اگر کوئی شخص اپنی پسندیدہ چیز کسی ضرورت مند کو خوش دلی اور خوش نیتی سے دے دے تو دینے اور لینے والے کو بڑا مزہ آتا ہے خوشی کہ گویا چار چاند لگ جاتے ہیں لیکن ساتھیوں اتنا ظرف آتا ہی تب ہے جب انسان اللہ پر پکا یقین رکھتا ہو اسے اسکی رحمانیت کا یقین کامل ہو اسکی ہر ادا ہر حکم کا وہ خود اس لئے تابع ہو کہ وہ بندہ ہے اور اسے اپنے رب کے وعدوں پر پورا یقین ہو۔ جبھی وہ قر آن کو اپنے لئے زندگی کا لا ئحہ عمل اور سنت کو طریقہ زندگی سمجھ کر سنبھل سنبھل کر چلتا ہے ہر وقت برے کاموں سے گھبراتا ہے۔ ویسے بھی سوچیں ہم ہروقت پناہ چاہتے ہیں! بالکل ایسے جیسے ایک بچہ ماں سے دور ہو کر گھبراتا ہے بالکل اسی طرح اللہ سے دور ہو کر انشان شیطان کے حوالے ہو جاتا ہے لہٰذا اپنی سوچ اور اپنے اعمال کی وجہ سے گھبراتا ہے۔ اسی لئے شاعر فرماتا ہے کہ
“مٹ جائے گناہوں کا تصور بھی جہاں سے
اگر ہو جائے یقین کہ اللہ دیکھ رہا ہے”
اور یہ کہ
“کوئی عبادت کی چاہ میں رویا
کوئی عبادت کی راہ میں رویا”
“واقعی کیا کمال ہے کہ جتنا بندہ رب سے قریب ہے اتنا ہی معزز، عاجز ہے، پرخلوص اور با اخلاق ہے۔ دوسرے معنوں میں مہذب ہے کسی دوست نے یہ اشعار سنائے تھے جس کا عنوان بھی یہی تھا کہ “کمال یہ ہے” آپ بھی سنیئے اور اپنا جائزہ لیجئے کہ کیا ہمارے اندر اتنی کمال کی صفات ہیں؟ اگر نہیں تو کیسے ہم با کمال ہو سکتے ہیں؟
خزاں کی رُت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا کمال یہ ہے
ہوا کی زد میں دیا جلانا، جلا کے رکھنا، کمال یہ ہے
ذرا سی لغزش پہ توڑ دیتے ہیں سب تعلق زمانے والے
سدا سے، ویسے بھی تعلق بنائے رکھنا، کمال یہ ہے
کسی کو دینا مشورہ کہ وہ دکھ بچھڑنے کا بھول جائے
اور اسی لمحے اپنے آنسو چھپائے رکھنا کمال یہ ہے
کسی کی راہ میں خدا کی خاطر اٹھا کے کانٹے، ہٹا کے پتھر
پھر اسی کے آگے نگاہ اپنی جھکا کے رکھنا کمال یہ ہے
وہ جس کو دیکھے تو دکھ کا لشکر بھی لڑکھڑائے شکست کھائے
لبوں پہ وہ اپنے مسکراہٹ سجائے رکھنا کمال یہ ہے
ہزار طاقت ہو، سو دلیلیں پھر بھی لہجے میں عاجزی ہو
ادب کی لذت، دعا کی خوشبو بسا کے رکھنا، کمال یہ ہے
میں سمجھتی ہوں کہ یہ کمال تو ایمان کی جان ہے، رب کی پہچان ہے، ادب ہے، احترام ہے، لحا ظ ہے، تمیز ہے، اخلاق ہے جو سراسر اسلام ہے۔
بہت ذبردست
واہ ، آپ نے تو واقعی کمال ہی کر دیا۔۔ ماشاللہ ۔ بہت اچھا لکھا۔