قاتل معاشرہ

جب کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے اسکے پیچھے گھر ،ماں باپ، ارد گرد کے ماحول، حکومتی  نااہلی اور معاشرتی اقدار کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے ۔۔۔آئے دن اس طرح کے واقعات ہمارے معاشرے کا اصلی چہرہ لوگوں  کے سامنے عیاں کردیتے ہیں ۔۔۔ہمارے معاشرے  میں ایسے افراد بستے ہیں جن کے سامنےاپنے فائدے  سے بڑھ کر کسی شےکی اہمیت نہیں۔۔۔۔ریحان کے والدین بچے کی آوارہ گردی سے لا علم نہیں ہونگے لیکن شاید اس وجہ سے خاموش ہوں کہ بچہ کچھ نہ کچھ گھر میں لارہا ہےلیکن والدین کتنے ہی لاپرواہ کیوں نہ ہوں اس طرح کے انجام کےمتحمل نہیں ہوسکتے تھے۔۔۔اس طرح کے واقعات ایک بیمار اور مردہ معاشرے کی نشانیاں ہیں جہاں فرد اس حد تک گر جائے کہ اس کی نظر میں مادی اشیاء  کی اہمیت انسانیت سے بڑھ جائے اور وہ ،وہ سب کچھ کر گزرے جو ان ملزمان نے ریحان کے ساتھ کیا بلکہ صرف ان دو ملزمان نے نہیں بلکہ ایک بیمار معاشرے کے افراد نے اپنی ہر طرح کی فرسٹریشن اس کمسن ریحان پر نکال دیں۔۔۔۔۔

وہاں موجود کسی کے دل ذرہ برابر بھی رحم نہ آیا، سارے کے سارے موبائل پر مووی بنانے یا اس پر اپنا غصہ نکالنے میں مصروف رہے یا یوں کہہ لیں کہ اشرف المخلوقات سے اسفلا سافلین کے گڑھے میں گر گئے ۔۔۔۔

پچھلے چند سالوں پر نظر دوڑائیں تو آپ دیکھیں گے کہ گاؤں دیہاتوں میں کس طرح کمی کمدار وڈیروں کے مظالم کے شکار رہتے ہیں، عورتیں بچے بوڑھے بھی ان مظالم کا شکار ہوتے ہیں ۔۔۔گھروں میں کام کرنے والے بچے بچیاں بیگمات  کے مظالم کا شکار رہتے ہیں ۔۔۔قصور میں بچوں کے ساتھ ہونے والا واقعہ ۔۔۔۔زینب اور فرشتہ جیسی بچیوں کے ساتھ ہونے والے واقعات۔۔۔۔مزاروں اور پیروں فقیروں کے آستانوں پر ہونے والے واقعات ۔۔۔۔۔یہ سارے کسی نہ کسی طور سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت کا نتیجہ ہیں اور بعض واقعات میں ایم این اے، ایم پی اے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد بذات خود شامل تھے ۔۔۔۔آئے دن ہونے والی اموات  کہیں اداروں کی غفلت اور معاشرے کی غفلت کا نتیجہ ہیں۔۔۔۔ جس معاشرے کے تربیتی ادارے مفلوج ہوں اور اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہوں وہاں ایسے واقعات رونما ہونا کوئی بڑی نہیں۔۔۔۔۔ہمارے معاشرے کا یہی رجحان رہا توہمیں اس سے بھی بڑھ کر حادثات  کیلئے تیار رہنا ہوگا،بہتر ہے کہ ہر فرد اور ادار اپنے کردار پر نظر ثانی کرے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں