بانوں گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے گھر بھر کی لاڈلی تھی، ماں باپ کی آنکھوں کا تارا اور بڑے بہن بھائیوں کی چھوٹی سی گڑیا۔ دس سال کی گڑیا کو ابا جان پیدل کم ہی چلنے دیتے تھے کہ میری بٹیا تھک جائےگی۔ بانو جوں جوں بڑی ہوتی جاتی تھی توں توں اس کے رنگ روپ میں بھی اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ گھر میں اللہ کا دیا سب کچھ تھا اسے کسی بھی چیز کی کمی نہیں تھی کھانا پینا گھومنا پھرنا گھر کا ماحول بھی قدرے خوشگوار تھا اس لیے عمر کے ساتھ ساتھ بانوں کا اعتماد بھی پروان چڑھ رہا تھا۔ بارہ برس کی ہو چکی تھی مگر گھر میں ٹک کر بیٹھنا کسی نے نہیں سکھایا تھا۔ اسکول کے بعد سارا وقت کھیلنا بلکہ لڑکوں ساتھ کرکٹ کھیلنا پھر شام میں پڑوس کے کسی گھر میں جا کر اپنا پسندیدہ کارٹون پروگرام پاپائے دہ سیلر دیکھنا کیونکہ اس وقت گھر میں ٹی وی موجود نا تھا۔ گھر کا ماحول اس حد تک اسلامی تھا کہ امی ابو نماز کے پابند تھے اور حج کا فریضہ ادا کر چکے تھے دیگر اسلامی شعائر میں روزہ اور زکوۃ کا معاملہ بھی ٹھیک تھا ۔شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے موقع پر بڑی بہنیں برقعہ پہن کر نکلتی مگر بانوں جو اب آہستہ آہستہ جوانی میں قدم رکھتی جاتی تھی اس کو ہر طرح کی آزادی تھی اس کے لئے لباس بھی تنگ اور شوخ رنگ کے بنائے جاتے جس میں اس کا رنگ اور بھی نکھر کر آتا۔ پابندی سے دین کی چند باتوں پر عمل کرنے والےکبھی اس بات پر غور نہ کرسکے کہ ہماری بہن اور بیٹی کس حال میں باہر نکلتی ہے تنگ لباس ،بے حجاب ،کھلے بال اور گلے میں دوپٹہ ، کتنی میلی نگاہیں اس پر پڑتی ہونگی ،کتنے بد نیت لوگ اس پر اپنا ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہونگے، بانوں نے ان تمام آزادیوں کے باوجود اپنے لئےکچھ اصول بنائے ہوئے تھے۔ راستے میں آتے جاتے ہزاروں نگاہیں اس پر اٹھتیں کسی کی طرف بھی التفات نہ کرنا ،پڑوس میں جانے سے پہلے یقین دہانی کر لینا کہ گھر میں خواتین ہیں یا نہیں، غیر مردوں سے بے تکلف نا ہونا ، جہاں کہیں نظروں میں تھوڑی سی بھی لالچ نطر آتی بانو فورا ٹھٹھک جاتی۔
اس کو اس بات کا احساس کبھی نہیں ہوا کہ اس طرح بے حجاب باہر نکلنے سے وہ کتنے لوگوں کو گناہ میں مبتلا کررہی ہے۔وہ تو اپنی ہی دنیا میں مگن تھی۔آج بازار جانا تھا اپنی بھابی کو ساتھ لیا اور چل دی رکشہ کے انتظار میں کھڑی تھی رکشہ گزررہے تھے مگر بھرے ہوئے کوئی ٹھیلا تو کوئی گاڑی بانوں سب کی نظروں کو نظارے کروا رہی تھی جب ایک گدھا گاڑی اس کے آگے سے گزری تو بانوں کو بڑی کراہت محسوس ہوئی لیکن گدھا گاڑی چلانے والے کے الفاظ جب اس کے کانوں سے ٹکرائے تو بانوں جیسے زمین میں گڑ گئی وہ بازار تو گئی اپنا کام نمٹا کر آگئی مگر اب تک اس کی دنیا تلپٹ ہوچکی تھی وہ تو ہمیشہ یہ سمجھتی رہی کہ مرد لوگ صرف چہرہ ہی دیکھتے ہیں مگر نہیں ایسا نہیں تھا پھر بانوں کو بچپن سے لیکر اب تک کہ سارے واقعات یادنے لگے کہ وہ چھولے والاکس نظر سے دیکھتا تھا اور وہ دکاندار جس نے برملا بانوں سے کہہ دیا تھا کہ تم تو پوری جوان عورت ہو جبکہ اس وقت بانوں کاتیر واں سال تھا مگر قد کاٹھ کی وجہ سے اپنی عمر سے بڑی لگتی تھی۔ ان تما م سوچوں کے بعد دوسرے دن جو نتیجہ نکلا کہ بانوں کی زندگی میں آنے والا اگلا دن اس کی دنیا بدل چکا تھا اب جب بانوں گھر سے نکلی تو اس نے اپنےسر اپنی سینے پر اوڑھنی ڈال لی کیونکہ اس کو یہ بات سمجھ میں آگئی تھی کہ حجاب ایک زندہ اور مومن عورت کے لئے ہے۔ ورنہ عورت کی میت کے سر پر رومال تو لپیٹ ہی دیتے ہیں کہ بال نظر نہ آئیں۔ بانوں آ ج بھی جب ان بے حجاب بچیوں کو دیکھتی ہے تو اس کےدل سے ایک آہ سی نکلتی ہے اور وہ دل سے ان ماؤں کی ہدایت کے دعا کرتی ہے جو یوں اپنی معصوم کلیوں کو نظارے کے لئے چھوڑ دیتی ہیں۔
مختصر پر اثر تحریر