حجاب میری پہچان ہے 

کہتے ہیں کے انسان کا لباس اس کی پہچان ہوتا ہے اور سب سے پہلے آپ جب کسی سے ملتے ہیں تو اس کے لباس کو دیکھتے ہوئےاپنے ذہن  میں ایک کردار کی تصویر بنالیتے ہیں ہیں اور قوم کی طرز کا لباس آپ پہنتے ہیں اسی قوم کے نمائندہ معلوم ہوتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم جس قوم کی مشابہت اختیار کروگے آخرت میں ان کے ساتھ ہی اٹھاۓ جاٶ گے ۔

انسان کو اللہ نے لباس کی نعمت سے نوازہ اورعورت کے  لیے حجاب کو بہترین قرار دیا اور اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ۔

قُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [٢٤:٣١] ”اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں، وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، ا پنے مملوک، وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں وہ ا پنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے “۔

یقیناً حجاب اور حیا ہی ہمارے لیے فلاح کاذریعہ ہیں لیکن ایک عام مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اکثر خواتین جو خود حجاب لیتی ہیں اور اپنی جوان بچیوں کو نہیں کرنے دیتیں۔ عموماً سوچ یہ ہوتی ہے کے رشتے نہیں آئیں گے جبکہ پردہ تو جوان لڑکیوں کے لیے زیادہ ضروری  ہے کیونکہ وہی آپ کی خوبصورتی کے عروج کے دن ہوتے ہیں ۔

پردہ عورت کو ایک خاص تحفظ  دیتا ہے کسی کی شیطانی نظریں آپ کی خوبصورتی تک نہیں پہنچ سکتیں ۔

یہی چیز ہمارے معاشرے کو محفوظ  معاشرہ  بناتی  ہے۔

حصہ

1 تبصرہ

  1. اسلام و علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

    بچپن ہی سے جب بھی گھر سے باہر نکلنا ہوتا یا گھر کوئی مرد آتا تو پاپا سر پر ڈوپٹہ کرنے کی تلقین کرتے۔
    لیکن میں سر پر ڈوپٹہ برائے نام ہی کرتی تھی، کبھی کبھار ڈوپٹہ سر سے اُتر بھی جاتا تو پرواہ نا کرتی۔
    یہ سلسلہ فرسٹ ایئر تک رہا،
    پردے کے بارے میں کئی باتیں اور کئ احکام نظروں کے سامنے سے گزرے، لیکن یہ سوچ کر نظر انداز کیا کہ جب باقی سب نہیں کرتے تو میں کیسے کروں،
    مجھے ایک استاد کی ضرورت تھی، جو مجھے اچھی بات بتائے تو میں اس پر عمل کروں، خود سے کوئی عمل کرنا مشکل لگتا تھا
    اور یہ کمی نمرہ احمد نے اپنے ناول ‘جنت کے پتے’ کے ذریعے دور کی،
    انکا ناول ایک ہفتہ میں مکمل پڑھا، اور دل میں شوق، ہمت اور حوصلہ پیدا ہوا، اسوقت اندازہ نہیں تھا کہ میرے پردہ شروع کرنے پر لوگوں کا ردِعمل کیا ہوگا۔
    دو دن مسلسل اسی بارے میں سوچتی رہی، اور تیسرے دن اسکول نقاب میں گئی، ساتھ کام کرنے والی ٹیچرز نے حیرانگی کے ساتھ تاثر دیا،
    پرنسل اور ایک جاننے والے کولیگ نے دعا دی کہ اللہ استقامت دے، اور تلقین کی کہ اسے کبھی مت چھوڑنا،۔گھر والوں کے لیے یہ بات غیر متوقع تھی،
    جس کا اظہار انہوں نے ناپسندیدگی کے ساتھ کیا۔ انہوں نے سمجھایا کہ یہ طریقہ ہمارے خاندان میں نہیں ہے، اسکی وجہ سے تم ہر دوڑ میں پیچھے رہوگی، اور پردہ تو صرف آنکھوں میں ہوتا ہے
    لیکن اللہ کا فضل تھا کہ کسی کی بات نے بھی ہمت کم نہیں کی، اسی دوران نمازوں میں دل لگتا گیا، اور اللہ سے رابطہ مضبوط ہوگیا،
    دوسرے مہینے ہی یہ بات خاندان والوں تک پہنچ گئی، میری بچپن ہی سے خالہ کے بیٹے سے بات طے تھی،
    جنہیں یہ بات پسند نا آئی کہ انکی بہو پردہ کرے، کیونکہ انکا مکمل خاندان بہت لبرل ہے، کبھی کبھار وہ یہ رشتہ ختم کرنے اور کبھی برقرار رکھنے کی بات کرتے ہیں، جو بات اب تک ادھوری ہے
    کچھ خاندان کہ لوگوں نے بار بار یہ کہہ کر بھی ہمت توڑنے کی کوشش کی کہ تم زیادہ دیر تک پردہ نہیں کرسکوگی، لیکن دل میں جو اللہ کی محبت ہے وہ صرف اللہ ہی جانتا ہے، رشتہ داروں سے کم ملنے ملانے پر گھر والوں سے بہت بار ڈانٹ بھی پڑی ، کئی بار آنکھوں میں آنسو بھی آئے، لیکن اللہ سے یہی دعا مانگتی رہی کہ مجھ ایسی بندی بنادے جس سے تُو راضی ہو،
    دل میں خدا کی محبت اتنی ہے کہ ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود بھی اسکی رضا کی خاطر ہر کام کرنے کو تیار ہوں
    اللہ میری تمام پردہ دار بہنوں کو ہمت و استقامت عطا فرمائے۔۔
    آمین

    ملیحہ

جواب چھوڑ دیں