برطانیہ میں ایک ربع صدی گزارنے کے باوجود آج تک یہ عقدہ نہ کھل سکا کہ گوری کو آخر گوری کیوں کہتے ہیں؟ ہم نے تو لال گلابی رنگوں پر مشتمل گوریاں ہی دیکھی ہیں ، ہاں البتہ غصے میں گوری نیلی اور غم میں پیلی ضرور ہو تی دیکھی ہیں ۔ لیکن رنگت اصلی ہونے کی وجہ سے گوری دھوپ میں بھی کبھی کالی نہیں ہوتی بلکہ سَن ٹَین ہو جاتی ہے۔ بادامی سی رنگت جسے ہمارے ملکوں میں خوب صورتی شمار نہیں کیا جاتا۔
دراصل گوری جب لٹھے کی چادر کی طرح سفید بلکہ نئی نکور ہو جاتی ہے تو پھر وہ چلتی پھرتی نظر نہیں آتی بلکہ گورستان میں آرام کرتی ہے لیکن دائمی آرام کرنے سے پہلے یہ ہمارے کتنے بھائی بندوں کو بے آرام اور کتنی نسلوں کو آدھا تیتر آدھا بٹیر بنا جاتی ہے۔ یہ حساب پھر کبھی سہی۔
ہاں گوری اگر اپنے ہم نسلوں کے ساتھ یہ سلوک کرے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ، کیوں کہ ان کی زندگی میں پہلے کون سا سکون ہوتا ہے۔ سکون کی تلاش میں بے چارے مادر پدر آزاد پھرتے رہتے ہیں۔جن گوریوں نے ہمارے ہم وطنوں کے ساتھ ساجھے داری کر رکھی ہوئی ہے ، وہ ہماری زبان ، تہذیب ، ثقافت ، سیاست اور مذہب ، غرضے کہ سب اندرونِ خانہ رازوں سے واقف ہوجاتی ہیں۔ ان کی نظر ہماری اچھائیوں پر کم اور برائیوں پر زیادہ رہتی ہے۔ جب جی میں آئے ، نہ وقت ، نہ جگہ کا لحاظ ، زہر اگلنا شروع کر دیتی ہیں۔ ان کی ایفی شینسی کو دیکھ کر کبھی کبھی تو کوبرا بھی شرما جاتا ہے ۔ اس میں سار ا قصور گوری کا نہیں ، کچھ فرق ہمارے نصیب کا بھی ہے۔ جسے دیکھو ہمارے خلاف زہر اگلتا رہتاہے لیکن اس سے ہماری صحت پر کیا فرق پڑتا ہے ۔ ہم تو شاک پروف لوگ ہیں۔ اپنا دفاع کرنے کی بجائے دوسروں کے ساتھ مل کر اپنے وطن اور ہم وطنوں کی مزید برائیاں کرتے ہیں۔
گوری میں کوئی اور خوبی ہو نہ ہو ، یہ گڈ ٹائمز کی ساتھی ضرور ہوتی ہے۔ دُکھ سے کوسوں دُور بھاگتی ہے اور صرف سُکھ میں ساتھ رہنے کی سچی قسم کھاتی ہے۔ ادھر آپ کے حالات بگڑے ، صحت خراب ہوئی اور ادھر گوری صاحبہ رفو چکر۔آخر مغربی اور مشرقی عورت میں کوئی تو فرق ہونا چاہیے وگرنہ برطانیہ میں ہر گھر میں گوری ہی نظر آئے گی۔ مشرقی بیوی کو چاہے میاں نے ساری زندگی محبت کی نظر سے نہ دیکھا ہو مگر بُرے وقتوں میں یہ سب کچھ بھول بھال کر غم گساری کرنے کو تیار۔ ہماری عورتیں شوہر پرستی میں اتنا آگے نکل جاتی ہیں کہ کبھی کبھی تو ان پر بت پرست ہونے کا شُبہ ہونے لگتا ہے۔
برطانیہ میں پرورش پانے والے جوان بیٹوں کی مائیں بڑی وہمی ہوتی ہیں۔ گوریوں سے بہت خوف زدہ رہتی ہیں۔ انھیں الٹے پاؤں والی چڑیلیں کہتی ہیں کہ جہاں گوری نے صدا لگائی ، صاحبزادے نے مُڑ کر دیکھا اور سمجھو پتھر کے ہو گئے۔کچھ ماں باپ تو عمر بھر اس پتھر سے سر پھوڑتے اگلی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔
گوری میں ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ شادی کے لئے اسلامی نام رکھتی ہے ۔ دل سے اسلام قبول نہیں کرتی۔ ویسے گوری سے شادی کرنے والے ہمارے بھائی بند خود بھی اسلام پر عمل پیرا نہیں ہوتے مگر انھیں اتنا ضرور علم ہوتا ہے کہ اہلِ کتاب سے شادی کرنا مذہبِ اسلام میں جائز ہے ۔ اب اس بات کی گواہی کون دے گا کہ گوری واقعی اہلِ کتاب ہے یا نہیں؟ بائبل پڑھنا اور اس پر عمل کرنا تو بڑی بات ہے ، چاہے اس نے بائبل کی شکل تک نہ دیکھی ہو۔
ویسے خاندانی گوری ابھی بھی کالے آدمی کے بارے میں تعصب کا شکار ہے لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مال دار ایشیائیوں سے دوستی یا شادی کرنے میں کوئی خاص برائی نہیں سمجھتی۔اس بات سے عام آدمی کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔ ہاں البتہ اگر ان کی لاٹری نکل آئے تو بات بن سکتی ہے۔ اس لئے ہمارا مخلصانہ مشورہ یہی ہے کہ ہفتے میں دو بار نہیں تو ایک بار لاٹری ضرور بھرئیے۔ شاید قسمت مہربان ہو جائے اور ساتھ ہی گوری بھی قدر دان ہو جائے۔