لوگ کہتے ہیں کہ دو بھائی کرپشن میں ملوث ہیں۔ آج کے دور میں اگر کوئی یہ بات کرتا ہے تو اسے بے وقوف سمجھا جاتا ہے، اور یہ کہا جاتا ہے کہ اسے سیاست کی سمجھ بوجھ ہی نہیں ہے۔ کرپٹ تو گاڈ فادر بھی تھا، یا پھر جنرل صدر تھا، یہ تو ان سے تھوڑا کرپٹ ہے، سو اسی پہ گزارا کرو ،اس سے اچھا نہیں ملے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے کبھی کوئی ایسا سیاست دان دیکھا ہی نہیں ہے جو کرپٹ نہ ہو۔ ہم نے اپنے بزرگوں کو کرپشن کے خلاف لڑتے ہوئے بھی دیکھا، جیلوں میں جاتے ہوئے بھی دیکھا، مار کھاتے ہوئے بھی دیکھا اور پھانسیوں پر لٹکتے ہوئے بھی دیکھا، مگر تبدیلی نہیں آئی اور فرعونیت کا نظام اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ اب ایک تو ہم نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لی ہیں اورکوئی پوچھے تو کہتے ہیں سب اچھا ہے۔
اور دوسری طرف جب حکمرانوں کو کرپٹ کہا جاتا ہے تو وہ بھی محسوس نہیں کرتے، کیوں کے عوام جتنی بھی بکواس کر لے ان کی قسمت میں آخر کار خاموش ہونا ہی تو ہے۔ پھر عوام یہ بھی سوچتی ہے کہ ہمارے بڑوں نے کیا اُکھاڑ لیا تھا جو ہم اُکھاڑ لیں گے۔ سونامی کو پتہ ہے کہ جتنے بھی ثبوت اکٹھے کر لئے جائیں عدالتوں کے ذریعے کرپٹ کو کرپٹ ثابت نہیں کیا جاتا کیوں کہ عدالتیں وہ سارے چور راستے مہیا کرتی ہیں جو چوروں کو اپنے بچاؤ کے لئے چاہیں۔
دوسری طرف رائیونڈ صاحب جیل سے کہتے ہیں سونامی بیٹا سسٹم میں آ جا تاکہ میں تیرا کچومر بنا دوں، بگاڑ تو کچھ سکو گے نہیں۔ کیوں کہ ہم فورتھ جینریشن کرپشن میں داخل ہو چکے ہیں ۔ فورتھ جینریشن کرپشن کا دور بڑا ظالم ہے، یہ ایک ایسا اندھیرا ہے کہ اگر اس میں کوئی دیا جلانے کی کوشش کرے گا تو سالوں سے سوئی ہوئی عوام کی نیند حرام کرنے کے مترادف ہے ، پہلے تو کوئی اُٹھے گا ہی نہیں اور اگر اُٹھ بھی گیا تو دیا جلانے والے کو ہی برا بھلا کہے گا، قدرت رکھتا ہوا تو اسے ایک دو چپیڑیں بھی رسید کر دے گا، اور پھر دیا بجھائے گا اور سو جائے گا۔ کچھ لوگ ابھی بھی جاگ رہے ہیں، میرا ان کے لیے پیغام ہے،
جاگتے رہنا بھائیو۔