۔1491میں بالآخر غرناطہ بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔ غرناطہ کے 22ویں اور آخری بادشاہ ابو محمد نے فرڈینینڈ سے معاہدہ کیا، اس معاہدے کی بہت ساری شقیں تھیں۔ جس میں فرڈینینڈ کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ “بہترین سلوک” اختیار کرے گا، مسلمانوں کو ان کے دین اور مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت ہوگی، اور مسلمان اپنے تعزیری معاملات بھی قرآن و حدیث کے مطابق کریں گے۔
اس معاہدے پر دستخط کے بعد ابو عبداللہ اپنی ماں اور بیوی کے ساتھ غرناطہ کی کنجیاں فرڈینینڈ کے حوالے کر کے شہر سے باہر نکل گیا، اور دور پہاڑی پر جاکر حسرت سے اپنے آباؤ اجداد، مسلمانوں کے رعب و دبدبے، طمطراق اور علم و ادب کے اس شہر غرناطہ پر آخری بار نظر ڈالی تو دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ اس کی ماں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا “بیٹے! جس شہر کی حفاظت مردوں کی طرح نہیں کرسکے اب اس پر عورتوں کی طرح آنسو مت بہاؤ”۔ اس کے بعد پورے اندلس، غرناطہ،اور اشبیلیہ میں جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہوا اس کے لیے نسیم حجازی کا ناول “کلیسا اور آگ” پڑھ لینا ہی کافی ہے۔ پھر پورے اندلس میں دو ہی قسم کے مسلمان تھے ایک وہ مسلمان جنہوں نے اپنا مذہب تبدیل کرلیا اور دوسرے وہ جن کو اٹھا اٹھا کر آگ میں پھینک دیا گیا۔
کسی بھی قسم کی کوئی اسلامی نشانی کسی ایک کے گھر میں بھی نہیں چھوڑی گئی، مسلمانوں کو اس سرزمین سے جہاں انہوں نے 800سال تک بلا شرکت غیرے حکومت کی تھی صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دیا گیا۔ظلم کے وہ پہاڑ مسلمانوں پر توڑے گئے کہ جن کو سوچ کر آپ کی روح تک اندر سے کانپ اٹھے۔
یہ سب اس طارق بن زیاد کے جانشین تھے کہ جس نے اپنی کشتیاں جلا کر بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا دیے تھے۔ پھر اس کے جانشینوں کو گھوڑوں کی پیٹھ پر تلواروں کی “چھن چھن” سے کوئی دلچسپی نہیں رہی، ان کے صوفے افرنگی اور قالین ایرانی بن گئے، ان کی نظر کو تہذیب حاضر کی چمک نے خیرہ کرکے رکھ دیا اور جس میں معراج مسلمانی کو استغناء میں تلاش کرنا تھا اسے جھوٹے نگوں کی ریزہ کاریوں میں تلاش کرنے اور تہذیب حاضر کی کی تجلیوں میں ڈھونڈنے میں ان کےمن مست مگن ہوگئے۔
بالآخر پہاڑوں کی چٹانوں کو خیرباد کہہ کر ہم قصر سلطانی کے گنبدوں میں کھو گئے۔ ہم نے تقدیر امم کو ہی نہ سمجھا کہ جہاں شمشیر و سناں اول اور طاؤس و رباب آخر ہوتے ہیں ۔
یقین کریں میں جب جب تاریخ اندلس اورسقوط غرناطہ و بغداد پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے خوف آنے لگتا ہے۔ دنیا میں جنگیں اسلحہ سے نہیں جیتی جاتیں، اگر ایٹم بم، گائیڈڈ میزائل، ڈرون طیارے، فوج کی کثرت اور ٹیکنالوجی کی بہتات سے جنگیں جیتی جاتیں تو افغانستان میں امریکہ اپنے 48 حواریوں کےساتھ شکست کھا کر “سیف زون” کی منتیں نہ مانگتا۔
قرآن کی یہ آیت کہ “کتنی ہی دفعہ کم تعداد والا گروہ اللہ کے حکم سے زیادہ تعداد والے گروہ پر غالب آیا ہے” (البقرہ) یہ سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ طیاروں کا مقابلہ جذبوں سے ہوتا ہے اور جذبہ ہمیشہ جیتا ہے۔
بہرحال ہمیں ہندوستان سے آج نہیں تو کل جنگ تو لڑنی پڑے گی۔ دنیا میں ہر مسئلے کا حل “امن” نہیں ہوتا، اگر امن ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ پرامن انسان اس دنیا کی تاریخ میں نہیں گزرا جنھوں نے پورا مکہ بغیر خون کا ایک قطرہ بہائے فتح کرلیا اور صلح حدیبیہ میں بھی کڑی شرائط پر معاہدہ طے کرلیا لیکن اس کے باوجود ساری زندگی گھوڑے کی پیٹھ اور تلواروں کے سائے میں گزار دی، مدینہ کے 8سالوں میں سے 6 سال تو صرف جنگوں کی نذر ہوگئے اور آپ کو پھر بھی “جنونیوں” سے امن کی امید ہے؟
ہندوستان کے نصاب کی کتابوں میں پاکستان کو ہندوستان کا حصہ دکھایا اور پڑھایا جاتا ہے۔ آپ مان لیں کہ مقبوضہ کشمیر تو ایک بہانہ ہے اصل میں تو اسلام آباد کی طرف آنا ہے، جنگ آپ کا مقدر ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے لیے نہ سہی، آزاد کشمیر کے لیے، آزاد کشمیر کے لیے نہ سہی، اسلام آباد کے لیے اور اسلام آباد کیلئے بھی نہ سہی تو پانی کے لیے ایک جنگ تو لڑنی ہے، آج نہیں تو کل لڑنی ہے۔
امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا “ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے قربانی اتنی زیادہ دینی پڑے گی”۔ جنگ کا اصول یہ ہے کہ آپ کو کسی نہ کسی سطح پر دشمن کے مقابلے میں برتری حاصل ہو اسلحے اور فوج میں، ٹیکنالوجی اور سفارتی حمایت میں یا پھر اخلاق و کردار اور ایمان میں اور بدقسمتی سے اس وقت ہم ہر محاذ پر صرف اور صرف زوال کا شکار ہیں۔
مسلمان کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ مسلمان بغیر ایمان اور اللہ تعالی کی مدد و نصرت کے بغیر شکست خوردہ ہے اور اگر آپ کے پاس صرف ایمانی طاقت ہو تو پھر بھی آپ دشمن کے مقابلے میں برتری ضرور رکھتے ہیں، کیونکہ “اخلاقی اقدار کی فراوانی مادی وسائل کی کمی کو پورا کر دیتی ہے، لیکن مادی وسائل کی فراوانی اخلاقی اقدار کی کمی کو پورا نہیں کرسکتی”۔
احمقوں کی جنت میں رہنے کی اس سے بڑی نشانی اور کیا ہوگی کہ ہمیں اقوام متحدہ اور عالمی عدالت سے “انصاف” کی امید ہے۔ اقبال نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا:
بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے!
آپ الٹے لٹک کر بھی ان کی حمایت حاصل نہیں کر سکتے۔ قرآن کہتا ہے “جو چیز تمہیں تکلیف دے، وہ انھیں پسند آتی ہے ان کے مونہوں سے تمہارے لئے دشمنی نکل نکل پڑتی ہے اور جو ان کے سینوں میں چھپا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے” (ال عمران)۔ اپنے اسلحہ کو تیز رکھیں، فوج کو تیار کرلیں، خود کو ٹیکنالوجی سے لیس کریں، اپنے آپ کو اخلاقی طور پر بلند کر لیں۔ اللہ پر توکل کریں اور اگر جنگ تو پھر جنگ ہی سہی۔ اقبال کا بتایا ہوا اصول ضرور یارد رہے کہ:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات