بے جا تنقید تو ہر جگہ ہوتی ہے۔پہلے یہ تنقید گلی، محلوں اور دکانوں میں ہوا کرتی تھی۔دنیا میں سوشل میڈیا کا استعمال بڑھتے ہی، یہ تنقید تیزی سے پھیلنا بھی شروع ہوگئی۔ایسی ہی تنقید پاکستان کے زیر سمندر گیس اور معدنیات کے ذخائر کی دریافت میں ناکامی کے باعث بھی سامنے آئی۔کیکڑا ون کے مقام پر5560 میٹر زیر سمندر کھدائی پر چودہ ارب روپے خرچ ہوئے۔ مخالفین نے حکومت کو اس ناکامی پر خوب آڑے ہاتھوں لیا۔اسی طرح چندریان ٹو کی ناکامی پر انڈین حکومت کو بھی مخالفین کی تنقید کا سامنا ہے۔دنیا میں تحقیقات پر بڑی رقم خرچ ہوتی ہے۔ضروری نہیں کہ پہلی ہی کوشش میں کامیابی ملے۔بہت سے سائنسدانوں نے ناکامیوں سے سیکھا۔تھامس ایڈیسن نے ہزار کے قریب کوششوں کے بعد بلب ایجاد کیا۔تحقیق نہ ہو تو دریافت و تخلیق کیسے ہو۔تحقیقات جدت کو رائج کرتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ،تحقیقات پر خرچ کرنے والے آج دنیا میں سرفہرست ہیں۔
بھارت نے ’چندریان‘ نامی منصوبہ کے تحت اکتوبر 2008 میں اپنا پہلا سیارا چاند پر بھیجا۔یہ سیارا چاند پر لینڈ تو نہ کر سکا۔البتہ چاند کے مدار میں چاند سے 200کلومیٹر اونچائی پردس ماہ تک گردش کرتا رہا۔جس نے چاند پر معدنیات کا جائزہ لیا۔ امریکی خلائی ادارے ناسا نے بعد میں ان معلومات سے چاند کے قطب جنوب پر موجود گڑھوں پرپانی کوبرف کی شکل میں دریافت کیا۔جس سے انسان کے چاند پر قدموں کے امکانات ظاہر ہونے لگے۔ ان معلومات کو بنیاد بنا کر مزید تحقیقات جاری ہیں۔
اسی ضمن میں بھارت نے’چندریان ٹو‘ کے نام سے چاند کے قطب جنوب پر اترنے کا منصوبہ بنایا۔’انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن‘نے اسے ترتیب دیا۔جس پر 140ملین ڈالر کا خرچ ہوا۔جو ’سری ہاری کوٹا اسپیس سینٹر‘ سے22جولائی2019کو چاند پر جانے کے لئے’جیو سنکرونس سیٹلائیٹ لانچ وہیکل مارک3‘کے ذریعے لانچ کیا گیا۔چندریان ٹو ایک ’لونار آربیٹر‘،’لینڈر‘ اور’روور‘ پر مشتمل تھا۔ان تمام مشینوں کو بھارت میں ہی تیار کیا گیا۔اس سیارہ کا اہم سائنسی مشن نقشہ تیار کرنا اور چاند پر پانی تلاش کرنا تھا۔’لینڈر‘ اور’روور‘ نے چاند پر اتر کر وہاں موجود کیمیاء کا جائزہ لینا تھا۔’آربیٹر‘ اور’لینڈر‘نے زمین پر معلومات بھیجنا تھیں۔اگر یہ منصوبہ مکمل ہو جاتا، تو چاند کے قطب جنوب پراترنے کی پہلی مثال ہوتا۔
گزشتہ روز معلوم ہوا کہ سیارہ اپنے مطلوبہ حدف سے محض 2.1کلومیٹر کے فاصلہ پر تھا کہ، اچانک اس کا زمین سے رابطہ منقطع ہو گیا۔چاند زمین سے 384800کلومیٹر کی دوری پر ہے۔یعنی بھارتی سیارہ اپنے ہدف سے 0.000546فیصد دوری پر تھا۔بعض کے نزدیک سیارہ چاند کے مدار میں داخل ہونے کے بعد اپنی رفتار برقرار نہ رکھ سکا۔ جس کے باعث وہ چاند سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا۔تاہم اصل حقائق تو تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئیں گے۔’بھارتی اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن‘ کے چیف ناکامی کے باعث اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور آبدیدہ ہوگئے۔وہاں موجود بھارتی وزیر اعظم انہیں دلاسہ دیتے رہے۔بھارتی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ، وہ ایسے پروگرام پر فخر محسوس کرتے ہیں جو چاند پر تحقیقات کے بالکل قریب آچکا تھا۔مزید کہا کہ ایسے مواقع دوبارہ بھی آئیں گے۔جہاں اس ناکامی کی خبریں دنیا بھر میں گردش کرنے لگیں۔وہیں خود بھارت اور پاکستان میں اس منصوبے کی ناکامی پر تنقید سامنے آنا شروع ہوگئی۔بھارتی ماہر اقتصادیات ڈاکٹر لونے راجر کے مطابق یہ منصوبہ صرف خلائی ملبے میں اضافے کا سبب بنا۔اس سے بھارت اپنے سماجی مسائل پر قابو پا سکتا تھا۔ روایتی حریف پاکستان کا تو اس منصوبے میں بظاہر کوئی عمل دخل نہیں۔تاہم پاکستانیوں نے بھی بھارتی ناکامی کو آڑے ہاتھوں لیا۔پاک فوج کے ترجمان جنرل آصف غفور نے کہا کہ، کیا بھارت دیگر الزامات کے طرح اس ناکامی کا ملبہ بھی آئی ایس آئی اور معصوم کشمیریوں پر ڈالے گا؟
معاملہ سوشل میڈیا پر شدت اختیار کر گیا جب فواد چوہدری نے بھارتی ناکامی کا تمسخرااڑاتے ہوئے کہا کہ، جو کام آتا نہیں پنگا کیوں لیتے ہو۔چاند کی بجائے ایک کھلونا زمین پر اتر گیا۔مزید انہوں نے مودی کو خلا نورد سے تشبیہ دی اور لوک سبھا سے مودی سے جواب طلبی کا مطالبہ کیا۔وغیرہ وغیرہ۔ان کی تنقید پر زیادہ ردعمل اس وجہ سے آیا کہ یہ پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی ہیں۔ ان کا چاند کو دیکھنے متعلق علماء سے تناؤ بھی چلتا رہا۔ایک سوشل میڈیا صارف کے مطابق،وہ قوم چاند پر جانے والوں پر تنقید کر رہی ہے، جو آج تک چاند کو دیکھنے پر متفق نہیں۔ ماضی میں انہوں نے زبانی تخمینہ بھی لگایا کہ، ہیلی کاپٹر 55روپے میں کلومیٹر کی مائلیج دیتا ہے۔ ماضی میں انہیں بے جا تنقید کے باعث ہی وزرات اطلاعات سے ہاتھ دھونا پڑھااور ایسی وزرات ان کا مقدر بنی،جس کو پاکستان میں رجحان کم ہونے کی بنا پر کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ لاکھوں انجینئرز اور ٹیکنالوجسٹ بے روزگا ر ہیں۔فواد چوہدری کو جہاں بھارتی صارفین نے تنقید کا نشانہ بنایا۔وہیں بعض پاکستانیوں نے بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ ایک صارف نے کہا کہ پاکستان نے فواد چوہدری کی قیادت میں پہلا قدم زمین پر رکھ دیا ہے،اب ہم چاند سے محض 384800کلومیٹر کی دوری پر ہیں۔
پاکستان خلائی تحقیقی ادارہ’سپارکو‘ چین کی مدد سے دو ہی موسمی سیارچے خلا میں بھیج سکا ہے۔جبکہ بھارتی خلائی ادارہ اکیلے ہی 104سیٹلائٹس لانچ کر چکا ہے۔اگر آج چین کے مفادات بدل جائیں،تو ہمیں ٹیکنالوجی کی دنیا میں کس کی حمایت حاصل ہوگی؟کیا ہم ٹیکنالوجی کی دنیا میں خودمختار بن پائیں گے؟ہمارے ہاں تکنیکی تعلیم حاصل کرنے والوں کامستقبل کیا ہے؟سوچنا ہوگا!
پاکستان میں بڑا طبقہ(انہیں پڑھا لکھا کہنا شاید درست نہ ہو) یہ ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے کہ،چاند پر لینڈنگ محض افسانہ ہے۔تو عرض ہے کہ، کیا دنیا میں امریکہ کی تحقیق کی بنا پر برتری بھی محض ڈرامہ ہی ہے؟متعدد تحقیقی مرکز،بڑی یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے بھی محض افسانہ ہی ہیں کیا؟اگر واقعی ایسا ہے تو ہمیں سیٹلائٹ کے نظام سے بھی منحرف ہونا چاہئے۔حتی کہ ہمیں پھر فنی و تکنیکی علم کی جستجو ہی نہیں کرنی چاہئے۔
ایسے لوگ صدیوں پہلے موبائل فون اورہوائی جہاز کو بھی افسانہ ہی سمجھتے ہوں گے۔مگر وقت کے ساتھ تحقیقات سے حاصل ہونے والی جدت سے مستفید ضرور ہوتے ہوں گے۔
اللہ تعالی نے دنیا میں انسانی عقل اور حیرت کے لئے بہت کچھ بنایا ہے۔اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ، ہم اللہ کی تخلیقات کی کھوج کریں یا پھر منکر ہوکر غور و فکر ہی چھوڑ دیں۔پنجابی کا محاورہ ہے کہ،’عقل نہ ہووے تے موجاں ای موجاں،عقل ہووے تے سوچاں ای سوچاں‘۔ ہم مسلمان قوم تحقیقات سے بہت دور ہو چکے ہیں۔جبکہ مسلم تاریخ میں کئی سائنسدان گزرے ہیں۔جو تحقیق کی دنیا میں آج بھی زندہ ہیں۔یورپ نے تحقیق کی بدولت ہی دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ امریکہ دنیا کے ذہین دماغ استعمال کرتا ہے۔پڑھے لکھے لوگوں کو اچھا معاوضہ دے کر تحقیقات کرا تا ہے۔ وہی قومیں دنیا کی دوڑ میں شامل رہیں گی،جو جدت کو ساتھ لے کر چلیں گی۔جس کو خود کوئی خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہو،وہی دوسروں کی ناکامیوں پر خوش ہو سکتا ہے۔ مگرہم تو ایسے نہیں ہیں۔ ہر گز نہیں!
61 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
When someone writes an paragraph he/she keeps the thought of a user in his/her brain that how a user can know it.
Therefore that’s why this piece of writing is amazing.
Thanks!
magnificent points altogether, you simply won a new reader.
What would you suggest in regards to your post that
you simply made a few days in the past? Any sure?
When someone writes an article he/she keeps the plan of a user in his/her mind that how a
user can understand it. Therefore that’s why this post is amazing.
Thanks!
I don’t even know how I finished up here, however I thought this put up was once good.
I do not recognize who you are however certainly you are
going to a well-known blogger for those who are not already.
Cheers!
It’s really very complex in this full of activity life to listen news on TV,
therefore I simply use the web for that purpose, and obtain the most recent
information.
Hello, I enjoy reading through your article post.
I like to write a little comment to support you.
Wow, that’s what I was looking for, what a material!
present here at this weblog, thanks admin of this web site.
I have been exploring for a bit for any high quality articles or blog posts on this
sort of space . Exploring in Yahoo I eventually stumbled upon this
web site. Studying this information So i am satisfied
to convey that I have a very just right uncanny feeling I discovered exactly
what I needed. I such a lot unquestionably will make certain to
do not omit this website and provides it a look on a relentless
basis.
Everyone loves what you guys are up too. This sort of clever work and reporting!
Keep up the fantastic works guys I’ve included you
guys to blogroll.
I love your blog.. very nice colors & theme. Did you
make this website yourself or did you hire someone to do it for you?
Plz reply as I’m looking to create my own blog and would like to know where u got this
from. thank you
I was curious if you ever thought of changing the structure of
your blog? Its very well written; I love what youve got to
say. But maybe you could a little more in the way of content so
people could connect with it better. Youve got an awful lot of text for
only having one or two images. Maybe you could space it out
better?
What’s up to every single one, it’s in fact a nice for me to visit
this website, it consists of valuable Information.
No matter if some one searches for his essential thing, therefore he/she needs to be available that in detail, thus that thing is maintained over here.
I think the admin of this website is in fact working hard in favor
of his web page, as here every data is quality based material.
This is the right webpage for anyone who wishes to understand this topic.
You realize a whole lot its almost hard to argue with you (not
that I really will need to…HaHa). You definitely
put a fresh spin on a topic that’s been written about for many years.
Excellent stuff, just great!
Quality articles or reviews is the key to attract the users to
pay a quick visit the site, that’s what this web site is providing.
I read this post fully on the topic of the difference of
newest and earlier technologies, it’s remarkable article.
I’m amazed, I must say. Rarely do I come across a blog
that’s equally educative and interesting, and let me tell you,
you’ve hit the nail on the head. The problem is something that too few folks are speaking intelligently about.
I am very happy I came across this during my hunt for something relating to this.
I’m not sure exactly why but this site is loading incredibly slow for me.
Is anyone else having this problem or is it a problem on my end?
I’ll check back later and see if the problem still exists.
Hi there it’s me, I am also visiting this site regularly, this web page is truly pleasant and the
viewers are truly sharing fastidious thoughts.
Helpful information. Lucky me I discovered your site unintentionally, and I am shocked
why this accident did not happened earlier! I bookmarked it.
I think this is one of the most significant information for me.
And i am glad reading your article. But should remark on few general things, The site style is great, the articles
is really excellent : D. Good job, cheers
Thanks on your marvelous posting! I seriously enjoyed reading it,
you could be a great author. I will make sure to bookmark your
blog and definitely will come back someday. I want to encourage yourself to continue your great posts, have a nice
holiday weekend!
Hi there superb website! Does running a blog such as this require a large amount
of work? I’ve virtually no knowledge of computer programming
but I had been hoping to start my own blog soon. Anyway, if you have any
suggestions or tips for new blog owners please share.
I understand this is off topic however I simply had to ask.
Kudos!
Howdy! This blog post couldn’t be written any better! Looking at this post reminds me of my
previous roommate! He continually kept preaching about this.
I will forward this information to him. Pretty sure he’ll have
a very good read. Many thanks for sharing!
Thank you, I’ve just been searching for information about this topic for a long time and yours is the
greatest I’ve came upon till now. But, what concerning the bottom line?
Are you positive concerning the supply?
If you wish for to grow your know-how just keep
visiting this website and be updated with the hottest news posted
here.
Fastidious replies in return of this matter with real arguments and describing everything concerning that.
After going over a handful of the blog articles on your blog, I
honestly like your technique of writing a blog. I book-marked it to my
bookmark website list and will be checking back in the
near future. Please check out my website as well and tell me your opinion.
I was wondering if you ever considered changing the layout of your blog?
Its very well written; I love what youve got to say.
But maybe you could a little more in the way of content so
people could connect with it better. Youve got an awful lot of text for only having one or two
pictures. Maybe you could space it out better?
When some one searches for his required thing, thus he/she wants to be available that in detail, thus that
thing is maintained over here.
This is the perfect webpage for everyone who wants to find out about this topic.
You know a whole lot its almost hard to argue with you (not that I actually would want to…HaHa).
You certainly put a brand new spin on a topic that has been written about for ages.
Excellent stuff, just great!
Does your blog have a contact page? I’m having trouble locating it but, I’d like to shoot you an email.
I’ve got some creative ideas for your blog you might be
interested in hearing. Either way, great blog and I look forward
to seeing it improve over time.
It’s an amazing article for all the online visitors;
they will get advantage from it I am sure.
When I originally left a comment I seem to have clicked the
-Notify me when new comments are added- checkbox and from
now on every time a comment is added I get four emails with the exact same comment.
Is there a means you are able to remove me from that service?
Thanks a lot!
At this time I am ready to do my breakfast, after
having my breakfast coming yet again to read further news.
I have been browsing online more than 2 hours today, yet I never found any interesting
article like yours. It’s pretty worth enough for me. In my view, if all web owners and bloggers made good content as you did, the web will be a lot more useful than ever before.
I’m truly enjoying the design and layout of your site.
It’s a very easy on the eyes which makes it much more pleasant for me to come here and visit more often. Did you
hire out a designer to create your theme? Superb work!
Asking questions are truly pleasant thing if you are
not understanding anything completely, but this article provides pleasant
understanding yet.
It’s actually very difficult in this full of
activity life to listen news on Television, so I just use internet for
that reason, and get the hottest information.
I was wondering if you ever considered changing the structure of your website?
Its very well written; I love what youve got to say.
But maybe you could a little more in the way of content so people
could connect with it better. Youve got an awful lot of text for only having
one or two images. Maybe you could space it out better?
Do you have a spam problem on this site; I also am
a blogger, and I was curious about your situation; many of us
have created some nice procedures and we are looking to exchange strategies with others, why not shoot me an email if interested.
I’m not sure why but this site is loading very slow for me.
Is anyone else having this issue or is it a issue on my end?
I’ll check back later and see if the problem still exists.
Very shortly this web page will be famous amid all
blogging and site-building people, due to it’s good content
Hey there! This post couldn’t be written any better! Reading
this post reminds me of my good old room mate! He always kept
talking about this. I will forward this article to him. Fairly certain he will have a good read.
Thanks for sharing!
Hello there! This post could not be written much better!
Looking at this article reminds me of my previous
roommate! He always kept talking about this. I’ll send this information to him.
Pretty sure he will have a good read. Thanks for sharing!
Hurrah! After all I got a blog from where I be capable of actually
get useful data regarding my study and knowledge.
Thanks for sharing such a pleasant idea, piece of writing is
pleasant, thats why i have read it fully
Do you have a spam issue on this blog; I also am a blogger,
and I was curious about your situation; we have developed
some nice practices and we are looking to exchange strategies with others, please shoot me an e-mail if interested.
Heya i am for the first time here. I found this board
and I find It truly useful & it helped me out much.
I hope to present one thing again and aid others such as you
aided me.
This is a topic that is near to my heart… Many thanks!
Exactly where are your contact details though?
I’m not sure why but this blog is loading very slow for me.
Is anyone else having this issue or is it a issue on my end?
I’ll check back later and see if the problem still exists.
If you wish for to increase your know-how simply keep
visiting this web page and be updated with the newest news
posted here.
I quite like looking through a post that can make men and women think.
Also, many thanks for allowing for me to comment!
It’s truly very difficult in this full of activity life to listen news on Television, therefore I simply use web for that purpose, and take the
hottest news.
Why visitors still use to read news papers when in this technological world
everything is available on net?
I needed to thank you for this very good read!! I absolutely loved every bit of it.
I have got you book-marked to look at new things you post…
It’s a pity you don’t have a donate button! I’d definitely
donate to this superb blog! I guess for now i’ll settle for bookmarking and adding your RSS feed to my
Google account. I look forward to new updates and will share this site with my Facebook group.
Talk soon!
This is a topic which is close to my heart… Take care!
Exactly where are your contact details though?
I do not know if it’s just me or if perhaps everyone else experiencing problems with your website.
It appears like some of the written text in your content are running off the screen. Can someone else please comment and
let me know if this is happening to them as well? This might be a
issue with my web browser because I’ve had this happen before.
Cheers
An outstanding share! I’ve just forwarded this onto a colleague
who had been doing a little homework on this. And he in fact
bought me breakfast because I found it for him…
lol. So allow me to reword this…. Thanks for
the meal!! But yeah, thanx for spending the time to talk about this subject here on your web site. https://Bookmarklinking.com/story3999913/courtier-immobilier-sherbrooke-%C3%89quipe-roux-et-bachand