کیا پاس لحاظ صرف چھوٹوں پر لازم ہے؟ بڑے اس سے ماورا ہوتے ہیں؟ پہلی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ بڑوں پر کہ وہ چھوٹوں پر شفقت کریں یا چھوٹوں پر کہ وہ بڑوں کا احترام کریں؟ میں نے بہت سے بڑوں کو چھوٹوں پر رعب جماتے دیکھا ہے۔ لعن طعن کرتے بزرگ دیکھے ہیں۔ اپنے بڑے، چھوٹوں کو کوستے دیکھے ہیں۔ میں نے کم ظرف، چیختے چلاتے، شور مچاتے، احترام کا بھاشن دیتے وڈیرے دیکھے ہیں۔
ایک دن بس اسٹینڈ پر کھڑا تھا۔ گاڑیاں کمیاب تھیں۔ جو گاڑی بھی آتی، منٹوں میں بھر کر چلی جاتی۔ خالی آنے والی گاڑی کی طرف لوگ ایسے لپکتے جیسے اس گاڑی میں اگر سوار نہ ہوئے تو موت اچک لے گی۔ ایک گاڑی آئی تو سب اس کی طرف لپکے۔ پہلے میں بیٹھوں کے چکر میں بھیڑ لگ گئی۔ اسی دھکم پیل میں بڑی عمر کے خشخشی سی داڑھی والے آدمی کو ایک لڑکے کا دھکا لگ گیا۔ بس پھر کیا تھا۔ اس آدمی کی تو گویا عزت اتر گئی۔ اس برے انداز سے انہوں نے اس لڑکے کو کوسنا شروع کیا کہ الامان والحفیظ۔۔
’’شرم نہیں آتی؟ عزت، احترام تو جانتے ہی نہیں۔ تمہیں نہیں سکھایا تمہارے باپ نے کہ کیسے بڑوں سے پیش آنا ہے۔ بڑوں کو راستہ دیا جاتا ہے، تم مجھے دھکا دے رہے ہو۔ شرم و حیا کا نام بھی جانتے ہو کہ نہیں۔ ادب آداب بھی سیکھ لیے ہوتے۔ صرف کھا کھا کر بڑے ہی ہوئے ہو۔ اب آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیا دیکھتے ہو۔ ہٹو یہاں سے، دفع ہوجاؤ۔‘‘ اس شخص نے چھوٹے اور معذور لڑکے کو پیچھے کی طرف دھکیلا تھا۔
اب سب گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔ وہ بھی ڈانٹ ڈپٹ کرتے، تربیت، اخلاق پر سوالیہ نشان لگاتے گاڑی میں بیٹھنے لگے۔ جب کہ وہ لڑکا صفائیاں ہی دیتا رہ گیا تھا؛’’انکل! غلطی سے دھکا لگ گیا۔ معاف کردیں۔ میں معذور ہوں۔ فالج زدہ جسم ہے۔ رش تھا، افراتفری میں دھکا لگا، سو تھم نہ سکا اور آپ سے ٹکرا گیا۔ معذرت چاہتا ہوں۔‘‘
اس شخص کے منہ سے سب و شتم کی جھاگ نکل رہی تھی۔ اردگرد کھڑے لوگ تماش بین بنے یا تو دیکھ رہے تھے یا پھر ’’چھوڑو جی کوئی بات نہیں‘‘ کی دہائی دے رہے تھے۔
وہ لڑکا گاڑی کے دروازے میں کھڑا منتظر تھا کہ کب کسی کے لب اس کے حق میں ہلتے ہیں، مگر نہیں۔ سب کی نظروں میں غصہ تھا کہ بڑوں کی عزت کرنی چاہیے اور اس نے دھکا دیا۔ اس شخص کو کوئی نہیں کہہ رہا تھا کہ وہ ہی ہاتھ ہولا رکھ لیں۔ برداشت کا مادہ پیدا کریں۔ عفو و درگزر سے کام لیں۔
میں نے ان صاحب سے کہا: ’’معاف کردیں انکل غلطی ہوگئی۔‘‘
’’ہاں غلطی!‘‘ اب وہ صاحب میری طرف مڑ گئے تھے ’’اخلاق کیا ہوتا ہے، یہ جانتا ہی نہیں، اسے احساس ہی نہیں، بڑوں کی عزت کرتے ہیں۔‘‘ اور پھر ادب و آداب، عزت احترام، ’’بڑے قابل احترام ہوتے‘‘ پر ایک لمبی تقریر تھی۔ میں نے تقریر سنی پھر احترام سے عرض کیا:
’’انکل اس نے خیال نہیں کیا تو آپ کرلیجیے۔ ایک دھکا، جو غلطی سے لگا، اس پر وہ معافی بھی مانگ چکا ہے۔ لیکن آپ اس کی تربیت، والدین کے کردار پر سوال اٹھا چکے۔ آپ کون سا تہذیب یافتہ ہیں؟ آپ نے بھی تو اسے دھکیلا۔ آپ تو اس سے بھی گئے گزرے لگ رہے ہیں۔ آپ نے شفقت کا لفظ سنا ہے کبھی؟ وہ معذور ہے، مفلوج جسم لیے آپ سے معافیاں مانگ رہا ہے اور آپ ہیں کہ پروں کو ہاتھ نہیں لگانے دے رہے۔ معاف کرنا کسے کہتے ہیں، جانتے تو ہوں گے؟ اس نے آپ کو راستہ نہیں دیا۔ آپ نے شفقت کا مظاہرہ کرتے اسے جگہ دی ہوتی۔ آپ تو شفیق ہیں ناں! وہ مفلوج جسم لیے کب سے گاڑی کا انتظار کررہا تھا، آپ نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے اسے اپنی سیٹ عنایت کی ہوتی۔‘‘
اب انکل نے میری باتیں ان سنی کرتے سر جھٹکا ’’تم مجھے سکھاؤ گے کہ مجھے کیسے اور کیا کرنا تھا؟‘‘ کہتے اور بدتمیز انسان کا لیبل چپکاتے، بڑبڑاتے ہوئے سیٹ پر بیٹھ گئے۔
ایک بزرگ نے اس معذور لڑکے کو اپنی سیٹ پر بٹھایا تو اس کی آنکھوں میں تشکر آمیز آنسوؤں کی لڑی تھی۔ اس کے لب سلے ہوئے تھے، جب کہ انکل کے پاس ایک بڑا سا سوالیہ نشان تھا جو انہوں نے میری تربیت پر لگانا تھا۔ میں نے انہیں یاد دہانی کرائی تھی کہ جہاں یہ لکھا ہے ’بڑوں کی عزت کریں‘ وہیں یہ بھی لکھا ہے کہ ’چھوٹوں پر شفقت کریں‘۔
میں سوچنے لگا۔ اخلاق تو کسی بھی قوم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اخلاق ہی تو ہے، جو مذاہبِ عالم کا مشترکہ باب ہے۔ اور یہ اخلاقی اقدار کا پاس رکھنا صرف چھوٹوں پر ہی لازم نہیں، بڑوں پر بھی تو لازم ہے کہ وہ اخلاق کا دامن تھامے رکھیں۔
جس معاشرہ میں اخلاق ناپید ہو، وہ معاشرہ مہذب نہیں بن سکتا۔ اس میں کبھی اجتماعی رواداری، مساوات، اخوت و باہمی بھائی چارہ پروان نہیں چڑھ سکتا۔ بزرگوں کا ہم پر حق ہے کہ ہم ان کی عزت و توقیر کریں، ان کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھیں، ان کی تعظیم کریں۔ لیکن بڑوں پر بھی تو لازم ہے ناں کہ اپنے آپ کو خدا نہ سمجھیں۔ اتر کر آدمی بنیں، انسان کے برابر آئیں، چھوٹوں پر شفقت کریں، درگزر کرنا سیکھیں۔ چھوٹے اپنے بڑوں سے ہی تو سیکھیں گے۔ بڑوں کو جیسا رویہ اپناتے دیکھیں گے، ویسے ہی رویہ روا رکھیں گے۔ اب ایسا تو نہیں کہ بڑے ہیں، بزرگ ہیں تو جو جی میں آئے کریں، کوسیں، لعن طعن کریں۔ رعب جمائیں، شور شرابہ کریں۔
میں جانتا ہوں کہ بڑے چاہتے ہیں وہ جہاں جائیں، چھوٹے راستہ چھوڑ دیں، بیٹھے ہیں تو اٹھ کھڑے ہوں۔ گاڑی میں جان جوکھوں سے حاصل کی ہوئی سیٹ پیش کردیں۔ اونچی آواز سے بات نہ کریں۔ سر جھکائے رکھیں۔ غلط کو غلط نہ کہیں۔ ان کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کی تسبیح پڑھیں۔ لیکن ایسا تب ہی ہوگا جب بڑے چھوٹوں کو اہمیت دیں گے۔ ان پر شفقت کریں گے۔ انہیں دوست بنائے رکھیں گے۔ بڑوں کا ظرف تو بڑا ہوتا ہے۔ چھوٹوں کی لغزشوں کوتاہیوں کو معاف کرنا سیکھیں۔ معاف کریں گے تو ہی چھوٹوں میں غلطیاں ماننے کا مادہ پیدا ہوگا۔ چیختے چلاتے رہے تو چھوٹے عزت ہرگز نہیں کریں گے۔
یاد رہے ہر شخص کی عزت اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ چاہے تو اپنے عمل سے عزت کروائیں اور چاہیں تو عزت بیچ بازار اتروا دیں۔ یوں سوالیہ نشان کسی کے کردار پر لگائیں گے تو یاد رکھیں آپ پر بھی سوال اٹھے گا۔ اور پھر جواب دیتے شاید برا لگے۔ اور بلاوجہ اگر لعن طعن کریں گے تو میرے جیسا کوئی بے ادب، غیر تربیت یافتہ وہ لعن طعن اٹھا کر آپ ہی کے چہرے پر مل دے گا۔ پھر برا نہ منائیے گا۔ پھر یہ نہ کہیے گا کہ چھوٹوں کو ادب آداب کا پتا نہیں۔
ادب، احترام صرف چھوٹوں کےلیے نہیں، بڑوں پر بھی لازم ہے۔ چھوٹوں سے حسن سلوک سے پیش آئیں اور چھوٹوں پر بھی لازم ہے بڑوں کا احترام کریں۔ زندگی کا اصل حسن ہی احسان، ایثار، حسن معاملات، اخوت، رواداری اور قربانی سے جنم لیتا ہے۔ اور اخلاقی قدریں ہی ہوتی ہیں جو انسان کو اشرف المخلوقات بناتی اور دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہیں۔
دانا بتاتے ہیں کہ ’’انسان کی عقلی قوت جب تک اس کے اخلاقی رویہ کے ماتحت کام کرتی ہے، معاملات ٹھیک چلتے ہیں اور جب اس کے سفلی جذبے اس پر غلبہ پالیں تو یہ نہ صرف اخلاقی وجود سے ملنے والی روحانی توانائی سے اسے محروم کردیتے ہیں بلکہ اس کی عقلی استعداد کو بھی آخرکار کند کردیتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں معاشرہ درندگی کا روپ دھار لیتا ہے۔‘‘
ضروری ہے کہ بڑے، چھوٹوں کی تربیت کریں۔ ایسا تب ہوگا جب بڑے تربیت یافتہ ہوں گے۔ بڑوں کا کردار، ان کا عمل چھوٹوں کے لیے مشعل راہ بنے گا۔ بڑے اگر شفقت، انصاف، خوش اخلاقی کا ہاتھ رکھیں گے تو بچے احترام ملحوظ خاطر رکھیں گے۔ چھوٹوں کو اہمیت دیتے ہوئے ان پر احسان کریں۔ وہ آپ کی عزت کریں گے۔