”مجھے گائے سے ڈرلگتا ہے صاحب“

میں ہندوستان کا ایک مسلمان ہوں۔میرے پیچھے کئی صدیاں کھڑی ہیں۔یہ کوئی پل دو پل کا قصہ نہیں،میری شان و شوکت کی 800سالہ داستان ہے۔میں یہاں کا حاکم تھا۔میری ابروئے جنبش سے فیصلے ہوا کرتے تھے۔میں نے یہاں سومنات بھی ڈھایا۔میری قدموں کی چاپ دلی اور بِہار نے بھی سنی۔میں خواجہ کی قوالیوں پر سردھنتا تھا۔میں شاہ ولی اللہ کا اسیر تھا۔قطب مینار کی بلندی میرا سر فخر سے بلند کرتی تھی تو تاج محل کی رعنائیاں مجھے ایک دوسرے جہاں میں لے جاتی تھیں۔میر ی صدیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ میں نڈر تھا۔میں حاکم تھا تو انصاف کرنا میرا وصف تھا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو آج پورا ہندوستان مسلمان ہوتا۔میں نے کبھی ہندوستان کو”اسلامستان“نہیں کہا۔میرے دربار کے دروازے سب کے لیے کھلے تھے۔دلی کی جامع مسجد کے میناروں سے گونجتی اذان کی آواز میری آنکھیں نم کرتی تھی تو لال قلعہ کی دیواروں کی مضبوطی سے مجھے اپنا سینہ چٹان محسوس ہوتا تھا۔میں ”میر“ کی غزل تھا۔میں ”سودا“ کا قصیدہ تھا۔میں امیر خسرو کی ”پہیلی“ تھا،میں ”انیس و دبیر“کا مرثیہ تھا۔میں غالب کی شاعری تھا۔مجھ میں پورا ہندستان بسا تھا کیونکہ میں ہندوستان کا ایک مسلمان تھا۔
میں اپنے ہندوستان میں مطمئن تھا۔پھر میں نے سنا کہ کچھ ”گورے لوگوں“ کی دربار تک رسائی ہوگئی ہے۔وہ اب ہندوستان میں تجارت کریں گے۔کوئی ایسٹ انڈیا کمپنی آگئی ہے۔مجھے اس سے کیا غرض تھی۔میں اپنی دنیا میں مگن تھا۔دلی کی جامع مسجد سے اذان کی آوازیں آرہی تھیں۔ہندوستان کے بازار گرم تھے۔ریاستیں آباد تھیں۔مشاعرے ہورہے تھے۔زندگی کسی آبشار کی طرح بہہ رہی تھی۔چشمے پھوٹ رہے تھے۔ندیاں گیت سنارہی تھیں لیکن پھر مجھے محسوس ہوا کہ سب کچھ ویسا نہیں ہے جو مجھے نظر آرہا ہے۔محلاتی سازشیں ہورہی تھیں۔اقتدار کی غلام گردشوں میں مہرے دوڑ رہے تھے۔میرے ماتھے پر تفکر کی لکیر تو آئی لیکن میں خوفزدہ نہیں تھا۔میری دلی پہلے بھی کئی مرتبہ اجڑ چکی تھی لیکن میں نے اسے اپنے زور بازو سے دوبارہ بسایا تھا۔دربار سے کچھ عجیب خبریں آنے لگی تھیں اور پھر وہ ہوگیا جس کا میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔مجھے بتایا گیا کہ شہزادے قتل ہوگئے ہیں۔بادشاہ جلاوطن کردیا گیا۔میری دلی پھر اجڑ گئی تھی اور اب کے لٹیرے سات سمندر پار سے آئے تھے۔میرا نیا حاکم میری زبان سے بھی ناواقف تھا۔میں نے توہمیشہ ہندوستان میں خود کو حاکم دیکھا تھا،اب میں محکوم تھا۔شہزادوں کو دلی کی گلیوں میں بھیک مانگتے دیکھ کر میرا حوصلہ پست ضرور ہوا لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری کیونکہ میں ہندستان کا ایک مسلمان تھا۔
”گوراصاحب“کی غلامی اب مجھے تنگ کرنے لگی تھی۔میں ایک مرتبہ پھر آزاد فضاؤں میں سانس لینا چاہتا تھا۔میں اپنے اس نئے ”آقا“ کو واپس سات سمندر پار بھجوانا چاہتا تھا اور پھر میں گانگریسی ہوگیا۔اس وقت ہر ہندوستانی چاہے وہ ہندو ہو،مسلمان ہو یا سکھ وہ کانگریسی تھا۔پھر کچھ مسلمانوں نے صدا لگائی کہ ہندو مسلمان ایک نہیں ہوسکتے۔ان کی زبان الگ،رہن سہن الگ،رسم و رواج الگ،یہ دو الگ قومیں ہیں۔مجھے کسی نے سمجھا یا کہ یہ ”دوقومی نظریہ“ہے اور پھر علم میں آیا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام بھی عمل میں آگیا ہے کیونکہ میں ہندوستانی تھا اور ایک ہندوستان پر یقین رکھتا تھا اس لیے میں کانگریسی ہی رہا۔مجھے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کا قیام مناسب نہیں لگتا تھا۔مجھے ابوالکلام آزاد سمجھاتے تھے کہ اگر تم پاکستان چلے گئے تو تمہیں دلی کی جامع مسجد کی سیڑھیاں یاد آئیں گی۔تمہاری اس نئے وطن میں کوئی پہچان نہیں ہوگی۔پاکستان بن گیا۔میرے بہت سے ساتھی ہجرت کرگئے لیکن میں ابوالکلام آزاد کے ساتھ تھا۔میں مولانا حسین احمد مدنی کے ساتھ تھا۔میں ہندوستان کے ساتھ تھا کیونکہ میں ہندوستان کا ایک مسلمان تھا۔
”نئے ہندوستان“ میں مجھے پہلی مرتبہ اپنے لیے”اقلیت“ کا لفظ سننا پڑا۔یہ مجھے اپنے سماعتوں پر گراں تو گذرا لیکن میں خاموش رہا۔مجھے بتایا گیا تھا کہ نیا ہندوستان ایک سیکولر ریاست ہے۔اس کا کوئی مذہب نہیں ہے۔یہاں تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے مساوی حقوق ہیں۔یہ باتیں میرے دل کو لبھاتی ضرور تھیں لیکن مجھے سب ویسا نظر نہیں آتاتھا جو مجھے بتایا جارہا تھا۔مجھے کہا جاتا تھا کہ دیکھو پاکستان میں مساجد پر حملے ہوتے ہیں۔مسلمان ہی مسلمان کا گلا کاٹ رہے ہیں۔تم تو یہاں محفوظ ہو۔تم آزادی کے ساتھ اپنی مسجدوں میں جاتے ہو۔تمہیں کیا خوف ہے؟ لیکن میرا دل لرزتا رہتا تھا۔بابری مسجد کی شہادت نے میرے وسوسوں کو تشویش میں مبتلا کردیا اور پھر گجرات میں جو کچھ ہوا اس کے بعد پہلی مرتبہ ”اپنے ہندوستان“ میں مجھے اپنی دل کی دھڑکنیں مدہم سی محسوس ہوئیں اور جب گجرات کا قصائی ہندوستان کا حکمران بن گیا تو خوف نے میرے گرد گھیرا ڈال لیا۔مجھے کسی نے بتایا کہ امریکا کا صدر کہتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ دو ملکوں کا نہیں دو مذاہب کا مسئلہ ہے۔مطلب ڈونلڈ ٹرمپ بھی وہی کہہ رہا جو مجھے آزادی سے پہلے مسلمان رہنما سمجھا رہے تھے تو آج امریکا کا حاکم بھی دوقومی نظریہ کا قائل ہے۔
میں اپنے گھر کے ایک اندرونی کمرے میں دبک کر بیٹھا ہو ں۔باہر سے کچھ آوازیں آرہی ہیں۔ایسا لگ رہا ہے کہ بہت سے لوگ کسی کو اپنے ساتھ لے کر جارہے ہیں۔میرے کانوں میں ”گائے“ اور ”گوشت“ کی آوازیں آرہی ہیں۔میرا دل بیٹھ رہا ہے۔میں اعتراف کرتا ہوں کہ ہندوستان میں آج خوف نے مجھے شکست دے دی ہے۔میں آپ کو کیسے بتاؤں!”مجھے گائے سے ڈرلگتا ہے صاحب“ کیونکہ میں ہندستان کا ایک مسلمان ہوں۔۔۔

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں