اگر عید الاضحی سے قربانی کا تصور اور فلسفہ نکال دیا جائے تو پھر عید الاضحی کا مفہوم باقی نہیں رہے گا۔
قربانی مسلمانوں کا اہم مذہبی فریضہ ہے۔ عید قرباں کا پیغام ہی دراصل ایثار و قربانی ہے۔ فلسفۂ قربانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ تو قربانی کے جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اللہ تعالیٰ کو مسلمانوں کا تقویٰ مطلوب ہے اور اِسی تقوے کے حصول کیلئے قربانی کی سنت ادا کرنے کا حکم ہے۔ عید الاضحی حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی اُسی عظیم اور بے مثال قربانی کی یاد تازہ کرنے کیلئے تمام عالمِ اسلام میں دس ذی الحجہ کو بڑے جوش و جذبہ سے منائی جاتی ہے۔ قربانی کا لفظ’قربان‘ سے نکلا ہے۔ عربی زبان میں قربانی اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ اللہ تعالٰی کا قرب حاصل کیا جائے، خواہ وہ ذبیحہ ہو یا صدقہ و خیرات۔ لیکن عرفِ عام میں یہ لفظ جانور کے ذبیحہ کیلئے بولا جاتا ہے۔ اگر عید الاضحٰی سے قربانی کا تصور اور فلسفہ نکال دیا جائے تو پھر عید الاضحٰی کا مفہوم باقی نہیں رہے گا۔
قربانی کی تاریخ بھی اُتنی ہی قدیم ہے جِتنی خود انسان کی تاریخ۔ قربانی اُن اسلامی شعائر میں سے ہے جن کی مشروعیت اُس وقت سے ہے جب سے حضرت آدمؑ اِس دنیا میں تشریف لائے اور دنیا آباد ہوئی اور پھر امتِ محمدیؐ تک تقریباً ہر فرقہ اور ہر ملت کے ماننے والے اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔ ہر امت میں اللہ کے نام پر قربانی کرنا مشروع رہا ہے، البتہ سابقہ امتوں اور امتِ محمدیؐ کے درمیان قربانی میں فرق یہ ہے کہ سابقہ امتوں کی قربانی قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمانی آگ اُسے کھا جاتی تھی، قربانی کا گوشت کھانے کی اجازت نہیں تھی۔ جبکہ امتِ محمدیؐ کو اللہ تعالٰی کی طرف سے یہ خصوصی انعام حاصل ہے کہ اُن کیلئے قربانی کا گوشت حلال کردیا اور اُس کے کھانے کی اجازت دے دی گئی۔
اسلامی فلسفۂ قربانی یہ ہے کہ بندہ اپنی ہر خواہش کو خالق و مالک کے حکم اور مرضی و منشاء پر قربان کر دے۔ ہر سال قربانی کے ذریعہ ہم گویا عہد کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ کی یادگار میں مضمر اُس پیغام کو اپنی زندگیوں میں بسانے کی کوشش کریں گے جو خود کو سپرد کر دینے اور قربانی کو محض جانور ذبح کرنے تک محدود نہ رکھنے سے عبارت ہے۔ عید قرباں صرف جانور ذبح کرنے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اِس کے ساتھ ساتھ وہ اِس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اندر کی لا محدود خواہشوں کو لگام دیں اور اپنے دِل میں دوسروں کیلئے گنجائش پیدا کریں۔ سنتِ اِبراہیمی کو پورا کرنے کیلئے فقط جانوروں کی قربانی ضروری نہیں بلکہ ساتھ ساتھ اپنے مفادات، ذاتی خواہشات، غلطیوں، کوتاہیوں اور خطاؤں کی قربانی ضروری ہے۔
عید الاضحیٰ کے موقع پر سنتِ اِبراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے ہم اللہ کی راہ میں جانور قربان کرتے ہیں اور اپنے پڑوسی، رشتہ دار اور دوست و احباب میں قربانی کا گوشت تقسیم کرتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں قربانی کا فریضہ ادا کرنے کی توفیق عطا کی ہے تو ہم نمود و نمائش سے اجتناب برتتے ہوئے عین اسلامی طریقہ پر گوشت کی تقسیم کی پوری کوشش کریں۔ اسلامی طریقہ کے مطابق قربانی کا گوشت تین حصوں میں منقسم کر کے دو حصہ صدقہ کرنا اور ایک حصہ ذاتی استعمال کیلئے بچانا مستحب اور افضل عمل ہے۔ صحت مند اور خوبصورت جانور اگر صرف اللہ کی بارگاہ میں قربانی کی قبولیت کے جذبہ کے تحت خریدے جائیں تو اُس میں قطعاً مضائقہ نہیں، اِسی طرح قربانی کا گوشت زیادہ سے زیادہ مستحق افراد تک پہنچانے پر بھی توجہ دینی چاہئے۔
ہم میں بہت سے لوگ غریبوں، ناداروں، یتیموں اور ضرورت مندوں کو خالص گوشت تو تقسیم کرتے ہی ہیں لیکن یہ بات قابلِ غور ہے کہ جن کے پاس تیل مسالہ خریدنے کیلئے پیسے نہیں ہوتے وہ مختلف پکوانوں کا زائقہ نہیں لے سکتے۔ اگر گوشت کے ساتھ اپنی حیثیت کے مطابق کچھ رقم بھی صدقہ جاریہ کے طور پر دے دی جائے تو یقیناً اُنہیں دُگنی خوشی مِلے گی۔ اور وہ بھی ہمارے ساتھ عید کی مسرتوں کا لطف اٹھا پائیں گے۔ آج بہت سے لوگ گوشت ریفریجریٹر میں محفوظ کر کے کئی دنوں تک استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ اللہ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ قربانی کے گوشت کا تیسرا حصہ قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والوں میں تقسیم کیا جائے۔ غریبوں کا خاص خیال رکھا جائے۔ فریضہ قربانی ادا کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اِسی بہانے غریب بھی گوشت کھا سکیں۔ اِس معاملے میں قرابت داروں کو بھی یاد رکھیں کہ اسلام میں صِلہ رحمی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اللہ پاک ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے اور ہمیں اِس کا بہترین اجر نصیب فرمائے۔ آمین۔
(فیصل فاروق ممبئی میں رہائش پذیر کالم نگار اور صحافی ہیں)