امت کا تصور اتنا جاندار ہے کہ استعمار نے اس کو ختم کرنے کے لیے امت کے وجود کو بزور شمشیر کیک کے ٹکڑوں کی طرح تقسیم کیا،خاردار باڑیں لگائیں،آمد و رفت محدود کی، پاسپورٹ اور ویزے کا دھندا قائم کیا،پھر بندوق کے پہرے بٹھائے،ایک کے بجائے درجنوں پرچم دیے اور ہر قومیت کو صرف اپنے وطن کی عظمت پر لگا دیا، اپنے تئیں باقی سب بھلا دیا اور پھرسب سے اوپر ذہنی غلامی کو قائم دائم رکھنے کے لیے اپنے کالے غلام اس سارے بندوبست کی حفاظت کے لیے چھوڑ دیے۔۔۔!
لیکن امت نے اپنے وجود کا ثبوت دیا اور ہر محاذ پر دیا۔
اڑتالیس کی عرب اسرائیل جنگ میں مجاہدینِ امت نے بے سروسامانی میں اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے۔۔۔73ء کی جنگ میں اسرائیلی پوچھتے تھےاس دفعہ فدائین تو نہیں لڑ رہےنا! پھر جتنی جنگیں عرب قومیت کے نعرے پر لڑی گئیں،ہمیشہ منہ کی کھائی اور جب جب امت کی،قرآن کی صدا بلند ہوئی، دشمن خون کے گھونٹ پی کرر ہ گیا۔آج بھی غزہ کا قید خانہ اور القدس کے مینار خون سے تر ہیں ، امت تابندہ ہے!
افغانستان کی تو مثال ہی دینا وقت کا زیاں ہے ،انڈونیشیا سے مراکش تک امت کے نمائندے بارگاہ الٰہی میں منتخب ہو ہو کر پہنچے اور خون ِرگِ جاں سے حق کی شہادت رقم کی۔رحمھم اللہ۔
بوسنیا کی بات کم کومعلوم ہے۔۔۔1992ء میں نسل کشی شروع ہوئی تو ہر حکومت نے ویسے ہی تاریخی” کھڑے ہونے” پر اکتفا فرمایا جیسے آج پاکستان کشمیر کی چتا کے سرہانے ساتھ”کھڑا” ہے۔۔۔امت کو آواز پڑی،امت نے لبیک کہا،عالم اسلام سے جانباز آئے اوردو ہی سال میں سرب افواج کا زور توڑ دیا۔دشمن کو مجبوراََبوسنیا کے قیام کو تسلیم کرنا پڑا! صدرعلی عزت بیگوویچ کا خراج تحسین آج بھی موجود ہے،اسے پڑھیں،معلوم ہو گا امت کیا ہے، کیا کر سکتی ہے!
عراق میں امریکی تسلط کے خلاف ان کہی داستان کبھی لکھی جائے تو استعمار کے خلاف جدوجہد میں امت کاتاریخی کردار سامنے آئے گا اور یہ لکھا جائے گا۔انگریزی میں لکھا بھی گیا ہے،اردو تاحال محروم ہے!
اعلان آزادی 1995ء کے بعد آزاد چیچنیا کے صدر جوہر داؤدییف نے آرمی کا کمانڈر ایک عرب کمانڈر امیر الخطاب کو مقرر کیا تھا،کس قاعدے کے تحت؟یہ امت ہے! وہی خطاب جس نے سعودی عرب میں والدہ کو فون پر کہا تھا کہ جب چیچنیا سے روسی استعمار کا جنازہ نکل جائے گا،خطاب اپنی ماں سے ملنے آ جائے گا!
صرف کشمیر میں پچیس ہزار پاکستانی امت کے وجود کی سند خونِ رگِ جاں سے رقم کر چکے ہیں۔کسی ایک کا باپ یا بھائی بھی یہ گواہی نہیں دے سکتا کہ وہ’ ‘سب سے پہلے پاکستان” پر قربان ہوا۔ہر شہید نے امت کے لیے قربانی دی!خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی!
حماس کے ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کا بانی تیونس کا شہری محمد الزواری بنتا ہے۔۔۔کس نسبت سے؟؟اسی نسبت سے جس نسبت سے بوڑھا شیرسیدعلی گیلانی اپنا آپ پاکستان سے منسوب کرتا ہے۔۔پاکستان کو امت کا ایک حصہ سمجھتے ہوئے۔۔ “اسلام کی نسبت سے ۔۔۔اسلام کے تعلق سے۔۔۔اسلام کے رشتے سے۔۔۔ہم پاکستانی ہیں۔۔پاکستان ہمارا ہے!”
اقبال ابھی تک غلطی سے قومی شاعر ہی ہے،بہت غلط سلط لکھ گیا ہے:
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
اب جیسے جمہوریت میں بھی کہنے کو ہر عام آدمی کے لیے بھی الیکشن کا میدان کھلا ہے، لڑ لے اور جیت لے!لیکن عملاً اس کانگڑی پہلوان کا مقابلہ سرمایہ دار اور بدمعاشی کے اسٹیرائیڈز سے پلے تنومند سیاستدان سے ہوتا ہے۔۔عین اسی طرح امت پر مسلط مغرب کے کاسہ لیسوں کے زیر نگرانی امت کو طعنے دیے جاتے ہیں کہ کچھ کرتے کیوں نہیں؟
چہ خوب خواجہ!
چلیں یوں کریں!ایک کام کریں!یہ ملکوں کے شناور امت کو صرف ایک موقع دے دیں! جیسے وسیم اختر نے مصطفیٰ کمال کو ایک موقع دیا، یہاں امت کو آپ کے پھیلائے کچرے کو صاف کرنے کا ایک موقع دیا جائے!
کھول دیں کشمیر اور فلسطین کا باڈر اور خود قومِ موسیٰ کی طرح آیت کا ورد شروع کر دیں کہ ‘تو اور تیرا رب جا کر لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں!’۔۔۔عرب حکمران فلسطین کے لیے اعلان فرما دیں کہ صاحب ہم غیر جانبدار ہیں !امت جانے اور اسرائیل جانے۔۔ہم صرف امت کو اپنے فلسطین کی مدد سے روکیں گے نہیں !بس! یہی اعلان ‘ریاست مدینہ’ کشمیر کے لیے فرما دے۔۔۔صرف دو سے پانچ سال صرف آنکھیں بند کر لیں۔۔پھر دیکھ لیں امت کسی قابل ہے یا نہیں ہے!
لیکن صاحب! وہ کیا ہے نا کہ سود کا چکر چلایا ہی اس لیے گیا ہے کہ قومی رگ و ریشے میں حرام ایسا سرایت کرجائے کہ غیرت و حمیت ہی ختم ہو کر رہ جائے،ہر چیز ‘معیشت’ کے ترازو میں تلنی شروع ہو جائے اور عزت و اخلاق سے بڑھ کر قرض کی مے عزیز ہو جائے! وہ ہو چکی!
صلاح الدین ایوبیؒ نے کہا تھا ”مسلمانوں کے قلعوں کے دروازے ہمیشہ اندر سے کھلے ہیں۔”بات یہی ہے کہ شکست اصل میں ذہنی ہوتی ہے۔۔۔شکست سے بھی اگلی چیز ذہنی غلامی ہوتی ہے۔جن کے آباء و اجداد کو مجاہدین آزادی سے لڑنے کے صلے میں گورا سرکار نے گدیاں اور زمینیں الاٹ فرمائی تھیں کہ جن کی کمائی پر اب یہ سیاست فرماتے ہیں، ان کی اولاد انہیں کے نقش قدم پر پیر دھر سکتی ہے۔۔۔ذہنی غلام صرف خود سے توجہ ہٹانے کے لیے امت کے طعنے دے سکتے ہیں۔۔یہی ان کا مقام ۔۔۔یہی ان کا نصیب!