یہ پاکستان کے ایک بڑے شہر کراچی کا پوش علاقہ نارتھ ناظم آباد ہے۔ بارش کے باعث آج اسکولوں کی چھٹی ہے۔ موسم خوشگوار ہے۔ ایسے میں دو دوست احمد اور عبیر سائیکل پر بارش کا موسم انجوائے کرنے نکلے۔ ابھی کچھ دور ہی گئے تھے کہ سڑک پر موجود ایک گڑھے میں سائیکل لڑکھڑائی اور گرنے لگی کہ احمد نے قریب ہی موجود کے الیکٹرک کے کھمبے کا سہارا لیا مگر یہ سہارا اس کی موت کا بہانہ بن گیا ۔ عبیر اس کی مدد کو دوڑا پر وہ بھی کھمبے سے چپک کر رہ گیا۔ دونوں دوست کھمبے سے چپکے، زمین پہ گرے، سسکتے بلکتے، چیختے چلاتے ، موت کی آغوش میں جاتے رہے اور اہل محلہ یہ دلخراش منظر دیکھ کر کے الیکٹرک کو بلاتے رہے لیکن لاشیں اٹھانے ایدھی والے آگئے اور نہ آئے تو جان بچانے کے الیکٹرک والے نہ آئے۔
اسی شہر کراچی کے علاقے نارتھ کراچی کی نو سالہ عاصمہ ، ملیر کا عمر اور ننھا اعراف سمیت 20 افراد صرف دو دن کی بارش میں کے الیکٹرک کے کرنٹ کا لقمہ اجل بن گئے۔
ان مقتولوں کو کیا پتا تھا کہ باہر کے الیکٹرک کے قاتل کھمبے اور خونی تاریں ان کا شکار کرنے کر لئے کھڑے ہیں اور زمین پر پڑے ہیں۔
ان معصوموں کو کیا پتا تھا کہ بارش کے باعث ان کے گھروں میں صرف روشنی نہیں لیکن گھر سے باہر ان کی زندگی میں ہی روشنی نہ ہوگی۔
ان مظلوموں کو کیا پتہ تھا کہ ہم ایک خونی جنگل میں رہتے ہیں روشنیوں کے شہر میں نہیں۔
یہ بےچارے کیا جانتے تھے کہ ان کے شہر میں روشنی دینے کا ٹھیکہ لینے والی کے الیکٹرک سروس نہیں کِلر الیکٹرک سروس نکلے گی۔
ریکارڈ سے ثابت ہے کہ اس کلر الیکٹرک سروس کے ہاتھوں 2016 سے لے کر 2019 یعنی آج تک بارش میں کرنٹ سے اموات سیکڑوں میں ہے۔
خدا کی قسم ! زمیں کہ اس فرش پر نہیں تو کیا لیکن رب کے عرش بریں پر ایک دن انصاف ہوگا۔ کلر الیکٹرک کے قاتل کھمبوں اور خونی تاروں سے مرنے والوں کا ہاتھ ہوگا اور پاکستان کے وزیر اعظم کا گریبان ہوگا۔ پھر حساب کتاب ہوگا۔ ابراج کے مالک سے دوستی نبھانے کا، الیکشن فنڈ لے کر چپ رہنے کا، معصوموں کے قتل کا۔
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر
لہو پکارے گا آستیں کا
قریب ہے یارو روز محشر چھپے گا کشتوں کا خوں کیوں کر