”عمران خان تمہاری ریاست مدینہ میں میرا صلاح الدین مرگیا ”

وہ ایک ذہنی مریض تھا لیکن جاتے جاتے پورے معاشرے کی ذہنی حالت کو عیاں کرگیا ۔بکھرے بالوں ،بے خواب آنکھوں اور تاثر سے عاری چہرے کا مالک, یہ شخص کل تک گمنام تھا لیکن آج مظلومیت کا استعارہ ہے ۔وہ نہ کوئی سلطانہ ڈاکو تھا اور نہ ہی روبن ہڈ ،اس کی نہ کوئی آف شور کمپنی تھی اور نہ ہی پاناما لیکس میں اس کا نام شامل تھا ۔وہ پولیس سرپرستی میں اغواء برائے تاوان کی وارداتیں کرنے والا بھی نہیں تھا اور نہ ہی کسی وڈیرے کی ایما پراس نے کسی جنگل میں اپنا ڈاکو راج قائم کیا ہوا تھا ۔وہ تو بس ایک اے ٹی ایم مشین سے کارڈ نکال رہا تھا ۔کارڈ نکالنے سے قبل اس نے سی سی ٹی وی کیمرے کی جانب دیکھا اور اس کو منہ چڑا دیا ،جیسے کہہ رہا ہو کہ اللہ کی آنکھ سے نہ ڈرنے والوں میں تمہاری طرح منافق نہیں ۔دیکھ لو میں اس کیمرے کی آنکھ سے نہیں ڈرتا اور پھر اس نے کارڈ نکالا اور وہاں سے روانہ ہوگیا ۔صلاح الدین تو وہاں سے چلاگیا لیکن تماش بین معاشرے کو ایک تماشہ دے گیا ۔سوشل میڈیا پر اس کی ویڈیو کیا وائرل ہوئی ،بھانت بھانت کی بولیاں شروع ہوگئیں۔کسی کے لیے وہ ایک شاطر چورتھا تو کوئی اس کو کسی گروہ کا سرغنہ سمجھ رہا تھا ۔عجیب ہی قوم ہے اربوں کا ڈاکہ بھول جاتی ہے اور ایک کارڈ چور کے پیچھے لگ جاتی ہے ۔ہم سوشل میڈیا پر ہی عدالت لگاتے ہیں اور پھر فیصلہ سنادیتے ہیں ۔
صلاح الدین نہ کوئی زردار تھا اور نہ ہی کسی سیاسی دربار کا دربان، اس کے لیے نہ کوئی ”ڈیل” اور نہ ہی کوئی” ڈھیل” ، وہ قائد ملت کا قاتل ہوتا تو آج تک قانون کی گرفت سے آزاد ہوتا ۔وہ کراچی میں ہزاروں افراد کو قتل کرنے والا کوئی ”نامعلوم” ٹارگٹ کلر ہوتا تو آج بھی نامعلوم ہی رہتا ۔وہ بے نظیر بھٹو کو جلسہ میں نشانہ بنانے والا دہشت گرد ہوتا تو آج بھی آزاد فضاؤں میں سانس لے رہا ہوتا ،اس نے اربوں روپے منی لانڈرنگ کرکے ملک سے باہر بھجوائے ہوتے تو عالی جناب ہوتا،وہ کسی ”ظل الہی” کا ”فرنٹ مین ”ہوتا تو باعزت ہوتا ، لیکن اس کی بدقسمتی کہ وہ ایک معمولی سا چور تھا ۔اس لیے قانون کے ”لمبے ہاتھ” اس تک پہنچ گئے اور پھر صلاح الدین پولیس کی حراست میں گونگا بن گیا بالکل ایسا ہی گونگا جس طرح ہم اپنے ارد گرد ہوتے ظلم کو دیکھ کے گونگے بن جاتے ہیں ،لیکن صلاح الدین شاید یہ نہیں جانتا تھا کہ جن لوگوں کے ہاتھوں وہ لگا ہے اگر حقیقت میں بھی گونگا ہوتا وہ اس کو بولنے پر مجبور کردیتے ۔
بالآخر صلاح الدین بول اٹھا لیکن اپنے اوپر ایک ظلم کرگیا ۔وہ قانون کے محافظوں سے سوال کربیٹھا ۔وہ ایسی جسارت کرگیا تھا ،جس کی سزا اس کو ملنی ہی تھی ۔وہ کمزور تھا اس لیے ”خطاوار” بھی تھا ۔وہ پوچھ بیٹھا کہ عالی جاہ !آپ نے لوگوں کو اس طرح مارنا کہاں سے سیکھا ہے ؟؟یہ آخری جملہ تھا جو میں نے زندہ حالت میں صلاح الدین کی زبان سے سنا تھا کیونکہ اس کے بعد کسی نے اس کو بولتے نہیں سنا ۔شاید جب اس کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہوگا تو اس نے کہا ہوگا کہ ”میری جبیں کو توبخش دو کیونکہ مائیں تو بریدہ سر بھی چومتی ہیں ”کتنی ہی آوازیں ہوں گی جو اس کے گلے میں ہی بیٹھ گئی ہوں گی،کتنے ہی آنسو ہوں گے جنہوں نے اس کا چہرا بھگودیا ہوگا ۔کتنی ہی آہیں ہوں گی جو اس نے بھری ہوں گی اور کتنی ہی چیخیں ہوں گی جس نے عرش کو ہلادیا ہوگا  اور پھر یہ ہوا کہ اس کی زبان ہمیشہ کے لیے بند کردی گئی ۔شاید آخری سانس لینے سے پہلے تک اس کو اپنے سوال کا جواب نہیں مل سکا ہوگا ۔اس کا سوال بھی رائیگاں گیا اور وہ بھی خود بھی رائیگاں چلا گیا ۔
اس کا بزرگ باپ ایک ریٹائرڈ اسکول ٹیچر ہے ۔وہ لوگوں کے سامنے دہائیاں دیتا رہا ۔وہ سمجھاتا رہا کہ اس کا بیٹا ایک ذہنی مریض ہے ۔اس کی ہتھیلی پر لکھا تھا یہ مخبوط الحواس ہے ،جس کو ملے اس کو گھر پہنچادے ۔ایک عمر تک قوم کے بچوں کو زیور علم سے آراستہ کرنے والا استاد ان لوگوں کے سامنے اپنا نوحہ پڑھتا رہاجن کے دل سنگ بن گئے ہیں ۔جن کے ذہنوں کو زنگ لگ گیا ہے ،جن کے قلم بکے ہوئے ہیں اور جن کی ”جنت  و دوزخ” بس یہی دنیا ہے ۔یہ بزرگ استاد اپنے بیٹے کی تشدد زدہ لاش لے کر گھر کس طرح پہنچا ہو گا اس کا مجھے علم نہیں ،میں یہ بھی نہیں جانتا کہ اس نے اپنے لخت جگر کے گھائل جسم پر کہاں کہاں” بوسے” دیئے ہوں گے ۔میں اس بات سے بھی لاعلم ہوں کہ وہ اپنے ناتواں کاندھوں سے بیٹے کے جنازے کا بوجھ اٹھابھی سکا تھا یا نہیں لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ اپنے لخت جگر کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد اس نے زیر لب یہ ضرور کہا ہوگا کہ ”عمران خان تمہاری ریاست مدینہ میں میرا صلاح الدین مرگیا ”۔

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں