گر فردوس زمیں است ۔آخری حصہ

اب ہماری اگلی منزل “بڑا پانی” تھا، یہ بھی دیوسائی کے اندر ہی موجود ہے۔ بڑا پانی ، دشوار ترین راستوں اور کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد ہم “ست پارہ” جھیل کی طرف رواں دواں تھے۔
گلگت اور اسکردو کے سنگلاخ اور سلیٹی پہاڑوں کے درمیان “نیلے رنگ” کی یہ جھیل بالکل ایک الگ ہی منظر پیش کرتی ہے۔ یہ جھیل خاصی طویل ہے، اس کے کنارے پر جاکر اپنے پاؤں اس میں ڈالنا اور شفاف پانی پر چھوٹی چھوٹی مچھیلوں کو دیکھنا بھی ایک الگ ہی تجربہ تھا۔
راستے میں اسکردو ڈیم سے ہوتے ہوئے ، اسکردو سٹی پہنچے۔ پورے گلگت اور بالخصوص اسکردو میں تعلیم کی بہت اہمیت ہے، آپ کو صبح کے اوقات میں ہر طرف بچے بچیاں اسکول جاتے نظر آئینگے۔ بظاہر دنیا سے کٹے ہوئے گاؤں میں بھی آپ کو لازما کوئی نہ کوئی اسکول ضرور مل جائیگا۔ لوگ مہذب، بااخلاق، تمیز دار اور صاف ستھرے ہیں۔ آپ کو کوڑا کرکٹ وہیں نظر آئیگا جہاں “شہری بابو” آکر گئے ہونگے، باقی دیہاتی آبادی ان سے لاکھ درجے بہتر ہے۔
یہ سفر میری زندگی کا طویل ترین، دشوار ترین اور ہولناک ترین سفر تھا۔ ہولناک والا “پارٹ” اگرچہ اسکردو سے جنگلوٹ تک کا تھا لیکن یہ سفر صبح 8:30 بجے شروع ہوکر شام 7:30 بجے اختتام پذیر ہوا۔
ایک طرف سنگلاخ، نوکیلے اور سلیٹی رنگ کے دیو قامت پہاڑ، دوسری طرف میلوں تک چیختا، چنگھاڑتا، پتھروں سے سر ٹکراتا ،سانپ کی طرح بل کھاتا دریائے سندھ پورے زور و شور سے رواں دواں اور دونوں کے درمیان ہماری بے “بس” جسکا ڈرائیور زندگی سے بیزار، خراب ترین، کھڈوں سے بھرپور، نوکیلے پتھروں سے لبریز سڑک پر وہ اس طرح “کٹ”مارتا جیسے کسی زمانے میں ڈبلیو 11 کراچی میں “کٹ” مارتی تھی، اڈت نارائن اور کمار سانو کے بے تکے گانوں کا شور اسوقت ہمارے سروں پر موجود اسپیکرز پر بج رہا تھا جب حلق سے آواز تک نہیں نکل رہی تھی۔
پورے موٹروے پر بس اتنی تیز رفتاری سے نہیں چلی جتنی اس “جوان” نے اس “ہائی- وے” پر چلا کر دکھائی۔ ہم کیونکہ سب سے پچھلی سیٹ پر تھے اسلئیے سر اور کمر پنڈی آتے آتے اپنی عمر پوری کرچکے تھے۔
کراچی سے پنڈی کا سفر جو 21 گھنٹے کا تھا 30 گھنٹے میں پورا ہوا، پھر صرف 4 گھنٹے کی نیند کے بعد پنڈی سے گلگت تک کا سفر 19 گھنٹے میں طے ہوا۔ واپس آتے ہوئے اسکردو سے پنڈی تک کا سفر 25 گھنٹے میں دو دفعہ کی لینڈ سلائیڈنگ کے ساتھ طے کیا اور پھر پنڈی سے کراچی 23 گھنٹے میں اور یہ سارا کام محض ایک ہفتے میں وقوع پذیر ہوا ۔
بہرحال 1933 میں جیمس ہالٹ نے ایک ناول تحریر کیا اس کا نام “لاسٹ ہوریزن” تھا۔ اس ناول کا اسکرپٹ کچھ یوں تھا کہ کچھ بھکشو ایک ہوائی جہاز پر سوار تھے، جہاز کریش کرگیا لیکن خوش قسمتی سے جہاز میں موجود تمام بھکشو بچ گئے اور ایک اجنبی وادی میں بھٹک گئے، وادی میں بھٹکتے بھٹکتے وہ ایک ایسی حسین جگہ پہنچے کہ ان کے منہ سے اچانک “شنگری- لا” نکلا۔ شنگریلا تبت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی “زمین پر جنت” کے ہیں۔
اسلم خان آفریدی صاحب جو پاکستان آرمی کے ناردرن اسکاؤٹس کے پہلے کمانڈر تھے انھیں یہ ناول بے انتہا پسند تھا۔ خدا کا کرنا دیکھیے کہ “اورئینٹ ایئرلائن” جو کہ بعد میں پاکستان ائیر لائن بن گیا کا ایک جہاز اسکردو ائیر پورٹ پر 1950 میں کریش کرگیا، آپ اتفاق ملاحظہ کریں کہ اس جہاز میں موجود تمام مسافر بچ گئے اور انھیں کوئی جانی نقصان بھی نہیں ہوا۔
آفریدی صاحب نے “اورئینٹ ائیر لائن ” کے مالکان سے رابطہ کرکے اس جہاز کے ٹکڑے جمع کئیے، اس کو دوبارہ سے جوڑا اور “لوئرکچورا جھیل” پر اس میں ایک کافی شاپ قائم کردی، بعد ازاں 1983 میں انھوں نے “لوئر کچورا ” کے اطراف میں موجود زمین 150 روپے میں خرید کر زمین پر موجود جنت یعنی اسکردو کو مزیدچار چاند لگائے اور وہاں پر “شنگریلا” کے نام سے ہی ریزوٹس قائم کردئیے۔
“شنگریلا”اسکردو ائیرپورٹ کے قریب ہی واقع ہے۔ وہاں ایک کمرے یا ریزوٹ کا ایک رات کا کرایہ 15000 سے 75000 تک ہے لیکن آپ غم نہ کریں، آپ 500 روپے دے کر “شنگریلا” گھوم پھر کر آجائیں، وہاں کھانا ، ناشتہ یا چائے پی لیں ۔ جھیل کے چاروں طرف موجود سیب اور خوبانی کے درختوں میں گھرے ریزوٹس کو آبشاروں ، جھرنوں کی آواز اور بلند وبالا پہاڑوں سے ڈھکے “شنگریلا” کو دیکھیں اور لطف اندوز ہوں۔ہماری وہاں موجودگی کے دوران ہی موسلادھار بارش شروع ہوگئ اور منظر حسین سے حسین تر ہوگیا۔
آپ جیسے جیسے اسکردو میں اوپر کی طرف جاتے رہتے ہیں، آبادی کے کچے مکانات، چھوٹی چھوٹی گلیاں، ہر طرف سے پانی کا شور اور لال گالوں والے ہنستے مسکراتے بچے آپ کو آپ کی دنیا سے نکال کر کہیں اور ہی لے جاتے ہیں۔ یہ شاید ان کے دلوں کی محبت اور اخلاص ہے جو ان کے محلوں میں بھی نظر آتا ہے، ہر گلی اور ہر گلی کا ہر منظر آپ کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالیتا ہے۔
جب آپ شنگریلا سے مزید چند کلو میٹر اوپر کی طرف جاتے ہیں تو آپ کو “اپر کچورا” کے نام سے ایک اور جھیل ملتی ہے۔ خوبانی اور سیب کے درختوں سے بھرے “کچورا” گاؤں میں بھٹکتے اور لوگوں سے پوچھتے پوچھتے آپ نیچے کی طرف اترنے لگتے ہیں۔ آپ جتنی تیزی سے نیچے آنے لگتے ہیں آپ کی دھڑکن اتنی ہی تیز ہوتی جاتی ہے ۔ یہ منظر شاید آپ نے کہیں ناولوں میں پڑھا ہوگا، یا شاید فلموں میں دیکھا ہوگا بلکہ ہوسکتا ہے کہ آپ نے کبھی ایسے منظر کے بارے میں سوچا ہی نہ ہو۔
عین اس لمحے جب آپ “اپر کچورا جھیل” کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو آسمان بھی برسنے لگتا ہے یہ بارش کا پانی اور اس پانی کی بوندیں آپ کے دل پر گرتی ہیں، دل چاہتا ہے یہ منظر، یہ وقت، یہ لمحہ اور یہ سماں یہیں رُک جائے ۔۔۔ اے کاش ! کبھی تو وقت کو روک دینے کا اختیار آپ کو بھی دے دیا جاتا، اگر زندگی میں مجھے یہ موقع صرف ایک دفعہ ملتا تو میں اسے “اپر کچورا” پر استعمال کرلیتا۔ درختوں اور پہاڑوں کے دامن میں نیلے پانی والی اس جھیل کے بارے میں اگر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ:
گر فردوس زمیں است
ہمیں است، ہمیں است، ہمیں است
اللہ تعالی کی اس کائنات کا یہی تو کمال ہے کہ آپ الفاظ بیان کرسکتے ہیں لیکن احساس بیان نہیں کرسکتے، آپ تصاویر دکھا سکتے ہیں لیکن آپ جذبات نہیں دکھا سکتے اور ابھی میں اسی کیفیت سے دوچار ہوں۔ میں واپس کراچی آچکا ہوں لیکن اس امید کے ساتھ کہ ایک دفعہ پھر عنقریب میرا اور اسکردو کا ساتھ دوبارہ ضرور ہوگا۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں