قربانی

 قربانی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی تاریخ۔۔۔۔انسان کے اندر قربانی کا جذبہ ہمیشہ  سے موجود رہا ہے۔

قربانی دراصل ہے کیا؟ کسی کا قرب حاصل کرنے کیلئے یا کسی کو اپنا بنانے کیلئے اپنا آپ کسی دوسرے کیلئے وقف کردینا یا اپنی ذات سے کسی دوسرے کو فائده پہنچانا ۔

قربانی کا جذبہ انسان کو نرم دل بناتا ہے۔اپنائیت اور محبت کے جذبات پروان چڑھاتا ہےجیسےکہ ہم قصہ ہابیل وقابیل میں دیکھتے ہیں  جو قرآن نے ان کی گفتگو نقل کی ہےکہ”جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ہابیل کی قربانی قبول کی گئی اور  قابیل کی نہ کی گئی۔ قابیل نے کہا میں تجھے مار ڈالوں گا ہابیل نے جواب دیا اللہ متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے اگر تو مجھےقتل کرنے کیلئے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنےکیلئے ہاتھ نہ اٹھاؤں گا”۔

(مفہوم سورہ المائدہ آیت #٢٧۔٢٨)

جب انسان کو اپنی زندگی کامقصد سمجھ آجائے تو وہ اسکے لئے اپنی ہر شےقربان کر دیتا ہے۔

حضرت نوح نے اپنی زندگی کے ساڑھے نوسوسال اپنی قوم کو سمجھانے میں قربان کردیئے۔حضرت  ابراہیم نے اپنا گھر بار اپنا وطن حتیٰ کہ اپنی اولاد بھی اللہ کی راہ میں قربان کردی ۔اللہ کی راہ میں اپنی بیوی اور اپنی بڑھاپے کی اولاد کو اللہ کے حکم پر بے آب و گیا وادی میں چھوڑ آئے اور جب جانے لگے تو حضرت حاجرہ  نے صرف اتنا پوچھا کہ کیا یہ اللہ کا حکم ہے اور پھر رب کی رضا پر راضی ہو گئیں اور کہنے لگیں کہ اگر یہ اللہ کا حکم ہے تو رب العالمین ہمیں ہرگز ضائع نہیں کریگا۔اور واقعی  اللہ تعالی نے انکا کہا سچ کر دکھایا زم زم کا کنواں تاقیامت انکی قربانی کی یاد دلاتا رہیگا۔صفا و مروہ کی سعی انکی قربانی کو کبھی بھولنے نہیں دیگی۔حضرت اسماعیل کی نسل میں اللہ کے محبوب  بندے حضرت محمد مصطفیﷺ کی ولادت اس بات کی دلیل ہےکہ اللہ نے انکی قربانی ضائع  نہیں کی۔

اللہ تعالی جب اپنے بندوں کو آزماتا تو کبھی جان کی قربانی مانگتا ہے تو کبھی اولاد کی اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے بندے آزمائے جاتے ہیں ۔۔۔۔ اپنی بڑھاپے کی اولاد بھی قربان کرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں ۔۔اللہ کے نیک بندوں پر نہ شیطان کا زور چلتا ہے نہ نفس کا۔۔۔۔حضرت اسماعیل علیہ السلام  کی فرمانبرداری و اطاعت آج کی نوجوان نسل کیلئے ایک زندہ مثال بن جاتی ہے۔۔۔اور بالآخر جب قربان کرنے کیلئے لٹادیئے جاتے ہیں تو اللہ پاک مینڈھے سے بدل دیتے ہیں انکی یہ قربانی تاقیامت سنت ابراہیمیؑ بن جاتی ہے اور اللہ کے بندوں پر اسکی تقلید واجب قرار پاتی ہے۔

حضرت یوسف ؑاپنی پاکدامنی کو بچانے کی خاطر اپنی عمر کےکئی سال قید میں گزار دیتے ہیں اور اللہ تعالی انکی اس قربانی کوضائع نہیں کرتا بلکہ اسکے بدلے انہیں  مصر کی بادشاہت عطا کردیتا ہے۔

بعثت کے ابتدائی  دور میں صحابہ کرام کی قربانیاں انگنت ہیں۔کفارمکہ نےظلم وستم کی انتہا کردی۔ابتدا میں مسلمانوں نے اپنا ایمان بچانے کی خاطر حبش کی طرف ہجرت کی اور بعد میں مدینہ کی طرف۔ ان ٢٣ سالوں میں خاتم النبیین محمدﷺ اور انکے صحابہ کرام نے قربانی کی لازوال داستانیں رقم کیں۔ شعب ابی طالب ، سفرطائف،غزوہ بدر و احد و احزاب و خیبر و حنین میں صحابہ کی قربانیاں ایک مسلم ریاست کے قیام کیلئے  تھیں۔اور ان قربانیوں کا سلسلہ یہاں رکا نہیں بلکہ حضرت عمر ،حضرت عثمان حضرت  علی اور حضرت امام حسن و حسین  رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی قربانیاں اسلام کو زندہ رکھنے اور اسلامی ریاست کو قائم و دائم رکھنےکیلئے تھیں۔اسلامی تاریخ کے ہر دور میں فتنوں نے سر اٹھایا اور مسلمانوں نے اپنی جان کی قربانی دیکر ان فتنوں کا قلع قمع کیا۔ صدیاں گذر گئیں برصغیر پاک وہند انگریزوں  کے قبضے میں تھا آزاد فضا میں سانس لینے کیلئے مسلمانوں نےالگ وطن کی جدوجہدکی اور انکی قربانیاں رنگ لائیں۔گھر کاروبار مال واسباب کی پروا کئے بغیر مسلمانوں نے ہجرت کی اگر میں یہ کہوں تاریخ نے ایک بار پھر خود کو دہرایا کہ جسطرح مکے سے مدینے ہجرت کرنے والوں نے اپنا سب کچھ قربان کیا اسی طرح ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنے والوں نے اپنا سب کچھ قربان کیا تاریخ گواہ ہے کہ مدینے کے بعد دوسری اسلامی ریاست جو اسلام کے نام پر قائم ہوئی وہ پاکستان  ہے۔مسلمانوں کی قربانیاں رنگ لائیں اور آزادی کی صبح نصیب ہوئی۔لیکن اسلام کے نام پرحاصل اس ملک میں آج تک اسلام نفاذ ممکن نہ ہوسکا۔ وطن عزیز کو اسلامی ریاست بنانے کیلئے خون و جگر سے سینچنے کا وقت آچکا ہے آج بھی پاکستان  کو حقیقی  اسلامی ریاست بنانے کیلئے قربانیوں کی ضرورت ہے۔کیا میں اور آپ اس قربانی کیلئے تیار ہیں؟؟۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں