انسان کی پیدائش ہی اس کی زندگی کی ابتدا کردیتی ہے،زندگی ڈھلنے میں دیر نہیں کرتی، یوں ڈھلتی ہے جیسے نلکے سے بہتا ہوا پانی بہہ کر ختم ہوجاتا ہے،ہر انسان اس چند روزہ زندگی کو خوبصورت بنا کر گزارنے کا خواہش مند ہوتا ہے،کچھ انسان اس کو خوشگوار بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور کچھ یونہی بس گزارنے میں ہی ختم ہوجاتے ہیں،دراصل اس مختصر زندگی کو دائمی زندگی کی کامیابی کے سانچے میں گزارنا ہی حقیقی زندگی گزارنے کا نام ہے،دنیا کی عارضی زندگی کو خوبصورت بنانے کے لیے ہر اس خوبصورتی کے متلاشی کو چند اصول زندگی بنانے چاہییں،جن پر عمل اس ازلی زندگی کو خوبصورت بنا سکتا ہے۔
پہلا اصول:
پہلا اصول یہ ہے کہ نفس و شیطان کی خواہشات پر اللہ و رسولﷺ کی خواہشات کو ترجیح دے کر ہی اس عارضی زندگی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔مشاہدہ ہے کہ نفس و شیطانی خواہشات کے پیشوا اکثر اس زندگی سے لطف اندوز ہونے کو پیاسے کوے کی مانند ترس رہے ہوتے ہیں۔اس کی نظیر اگر دیکھنی ہے،تو علماء کو دیکھ لیں،جو بہت کم دولت مند ہونے کے باوجود خوشحال زندگی جیتے ہیں،بنسبت دوسرے لوگوں کے۔
دوسرا اصول:
دوسرا اصول یہ بنالیں کہ کچھ بھی ہو جائے،کسی مستحق کی اپنی استطاعت کے بقدر ضرور مدد کرنی ہے،ایسا کرنے سے آپ کو بھی دلی سکون و اطمینان ملے گا،اور وہ مستحق بھی اپنے کم تر ہونے کا بوجھ کچھ ہلکا کرے گا، اس سے آپ کے ہر کام میں برکت بھی رہے گی،خوش بھی رہیں گے اور غربت میں کمی بھی آتی رہے گی۔کئی لوگ وسائل نہ ہونے کے پیش نظر اپنے کم عمر بچوں کو کہیں نا کہیں،ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے بطور ہلپر لگا لیتے ہیں،جن میں سے اکثر نہ تو کچھ پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی کچھ سیکھ سکتے ہیں،حالانکہ یہ کم عمر بچے کیا ضروریات زندگی پوری کریں گے،ایک تنکے کا ہی یہ حصہ ڈالتے ہیں،ان بے بسوں کے لیے یہ تنکا ہی ڈالر ہوتا ہے۔سو ایسے لوگوں کی مدد کرنے کی عادت اپنا کر ثواب بھی حاصل کریں،اور بہتر نعم البدل کی توقع بھی رکھیں۔
تیسرا اصول:
تیسرا اصول یہ بنا لیں کہ آپ کسی کی مدد کرنے کے بجائے،اس کا ہمیشہ کے لیے سہارا بنیں،اس سہارا بننے کو ہمارے ہاں گراں سمجھا جاتا ہے،یہ سہارا بننا بہت سہل ہے،اس کے لیے یہ کہاوت سمجھ لیں،”کسی کو مچھلیاں دینے سے بہتر ھے اسے مچھلیاں پکڑنے کا کانٹا دیجیئے” یہ کام کرنا ایک ہی دفعہ پڑے گا،لیکن اس کا پہل ہمیشہ ملے گا،یہ کام کرنے سے آپ کسی کے ہنر میں بھی اضافہ کرسکیں گے،اور اسے مفت خوری کی عادت سے بھی چھڑا لیں گے، بعض لوگ بڑے مفت خور ہوتے ہیں۔
چوتھا اصول:
چوتھا اصول یہ بنا لیں کہ کسی کے کام میں مداخلت نہیں کرنی،یہ مداخلت کئی مسائل کی جڑ بنتی ہے اور مسائل پہر معاشرے خوشی کو لے ڈوبتے ہیں،کبھی یہ نہ سوچے کہ فلاں نے یہ کیوں کیا،اسے یہ کرنے پر کس نے آمادہ کیا،ایسا کرنے سے اس کا کیا ہوگا، ہاں اگر آپ واقعی کسی کے لیے اچھا سوچتے ہیں،تو پہر اسے غلط سمت جانے سے روکنے کے لئے کوئی مناسب طریقہ اختیار کریں،اس میں کا نیک نیت ہونا ضروری ہے۔ان خیالات میں پڑیں ہی نہ،کہ فلاں کیا کھاتا ہے اور میں کیا کھاتا ہوں،فلاں کتنے کماتا ہے اور میں کتنے کماتا ہوں، فلاں نے اتنی ترقی کرلی،کیوں کر لی؟ آپ کے پاس جو ہے اس پر شکر ادا کرتے رہیں،اور اپنے کام سے کام رکھیں،پہر دیکھیں زندگی جینے کا مزہ ملتا ہے یا نہیں۔
پانچواں اصول:
پانچواں اصول یہ بنا لیں کہ آپ نے ہر قیمت پر اپنے والدین کی خدمت کرنی ہے،چاہے کچھ بھی ہوجائے والدین کا ساتھ نہیں چھوڑنا،آج کل یہ معاشرے کا حصہ بن چکا ہے کہ شادی ہوتے ہی،بوڑھے والدین کو لوگ بھول جاتے ہیں، والدین کی خدمت میں جو سکون اللہ نے رکھا ہے،شاید اس جہاں میں وہ سکون کہیں اور میسر نہ ہو،والدین کی قدر کرنا سیکھیں،والدین کی عزت کریں،ان سے دعائیں لیں،ہر بات ان سے شئیر کریں،ان کی زندگی کا نچوڑ کیا ہے،اس سے سبق حاصل کریں،ان کے پاس بیٹھیں،انہیں اپنے اوپر بوجھ نہ گردانیں، ان سے یوں حسن سلوک کریں جیسے ان کو آپ کے سوا کچھ ضرورت ہی نہ ہو،وہ آپ کی غیر موجودگی کو محسوس کریں، یہ نہ ہو کہ وہ بڑھاپے میں بھی آپ کے لیے ہاتھ پاوں ماریں، والدین کے ساتھ ہمیشہ احسان والا سلوک کریں، آپ کتنے ہی دولت ہوجائیں،خود مختار ہوجائیں،لیکن!ایک دن ان کی غیر موجودگی آپ کو تڑپائے گی۔اس لیے اس عظیم نعمت خداوندی سے منہ مت موڑئیے۔
چھٹا اصول:
چھٹا اصول یہ بنا لیں کہ جو آپ کو پسند کرتا ہو،اس کے ساتھ ہمیشہ سیدھا رہنے کی کوشش کریں،جو آپ کو ناپسند کرتا ہو اُسکا آپ کے لیے اخلاص مشکوک ہے، جو آپ سے مخلص نہ ہو، اس کے ساتھ گزارہ کرنا سیکھیں۔یا یوں ہو کہ جو آپ کی فیملی کا مخلص نہیں وہ آپ کے کسی کا بھی مخلص نہیں،اس سے ہمیشہ احتیاط والا معاملہ کریں۔آپ سے کون مخلص ہے اور کون مخلص نہیں، یہ جاننے کے لیے زندگی میں صرف تین ان کے ساتھ پیش شدہ واقعات سے نچوڑ نکال لیں، جو آپ کی مخالفت کرتا ہو، یہ ضروری نہیں کہ وہ آپ سے مخلص نہیں،ہو سکتا ہے وہ آپ سے بہت مخلص بھی ہو،اس لیے یہ میٹر استعمال کرتے ہوئے احتیاط ضرور کریں۔
ساتواں اصول:
ساتواں اصول یہ بنا لیں کہ جس کام کی آپ کو سمجھ بوجھ نہ ہو وہ کبھی نہ کریں،اس میں ہمیشہ گھاٹے کا سودا ہوتا ہے،جس کام کی سمجھ بوجھ ہو اور کچھ شوق بھی ہو،وہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے شروع کردیں،ہر کام سے پہلے کسی مخلص سے مشورہ کرنے کی عادت بنا لیں،اور ساتھ میں استخارہ بھی کیا کریں۔