہا۔وہ31سال کا ہواتو اسے ایک ناکامی کا بھیانک چہرہ دیکھنا پڑا، 35 سال کی عمر میں وہ کانگریس کا مقابلہ ہار جاتا ہے،تو 41 ویں سال میں اس کا چار سالہ بیٹے کی موت کا صدمہ سہنا پڑتا ہے۔49 ویں سال وہ ایک بار پھر سینٹ کی سیٹ ہار جاتا ہے، لیکن 51سا ل کی عمر میں وہ امریکہ کا کامیاب صدر بن جاتا ہے،اور ”ابرہام لنکن“ کے نام سے تاریخ میں اپنا نام کندہ کرواتا ہے، ابراہم لنکن ہر جگہ ناکام ہوتا رہا، لیکن زندگی کے اتنے تھپڑ کھانے کے بعد وہ جس”منتر“سے کامیاب ہوا، وہ”منتر“ مستقل مزاجی ہے۔
ہم نے اسے اپنے قریب کیا اور بولے:”میراایک دوست سیاسیات میں ایم اے کرنے کے بعد مسجد کی امامت کررہا ہے تو دوسرا دوست حافظ قرآن اور اسلامیات میں ایم اے کرنے بعد سیاست میں ہے۔ناکامی پر رونا دھونا کرنے والا کبھی کامیابی کا شیرہ نہیں چکھتا، ماضی کو بھول کرآگے کی سوچو،کیوں کہ کامیابی کی کنجی تمہارے پاس ہے،تمہیں اپنے اس غیر مستقل مزاجی کے دیمک کو مارنا ہوگا،کیوں کہ تمہارے ٹیلنٹ کو جس بے دردی سے اس نے چاٹا ہے اس کا خمیازہ نہ ہمارے والدین چکا سکتے ہیں نہ اساتذہ اور نہ ہمارا نظام تعلیم اس کا کفارہ ادا کر سکتا ہے۔ہمیں اس حرف غلط کو اپنی زندگی کی سلیٹ سے مٹانا ہوگاکہ ہم کچھ نہیں کرسکتے،ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہمارا وژن کیا ہے اور ہماری منزل کہاں ہے؟ ”چارلس شواب“ امریکی تاریخ کا سب سے کامیاب منیجر تھا۔کیا اس میں انتظامی مہارت تھی؟ نہیں، کیوں کہ وہ مستقل مزاج تھا اور اسی مستقل مزجی نے ”اینڈریو کارنیگی“ کو صنعت کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بنا دیا تھا۔ نوجوان نے ہم سے تشکرانہ مصافحہ کیا اور عزم مصمم، مستقل مزاجی کا وعدہ کر کے چلا گیا۔ بعد کے سالوں میں اس نے اسٹیل کے بزنس میں نام کمایا،کیوں کہ کامیابی کی کنجی اس کے ہاتھ لگ چکی تھی جس سے وہ کوئی بھی تالا کھول سکتا تھا۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں