سترسالوں سے کشمیر پر زبانی جمع خرچ ہمارا ہر حکمران کرتا آیا، عملاً کسی نے سنجیدگی کبھی نہ دکھائی اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے ۔اس کے باوجود موجودہ حکمران بھی محض بیان بازی کے کھلونے سے عوام کے غم و غصے کو ٹھنڈا کررہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ کشمیر پر اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے دعوے کے باوجود عملاً مودی کو پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی گئی اور مودی کے طیارے نے پاکستانی فضائی حدود کااستعمال کیا ۔دوسری طرف نہ جانے کرتار پور بارڈر میں ایسی کیا کشش ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی فرماتے ہیں کہ 11نومبر کو کرتار پور بارڈر کھول دیں گے۔۔معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق فرماتی ہیں کرتار پور راہداری منصوبے کے لیے پر عزم ہیں ۔۔۔۔۔ جبکہ بھارت سے بی جے پی رہنما سبرا مینیم سوامی ہرزہ سرائی کرتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کرتار پور راہداری نہ کھولی جائے۔
دوسری طرف فواد چوہدری ہیں جو یہ بیان داغ رہے ہیں کہ امت کے بجائے اپنے ملک کی سرحدوں کو بچائیں ۔۔۔۔۔ڈر ہے کہیں وہ کسی دن یہ نہ فرمادیں کہ کشمیری اپنی جنگ خود لڑ لیں گے۔ پاکستانیو! اپنی فکر کرو ۔
یہ سچ ہے کہ :
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
وزیر ٹیکنالوجی سے مؤدبانہ گزارش ہےکہ امت تو موجود ہے اور موجود رہے گی ہاں امت کو عمر بن خطاب،حیدر کرار ،محمد بن قاسم ،خالد بن ولید جیسے قائد اور رہنما دستیاب نہیں اس وقت حب جاہ اورحب مال رکھنے والے امت پر مسلط ہیں جو پیٹ سے آگے کا سوچ ہی نہیں سکتے۔نبیﷺ کی امت کا فتنہ یہ حب مال و جاہ ہی تو ہے جس کی ہوس نے سوچ و فکر کو تباہ کردیا اور اب ایمانیات اور نظریات پر حملہ آور ہے ۔
حکمران خود بھی اپنی کمزوریوں پر نگاہ ڈالیں کہ انہوں نے اس سے پہلے مسئلہ کشمیر پر بین الاقوامی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنے اور لابنگ کرنے میں کتنی سنجیدگی دکھائی تھی اگر ہمارے تمام حکمرانوں نے کشمیر کے مسئلے کو سنجیدگی سے شہ رگ سمجھتے ہوئے ڈیل کیا ہوتا تو شاید آج صورتحال مختلف ہوتی۔
حکومت سے گزارش ہے کشمیری پہلے بھی اپنی جنگ خود لڑتے رہے آگے بھی خود لڑلیں گے آپ کم از کم ایک نکتے پر ڈٹ کر ان کا ساتھ دیں کہ کشمیر کو بھارت کے قبضے سے آزاد کرایا جائے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ان کی مرضی سے استصواب کا حق دیا جائے ۔اس کے علاؤہ کوئی بھی حل سودے بازی کے سوا کچھ نہ ہوگا جسے تاریخ معاف نہیں کرےگی۔