کشمیر اوربھینس کی چار ٹانگیں

کشمیر کی جغرافیائی حیثیت بدلنے کے بعد بھارت نے چپ سادھ لی اور خاموشی سے دنیا بھرمیں ہونے والے تماشے کو محض تفریح کی غرض سے دیکھ رہا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی وہی پراناطریقہ کار اپنایا اور دوچار ممالک کو فون کردیا۔ ساتھ ہی بیٹھک لگانے کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرلیا۔ جب کہ پاک فوج نے بھی اپنی ذمے داری نبھاتے ہوئے ایک کورکمانڈرز اجلاس طلب کیا۔ ان اجلاسوں میں آج بھی کوئی نئی بات سننے کو نہیں ملی۔ ہمیشہ کی طرح صرف اس بات پر سب نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیااور چلتے بنے کہ کشمیر ہماری شہہ رگ ہے،کشمیر کے لیے ہم کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں،کشمیریوں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے،بھارت نے اگر میلی آنکھ سے دیکھا تو آنکھ نکال دیں گے،اس کے ساتھ ہی مشترکہ اجلاس اپنے اختتام پرپہنچ گیا۔ کورکمانڈرز اجلاس آرمی چیف کی زیر صدارت منعقد ہوا،جس سے قوم کو بہت زیادہ توقعات تھیں کہ شاید یہاں روایت سے ہٹ کر کوئی فیصلہ سامنے آئے۔ مگرہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی بھینس کی چار ٹانگیں اور ٹریکٹر کے چار پہیے ہوتے ہیں سننے کو ملے۔
کشمیر جلتا رہااور جل رہا ہے اور جلتا رہے گا پھر ایک دن آئے گا کہ خاک ہوجائے گا،(میرے منہ میں خاک،لیکن ستر سالوں سے ہمارے مسلم حکمرانوں کی یہی تو روش رہی ہے۔) مسلمان روزانہ کٹ کٹ کر مریں گے،روزانہ سینکڑوں بہن بیٹیوں کی آبروئیں نیلام ہوں گی،روزانہ مائیں اپنے جوان بیٹوں کے لاشیں اٹھائیں گی،روزانہ بارود پر سلگتی شامیں ہوں گی اور روزانہ شیر خواروں کے گلے میں خنجر گھونپے جائیں گے۔ تاہم پاکستان اپنی سلامتی پر آنچ بھی نہیں آنے دے گا اور نہ بھارت کو اسرائیل بننے دے گا اور نہ ہی کشمیر کوفلسطین بنتے دیکھ سکے گا۔
کشمیر کی تاریخ پر نہ جاتے ہوئے صرف اس حد پر ہی رکھوں گا کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے کشمیر کی آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے لوگوں کوسنا ہے اور ان نعروں کی گونج میں کئی جگہوں پر ہماری آواز بھی شامل ہوتی رہی ہے۔ چھوٹے تھے تب سے اسکول میں جشن آزادی اور یومِ کشمیر کے موقع پرکشمیر کے حوالے سے ٹیبلوپیش کیا کرتے تھے آج بھی وہی صورت حال ہے۔ ان ستر سالوں میں کشمیر کی صورت حال میں ذرا برابر بھی فرق نہیں آیا اور نہ ہی اس پر ہم کسی سے کوئی توقع کرسکتے ہیں۔ ہر دوست ملک ساتھ دینے کا کہتا ہے اور جب بات کشمیر کی آتی ہے تب یہ سننے کو مل جاتا ہے کہ یہ دو ملکوں کا آپسی معاملہ ہے۔ پاکستان جب بھی کشمیر کی بات کرتا ہے تو یہی سننے کو ملتا ہے”ہم سفیروں کے ذریعے دنیا کو بتائیں گے کہ کشمیر میں کیا ظلم ہورہا ہے“۔شاید باہر ممالک کے پاس ٹیکنا لوجی کا فقدان ہے اور ان کے پاس مواصلاتی نظام بھی نہیں اس لیے وہ کشمیر کی صورت حال نہیں دیکھ سکتے،یا پھر باہر ممالک کے حکمران اندھے ہیں جنہیں کچھ نظرنہیں آتا۔ ہمارے حکمرانوں کو شاید اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ جن ممالک پر ہم نے تکیہ کیا ہوا ہے ان ممالک کو ہم سے زیادہ کشمیر کی صورت حال کا علم ہے۔ انہیں اس بات کا بھی علم ہے کہ وہاں چلنے والی گولی کس بندوق سے نکلی ہے اور وہاں پھٹنے والے بم کس ملک نے فراہم کیے ہیں۔ ایسے میں ہمارے حکمرانوں کایہ روایتی بیان اب انتہائی مضحکہ خیز لگتا ہے۔
کشمیر کے معاملے پر ثالثی کی پیشکش کرنے والے ملک امریکا کو معلوم نہیں کہ کشمیر میں کیا ہورہاہے، لیکن جب امریکا جیسا ملک کہہ رہا ہے کہ وہ ثالثی کے لیے تیار ہے تو سمجھ میں آجانا چاہیے کہ انہیں مسئلے سے بھرپور آگاہی حاصل ہے لیکن وہ خود نہیں چاہتے کہ مسئلہ حل ہو۔ اگر مان لیاجائے کہ امریکا کشمیر کا مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے اور اس میں وہ سنجیدہ ہے تو اقوام متحدہ میں اس کاایک لیٹر اور ایک بیان ہی مسئلے کے حل کیلیے کافی ہے۔ تاہم سب جانتے ہیں کہ کشمیر کو صرف سونے کی چڑیا بنا یا ہوا ہے جس پر پاکستان،بھارت اورامریکا سب ہی کمارہے ہیں۔ بھارت امریکا سے اسلحہ اسرائیل سے جنگ کیلے نہیں خریدتا بلکہ کشمیر کو دبانے اور پاکستان کو آنکھیں دکھانے کے لیے خریدتا ہے۔ ایسے میں امریکا کب چاہے گا کہ مسئلہ کشمیر حل ہو اور اس کی اسلحہ کی فیکٹری بند ہو۔
ہمارے حکمران سینکڑوں مرتبہ او آئی سی اور اقوام متحدہ میں اس مسئلے کو پیش کرچکے ہیں لیکن ان کی طرف سے کبھی کوئی ایسا بیان نہیں آیا جس پربھارت نے اپنے کیے گئے غیرقانونی اقدامات کو واپس لیا ہو۔ بھارت امریکی نقش قدم پر چلتے ہوئے ایسی کسی بھی قرار داد اور ایسے کسی بھی فیصلے کو نہیں مانتا جس میں اس کی رسوائی ہو یا اسے اپنے کسی فیصلے کو واپس لینا پڑے۔ بھارت نے ہمیشہ اوآئی سی اور اقوام متحدہ کو اپنے جوتے کے نیچے رکھا جب کہ پاکستان نے برعکس ہمیشہ ان بڑے اداروں کو اپنے سر کا تاج بنایا،یہی وجہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ آج ستر سالوں بعد بھی جوں کا توں ہے۔
اگر کوئی یہ سوچ رہاہے کہ پاکستان جلد یا دیر بھارت پر حملہ کردے گاتو یقین مانیے پاکستان سے اس قسم کی کارروائی کی توقع رکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ہمارے حکمران اور افواج کبھی بھی کشمیر جسے وہ اپنی شہہ رگ کہتے ہیں کے لیے آزاد پاکستان کو اس آگ میں جلنے نہیں دیں گے۔ بے شک پاکستان کشمیر کو اپنی شہہ رگ کہتا رہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے!،جنگ میں مسئلہ صرف اور صرف پاکستان کے لیے ہوگا اور وہ یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ بھارت سے جنگ کرکے ہم اپنے اوپر مزید کوئی پریشانیاں مول لیں۔ جو جیسا چل رہا ہے چلنے دو۔ ہاں اگر پاکستان پر کوئی آنچ آئی تو پھر اس کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے مگر وہ بھی اس صورت میں جب بھارت پاکستان کو کوئی بہت بڑا نقصان نہ پہنچائے،تاہم ہم اسے چھوٹی موٹی کارروائی پر کوئی ردعمل نہیں دیں گے بلکہ صرف زبانی جمع خرچ، روایتی بیانات سے کام چلا کر معاملے کو ٹالنے کی کوشش کریں گے۔
پورا ملک جذبہئ ایمانی سے سرشار ہے اور پور ا ملک کشمیر کے لیے اپنی جان دینے کی بات کررہا ہے،میں ان کے اس جذبے کی قدر کرتا ہوں لیکن حقیقت سے آگاہ بھی کررہا ہوں جو ستر سالوں سے مسئلہ حل نہیں ہوا وہ مسئلہ مظاہروں اور احتجاج سے بھی حل نہیں ہونے والا۔ ایک چھوٹے سے قصے پر اپنی بات ختم کروں گا یقیناً اس قصے سے سمجھنے والوں کے لیے ایک بہت بڑا پیغام ہوگا۔
ایک بچے کے پاس ایک بہت پیارا کھلونا تھا ایک دن ساتھ والا پڑوسی بچہ اس کے گھرآتا ہے اور اس کے کھلونے کو ہاتھ لگاتا ہے۔ پہلے والا بچہ یہ دیکھ کر اسے کہتا ہے کہ اب ہاتھ نہیں لگانا ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔ دوسرا بچہ دوبارہ اس کھلونے کو ہاتھ لگاتا ہے،پہلا بچہ اب ہاتھ لگالیا،لیکن اب دوبارہ ہاتھ نہیں لگانا۔ یہ عمل وہ دوسرا بچہ بار بار دہراتا ہے اور ہنستا ہے اور پہلا بچہ بار بار اسے یہ جملہ کہہ کر ہنستا ہے۔
اب جب تک یہ کھلونا ٹوٹے گا نہیں تب تک مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ کشمیر بھی اس وقت پاکستان اور بھارت کے لیے ایک ایسا ہی کھلونا بنا ہوا ہے اور دونوں ممالک اس کے ٹوٹنے کا انتظار کررہے ہیں تاکہ مسئلہ ہی ختم ہو۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔

جواب چھوڑ دیں