وہ دونو ں مید ان ِ عرفات میں بیٹھے ہوئے تھے، پوری دنیا سے بے خبر، اپنے رب کے سامنے! آج انہیں اپنی خوش قسمتی پر کس قدر رشک آ رہا تھا، ان کی برسوں پرانی خواہش پوری ہو گئی تھی، رب نے ان کو اپنا مہمان بنا لیا تھا، حقیقت تو یہ ہے کہ مکہ آمد پر ہوٹل کے استقبالئے پر ”ضیوف الرحمن“ کی تختی دیکھ کر ہی عافیہ کا خون سیروں بڑھ گیا تھا کہ وہ رب کی مہمان ہے، آج وہ اور سعید اسی رب کی رحمت کے سائے میں میدان ِ عرفات میں بیٹھے تھے، دنیا و آخرت کی بھلائیوں کے امیدوار!!
عافیہ کو یاد تھا اس نے یہاں پہنچنے کی تیاریاں کس طرح کی تھیں، اپنے اکلوتے بیٹے کے بغیر یہ انکا پہلا طویل سفر تھا، سعید نے حج پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہیں پہلا خیال سعد کا ہی آیا تھا:
سعد کیسے رہے گا اتنے دن؟
اور سعید صاحب جھنجھلا اٹھے تھے، کیا اب بھی آپ کو سعد کی فکر ہے، بڑا ہو گیا ہے اب، تعلیم مکمل کر کے نوکری پر لگ گیا ہے، اگر بہت پریشانی ہے تو شادی کر دیجئے اسکی۔
اور اس آخری جملے نے انکی ساری کلفت دور کر دی تھی، اگلے کچھ روز انہوں نے سعد کے لئے چاند سی دلہن لانے کی تلاش میں گزار دیے، اور ابھی حج کے کاغذ بھی جمع نہ ہوئے تھے کہ انہیں اپنی تلاش مل گئی۔ ملائکہ بڑی پیاری لڑکی تھی، بڑی بڑی چمکتی آنکھیں، جب مسکراتی توآنکھوں کے دیے جل اٹھتے، اور ہنستی تو کانوں میں رس گھلتا محسوس ہوتا۔ انکی اپنی کوئی بیٹی نہ تھی، اس لئے ساری محبتیں اسی پر نچھاور کرنے کو تیار ہو گئیں۔شادی کی تیاری شروع کی تومہینوں کا کام ہفتوں میں کر لیااور ملائکہ کو گھر لا کر دم لیا۔ سعد اور ملائکہ کی جوڑی بھی خوب تھی، انہیں سعد عزیز تھا تو ملائکہ عزیز تر، ساس بہو کی روایتی دوریاں نہ تھیں، حج پر جانے سے پہلے انہوں نے گھر اسکے حوالے کر دیا، ملازمہ کے بارے میں ساری ہدایات، گھر کے اہم امور اور سب سے بڑھ کر سعد کے بارے میں!! حقیقت تو یہ ہے کہ سعد کے بارے میں کچھ زیادہ ہدایات کی ضرورت بھی نہ پڑی، انہوں نے سعد کو بہت سے کاموں میں خود انحصاری سکھائی تھی، اور باقی سب ان کا آپس کا معاملہ تھا۔
انکی حج کی تیاریوں میں دونوں نے آگے بڑھ کر ساتھ دیا تھا، چند ہفتوں میں ملائکہ ان سے مانوس ہو گئی تھی، الوداع کہتے ہوئے پیچھے رہ جانے والوں کے چہرے کچھ اداس تھے، عافیہ بیگم اور سعید انہیں دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوئے تھے، اور اب پندرہ دن ہو چکے تھے انہیں حرمین کی سرزمین پر، بیٹا بہو سے بات ہوتی تو انکے سینے میں اطمینان کی لہر اتر آتی، کتنا اچھا ہوا وہ اپنا فرض ادا کر آئے، اب کم از کم سعد کی تو فکر نہ تھی۔
عرفات کے میدان میں وہ دونوں رب کے حضور مغفرت مانگ رہے تھے، دنیا و آخرت کی بھلائیاں، اﷲ نے کتنے اچھے وقت میں ان سے یہ فیصلہ کروا لیا تھا، دعائیں مانگتے مانگتے سعید صاحب اچانک اس سے مخاطب ہوئے:
۔ ”بس اﷲ ہمیں پاک کر دے، گناہوں کا میل کچیل دور کر دے ، اور کسی نو زائیدہ بچے کی مانند کر دے“۔
۔ ”اﷲ تعالی واپس جانے کے بعد بھی ہمارے دلوں کو اسی طرح اپنی جانب متوجہ رکھے“۔ عافیہ بیگم کی دل کی دعا لبوں پر آگئی۔
۔ ”بڑی اچھی زندگی گزری ہے ہماری، کم ذمہ داریاں، اور آسان زندگی، اﷲ نے رزق ِ حلال دیا، فرائض کا پابند بنایا، کیا ہوکہ اگر اﷲ اسی پاکیزگی میں ہمیں اپنے پاس بلا لے“۔ سعید صاحب کے دل میں مچلتی کئی دنوں کی آرزو زبان پر آگئی۔
عافیہ بیگم نے گھبرا کر انکے منہ پر ہاتھ رکھ دیا:
۔ ”سعد بھول گیا ہے آپ کو؟ میں اسے کوئی صدمہ نہیں دینا چاہتی، باقی اﷲ کی مرضی۔۔ “۔
عافیہ اپنی دعاو¿ں کی کتاب کی جانب متوجہ ہو گئیں، اور سعید صاحب اپنی مناجات میں گم، وہ ساتھ ساتھ بیٹھے تھے، مگر اس موضوع کا باب عافیہ کے جواب نے بند کر دیا تھا۔ وہ جو ہمیشہ ایک سا سوچتے تھے آج جوان بیٹے کی محبت نے ان کی دعاو¿ں کو مختلف کر دیا تھا، حالانکہ انکی تمام عمر اسی طرح گزری تھی، سعید صاحب رشتہ داروں سے ملنے جاتے، یا کاروباری دوروں پر، یا سیر و سیاحت کرنے ، عافیہ بیگم انکے ساتھ ہوتیں، اگر سعد فارغ ہوتا تو وہ بھی، اور جب بھی سعد کے امتحان ہوتے یا کوئی اور مصروفیت تو انکا دل اسی میں اٹکا رہتا، وہ سعید صاحب کے ساتھ قدم بقدم چلتے ہوئے بھی اس سے مکمل آگاہ رہتیں۔
حج سے واپسی پر سعد اور ملائکہ انکے اسقبال کو موجود تھے، انہوں نے گھر کو بہترین طریقے سے سجا رکھا تھا، مبارک باد کا سلسلہ چند روز چلتا رہا، اسی دوران سعد نے بتایا کہ اسکا ٹرانسفر اسلام آباد ہو گیا ہے، سعید صاحب نے اپنے کسی دوست کے ذریعے انکی رہائش کا بندو بست کروایا، دونوں نے انہیں دعاو¿ں سے رخصت کیا، اور ابھی انہیں گئے دو ہفتے بھی نہ گزرے تھے کہ ایک روز اپنے آفس جاتے ہوئے سعید صاحب کی کار کو ایک ٹرک نے ٹکر ماری او ر وہ اﷲ کو پیارے ہو گئے، اﷲ نے دنیا کے جھمیلوں میں مشغول ہونے سے پہلے ہی انکے دل میں در آنی والی اس اچانک سی خواہش کو پورا کر دیا، جو جانے دعا کے قالب میں ڈھلی بھی تھی یا نہیں۔
عافیہ بیگم کی زندگی میں زلزلہ آگیا تھا، پچیس سالہ رفاقت تنہائی میں ڈھل گئی تھی، انہیں خود سمجھ نہ آ رہا تھا کہ اب کیا کریں۔ زمانہ عدت اسی غم اور سوچوں کے بہاو¿ میں گذر گیا، حقیقت تو یہ ہے کہ زندگی سعید کے ساتھ قدم بقدم گزری تھی، اب تو جینے کی آس بھی معدوم ہو رہی تھی،سعد ان کی کیفیت سمجھ رہا تھا، وہ اور ملائکہ ہر ہفتے لاہور آ جاتے، انکے ساتھ وقت گزارتے، ملائکہ انکے چھوٹے چھوٹے کام اپنی نگرانی میں کروا جاتی، عدت مکمل ہونے تک وہ انہیں اسلام آباد منتقل ہونے کا بھی نہ کہہ رہے تھے۔
عافیہ بیگم کی سب سے بڑی ڈھارس انکے رب نے بندھائی تھی، صدمے کے ابتدائی دنوں ہی میں انہوں نے رب سے تعلق کی گرہیں مضبوط کر لی تھیں، اپنے غم، دکھ اور صدمے کا اظہار وہ اسی رب سے کرتیں، رات کی گھڑیوں میں ان کے آنسو ان کے رخسار اور مصلّے کو بھگوتے رہتے، انہیں رب سے شکوہ نہ تھا، ہاں اس غم کا مداوہ چاہتیں تھیں، صبر ِ جمیل کی تمنا تھی انہیں! پھر اللہ کریم نے دھیرے دھیرے انہیں زندگی کی قیمت سکھا دی، سعید صاحب کا امتحان مکمل ہو چکا تھا مگر عافیہ بیگم کا پرچہ ان کے ہاتھ میں تھا، اور ان کی کامیابی کا تعلق باقی ماندہ سوالوں کے درست جواب پر تھا۔۔
زمانہءعدت میں سعید صاحب کی زندگی کے کئی اوراق ایسے بھی ان کی نظر سے گزرے، جو بیوی ہوتے ہوئے بھی ان سے اوجھل تھے، ایسے صدقات جو دایاں ہاتھ دے اور بائیں کو خبر نہ ہو، اور کچھ صدقہءجاریہ کام، اور انہیں میں یتیم بچیوں کے لئے ایک ادارہ تھا، جس کی کونسل کے ممبران نے جنازے کے بعد سعد سے ملاقات کی تھی۔ سعد نے انہیں یقین دلایا تھا کہ وہ والد کے حصّے کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرے گا۔ ادارے کی خاتون ذمہ دار بھی عافیہ بیگم سے ملنے آئیں، اور انہیں مستقبل کے کئی منصوبوں سے آگاہ کیا، عافیہ بیگم کی نگاہیں چمک اٹھیں، آئندہ زندگی کی ایک مشغولیت کا سرا ان کے ہاتھ آ گیا تھا۔
وہ چند ماہ بعد اسلام آباد آگئیں، لیکن لاہور کی مشولیت کو بھی وہ بھولی نہیں تھیں۔ تین ہفتے اسلام آباد گزارتیں اور چوتھا ہفتہ لاہور میں یتیم بچیوں کے ادارے کے کام کے لئے وقف تھا، اسی طرح انہیں کچھ وقت اپنے گھر میں گزارنے کا موقع بھی مل جاتا، جہاں سعید کے ساتھ گزرے وقت کی یادیں ان کا سہارا ہوتیں، اس گھر کے ہر گوشے سے کتنی ہی خوشگوا ر یادیں وابستہ تھیں، جہاں سعد، سعید صاحب اور وہ تھے، اور اس تکونے رشتے کے اپنے اپنے زاویے ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے پیوست نقطے تھے، جس میں ہر ایک دوسرے سے جڑا تھا۔۔
سعد کو اللہ نے یکے بعد دیگرے دو بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا تو وہ اسلام آباد ہی کر ہو کر رہ گئیں، کئی کئی ماہ لاہور آنا نہ ہوتا، بیٹی کی کمی عمارہ اور سارہ کے چہچہاتے وجود نے پوری کر دی، اور ابراہیم میں تو وہ گویا ایک مرتبہ پھر سعد کا بچپن دیکھ رہی تھیں، لیکن سعد سعید صاحب جیسا باپ نہ تھا، بلکہ ملائکہ بھی ان جیسی ماں نہ تھی، ان دونوں نے سعد کی تربیت میں دینی سوچ اور اعلی اخلاق اور معاشرت کو پیش ِ نظر رکھا تھا،مگر انکے بہو بیٹا بچوں کی تربیت سے کچھ غفلت برت رہے تھے، وہ دبے لفظوں سے کئی پہلووں کی جانب توجہ دلاتیں مگر وہ کیا کرتیں، ان دونوں نے جدید زمانے کے تقاضوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے، وہ جس طرح سعد کے لئے مثبت سرگرمیوں کا اہتمام کرتی تھیں ، سعد وہ سب اپنے بچوں کے لئے نہ کر پا رہا تھا۔ بچوں کی تفریح میں کھیل کود کی جگہ سکرین نے لے لی، لباس بھی جگ بھاتا اختیار کر لیا گیا، اور دین کی تعلیم مولوی صاحب کے سپرد کر دی گئی، عافیہ بیگم نے سمجھانا چاہا تو اسے مداخلت سمجھا گیا، وہ اپنے طور پر بچوں کو سکھانا چاہتیں تو بھی کئی رکاوٹیں سامنے آ جاتیں، سب سے بڑھ کر بچوں میں نظم وضبط کا فقدان انہیں پریشان کرتا، جوں جوں بچے بڑے ہو رہے تھے ، ان کی تشویش بڑھ رہی تھی، اور اس کا انجام یہ تھا کہ ایک مرتبہ پھر ان کی لاہور کی مصروفیات بڑھنے لگیں، یتیم بچیوں کے ادارے میں تربیت کے وہ سارے خواب پورے کر رہی تھی، جو انہوں نے اپنی نسل کے لئے دیکھے تھے، یہ سب صدقہ جاریہ بنے گا ان کے لئے، انہیں اندر تک اطمینان اترتا محسوس ہوتا، وہ لاہور میں خود کو زیادہ اطمینان میں پاتی تھیں، سعد نے کئی مرتبہ انہیں روکنا چاہا، لیکن ۔۔
وقت کا پہیہ بڑی تیزی سے گردش کر رہا تھا، سعد کی ملازمت کی مصروفیات میں کاروباری ذمہ داریاں بھی شامل ہو گئی تھیں، وہ اچھا شوہر تھا، محبت کرنے والا شفیق باپ اور بے حد دلارا بیٹا، اب بھی وہ ہر پریشانی عافیہ بیگم ہی سے شیئر کرتا، ہاں ایک قلق تھا اسے، وہ ماں کو ساتھ نہیں رکھ پایا تھا، یا وہ ہی اس کے ساتھ نہیں رہ سکی تھیں۔ اسے ذرا بھی فرصت ملتی تو سب کو ساتھ لے کر لاہور پہنچ جاتا، عافیہ بیگم سب کی آو¿ بھگت میں لگ جاتیں، اور سعد ہمیشہ اداس دل کے ساتھ واپس لوٹتا۔
سعد نے اسلام آباد میں مکان کی تعمیر شروع کی، تو سب گھر والے ہی مشوروں میں شریک تھے، وہ سب کی بات غور سے سنتا، اور ان کی رائے کو اہمیت دیتا، اسی دوران کسی کمزور لمحے اس نے عافیہ بیگم سے منوا لیا کہ نئے گھر میں وہ بھی ان کے ساتھ رہیں گی، اور پھر اس کی توجہ سب سے بڑھ کر اسی گوشے پر تھی، جسے اس نے سردی گرمی سے بچاو¿، اور بڑھاپے کی ضروریات سامنے رکھ کر بنوایا ، اس کی ایک کھڑکی لان کی جانب رکھی، اسے معلوم تھا پھول اور پودے ان کی کمزوری ہیں۔
مکین مکان میں پہنچ کر اس کو آراستہ کرنے میں لگے ہوئے تھے، عافیہ بیگم ابھی تک شش و پنج میں تھیں، اگرچہ ادارے کی ٹیم کو اپنے متوقع پروگرام سے آگاہ کر چکی تھیں، جو پودا انہوں نے خون ِ جگر سے سینچا تھا اس سے جدائی آسان نہ تھی، لیکن دو روقبل آنے والے فون نے انہیں اندر سے ہلا کر رکھ دیا تھا، جو فیصلہ مہینوں میں نہ ہوا تھا لمحوں میں ہو گیا تھا۔ سعد اور ملائکہ دونوں کو ابراہیم کے سکول بلایا گیا تھا، اشرافیہ کے سکول کی انتظامیہ کو بچوں کے منشیات میں ملوث ہونے کی رپورٹ ملی تھی، سکول کے کئی طلبا کے شیشہ ہاو¿س میں جانے کی بھی مصدقہ اطلاعات اور سمارٹ فونز میں قبیح اور فحش مواد کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا، سعد اور ملائکہ کے پیروں تلے زمین نکل گئی، ان کے قدم لڑکھڑا رہے تھے، جدید علوم کے حصول کی طلب میں انہوں نے کس اطمینان سے اس سکول کا انتخاب کیا تھا، یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ ابراہیم کے اخلاق اور کردار کے بارے میں اساتذہ اور انتظامیہ کی رپورٹ بری نہ تھی، لیکن وہ گندے اور متعفن ماحول میں موجود تو تھا اور کسی بھی مرض کا شکار ہو سکتا تھا۔آج انہیں ابراہیم کی تربیت کے لئے دادی کی معاونت درکار تھی، اور عافیہ بیگم جو بے گانے بچوں کی تربیت کے لئے ہلکان ہوتی تھیں اپنے پوتے سے کیسے لا تعلق رہ سکتی تھیں، انہوںنے بلا تردد دو روز بعد اسلام آباد منتقل ہونے کا عندیہ دے دیا، اور اس اعلان کے ساتھ ہی گھر بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ملائکہ اورسعد نے بچوں کے ساتھ مل کر اماں کا کمرہ سیٹ کروایا، ویڈیو کال سے ان کو سب کچھ دکھایا جاتا رہا اوران کی رضا مندی سے سب چیزیں ترتیب سے رکھی گئیں،ان سب کی بھاگ دوڑ عافیہ بیگم کو سرشار کر رہی تھی۔
ویک اینڈ پر سعد اور ملائکہ اماں کو لینے لاہور جا رہے تھے، اماں نے صبح ہی بتایا تھا کہ ان کی تیاری مکمل ہو چکی ہے اور وہ ان کی منتظر بیٹھی ہیں، ملائکہ ایک نظر ان کے کمرے کا جائزہ لینے گئی، اور وہ ملازمہ کو رات کے کھانے کی ہدایات دے رہی تھی، جب ابراہیم گھبرایا ہوا اس کے پیچھے آگیا:
”ماما ۔۔ ماما ۔۔ پاپا بلا رہے ہیں آپ کو ۔۔“۔
اور ابھی وہ ہدایات ہی دے رہی تھی کہ اس کی چیخ سنائی دی:
”ماما ۔۔ ماما ۔۔ دیکھیں نا پاپا کو ۔۔“۔
وہ بھاگتی ہوئی لاو¿نج میں پہنچی، سعد سینے پر ہاتھ رکھے کراہ رہا تھا، ابراہیم قریبی کلینک سے ڈاکٹر کو بلانے بھاگا، لیکن اس کے آنے سے پہلے ہی اس کی روح پرواز کر چکی تھی، ملائکہ پاس کھڑی انگلیاں مروڑ رہی تھی، اس کا چہرہ زرد تھا، موت کی المناک حقیقت نے سب کو حواس باختہ کر دیا تھا۔
اور اس شام جب عافیہ بیگم اسلام آباد پہنچی تو وہاں استقبال کا نہیں رخصت کا منظر تھا، اتنا خوبصورت گھر بنانے والا اور اسے خوابوں سے سجانے والا سعد اگلی منزل کی جانب سدھار گیا تھا، رشتہ دار آگے بڑھے اور ایک بزرگ نے ”کل نفس ذائقة الموت“ کا پیغام سنا کر جنازہ اٹھانے کا اشارہ کیا۔ عافیہ بیگم نے بس اتنا کہا: ”پیارے بیٹے اللہ کے حوالے، تو نے اتنی محبت سے بلا کر میرے آنے کا انتظار بھی نہ کیا، میں زندگی بھر تجھ سے راضی رہی اور آج بھی تیرے ایمان کی گواہی دیتی ہوں، اے اللہ تو بھی میرے بیٹے کی بخشش فرما دے، آمین“۔
سعد سے جڑا ہر رشتہ، دوست، ہمسائے، جانے انجانے سب اشکبار تھے، چند دن تک تعزیت کا سلسلہ رہا، اور پھر ایسی تنہائی کہ گھر کے در و دیوار کاٹ کھانے کو دوڑتے، بچے روتے بلکتے تو ملائکہ انہیں چپ کرواتے خود بھی بے حال ہو جاتی، اس کے سر سے سائبان اٹھ گیا تھا، اور عافیہ بیگم ٹکر ٹکر سب کو دیکھے جاتیں، اور پھر وہی ہمت جمع کر کے سب کو تسلی دیتیں، دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کا دوام!!
سارا دن وہ ملائکہ کا دل بہلاتیں اور ملائکہ انہیں خوش رکھنے کی اپنی سی کوشش کرتی رہتی، سارا اور عمارہ گھر آتیں تو ان کے غمزدہ اور اداس چہرے دیکھ کر انکا دل کٹنے لگتا، خوشیوں کے ہنڈولنے میں جھولنے والایہ گھرانہ غم کے معنی سے بھی نامانوس تھا، اب غم پڑا تو ان کے اعصاب چٹخ گئے، لیکن عافیہ بیگم نے کئی ماہ کی مسلسل کوشش سے انہیں اس رب سے جوڑ دیا جو ہنساتا بھی ہے اور رلاتا بھی، جو اس کی جانب بڑھنے والوں پر صبر انڈیل دیتا ہے ۔ وہ سارا دن سب کو وہی سبق پڑھاتی رہتیں۔
دن کی تھی ہاری جب وہ رات کو بستر میں آتیں تو ابراہیم چپکے سے انکے پاس سرک آتا، انکے کندھے دباتا، پیروں کی مالش کرتا، اور ہولے ہولے ان سے باتیں کئے جاتا، ماضی کی باتیں، اس گھر کی رونق بحال کرنے کے منصوبے اور مستقبل کے خواب! اسکی مضطرب نگاہوں اور ان کہے خطرے کو بھی وہ محسوس کر لیتیں، اور اسے سینے سے لگا کر بھینچ لیتیں، ابراہیم میرے بچے، میرے سعد کی امانت، تم سب کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاو¿ں گی، اب تو لاہور بھول گیا ہے مجھے۔
اور اس سمے انہیں میدانِ عرفات میں بیٹھے دو نفوس یاد آ جاتے جن میں سے ایک نے اک خواہش کا اظہار کیا تھا، اور دوسرا ہچکچا گیا تھا، اسے اپنا بیٹا بہت پیارا تھا۔۔ اور کسے معلوم تھا کہ ایک کی خواہش قبولیت پا جائے گی، اور دوسرے کے لئے رب کا ایک اور ہی فیصلہ ہو گا، جس بیٹے کی محبت نے اس لمحے انہیں جکڑ لیا تھا، وہ بھی ایک حسین اور نازک موڑ پر ان سے جدا ہو کر رب کے حضور پہنچ جائے گا، اور اتنے برس بعد وہ پھر محبت کی ڈور میں بندھی پوتے پوتیوں اور بیٹی جیسی بہو کی دلداری میں لگی ہوں گی، اللہ کے اگلے فیصلے کی منتظر ۔۔
اور ہر حال میں اس سے راضی۔۔
اور اسے راضی کرنے کے لئے فکر مند!!
٭٭٭
اہم بلاگز
یومِ خواتین
ہم عورتوں کے غم میں گھلی جارہی ہیں ، کیا انہیں اس بات کا احساس ہے ؟ کوئی ہے جو انہیں احساس دلائے ؟ انہیں ان کی ذات کا شعور دے ؟۔
رویے ، معاملات، طریقے
حل کیا ہے ؟حل کہاں ہے؟
"اے اولاد آدم ہم نے نہیں کہہ دیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا،وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اور میری ہی عبادت کرنا ، یہی سیدھا رستہ ہے ۔تم سے پہلے وہ کئ نسلوں کو گمراہ کر چکا ہے ،کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟"(سورہ یٰسین )۔
ہمیں جن رشتوں میں بھی مرد سے اختلاف ہےوہ ہمارے اپنے رشتے ہیں ۔ ہم مرد عورت نے مل کر اپنے دشمن کے خلاف ایک ہونا ہے۔ اس کے لیے جاننے کے ساتھ ساتھ ماننے کا علم اور عمل چاہیے۔ ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے دشمن کا سلیبس لے کر صراط مستقیم پر چلنا چاہ رہے ہیں لہذا یہ فتنہ گھیرے رکھے گا ان رشتوں کو۔
ام سلمیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے عورتوں کی طرف سے سوال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ" مرد تو سارا اجر لے جاتے ہیں۔ ہم عورتیں ان کے گھر ،بچے پالتی ہیں ،ہمیں کیا ملا؟ "جواب دینے والی ہستی (جس پہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے ہروقت درود بھیجتے ہیں) نے فرمایا "اجر میں کوئی کمی نہیں ۔ اللہ کے ہاں تقویٰ کی اہمیت ہے۔ تم گھر رہتے ہوئے جہاد کا اجر پاؤ گی"۔
ہے کوئی دنیا میں ایسی تہذیب جو عورت کو گھر بٹھا کر عزت دے؟
سورہ نحل آیت 97 میں اللہ تعالی نے فرمایا خواہ مرد ہویا عورت ،اور ہو وہ مومن،اجر کا مستحق ہوگا۔"
لیکن ہمارا ذہن تو لڑائی جھگڑوں میں الجھا رہتا ہے۔ ہم اپنی ذات سے بے گانہ رہتی ہیں ۔ ہم غیر حاضر دماغی کے ساتھ عمل کر رہی ہیں۔ ہمارا اپنے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ ہمیں اللہ کے ساتھ اپنا وعدہ یاد نہیں ہے۔کاش میں لوگوں کو اتنا ہی سمجھا سکوں کہ وہ کتنا "رحیم" ہے۔ اس نے مجھ ابھی بھی رکھا ہوا ہے ۔
گھر کے کام پر اجر و ثواب۔ نیت کے باعث
ہم نیت کے بغیر ضائع ہو رہی ہیں
اپنے رویے اور اپنی نیت سے خود کو بے وقعت ہونے سے بچائیں۔ ہم ضرورت مند ہیں تو ہمیں مزاج کو اہمیت دینی ہے یا ضرورت کو؟ کیا ہمیں اپنی آخرت کی اتنی فکر ہے جتنی ان صحابیہ کو تھی؟
آئیں اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں
ان کا گھر کیسا تھا ؟
کیا سامان تھا؟
شوہر کتنا وقت دیتے تھے ؟
کتنا خرچہ دیتے تھے؟
ہم اپنے گھر میں رہتے ہوئے خوش نہیں جب کہ اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) نے شوہر (مرد )کی اطاعت اور بیٹے (مرد) کی پرورش کی خاطر شہر آباد کر دیا۔ کیونکہ ان کے پاس ماننے کا علم اور تعلق میں مضبوطی تھی۔
اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) نے اپنی جان مال سب اپنے شوہر مرد کے مشن پہ قربان کر دیا کیونکہ ان کے دل و دماغ صاف تھے تو ایمان نے ان میں گھر کر لیا۔
کیسی بے مثل اولادیں پروان چڑھائیں انہوں نے
قیامت تک کے لیے...
حیا ! اسلامی شعار
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر ایک پھول ہے تو حیا اس کی خوشبو ہے ۔اور ہر انسان اپنی اسی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ہم جب بھی حیا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف لباس میں حیا نہیں ہے بلکہ بصری، سمعی اور قلبی حیا بھی ہے۔ جہاں لباس میں حیا سے انکار ممکن نہیں وہیں بصری، سمعی اور قلبی حیا کے بنا حیا مکمل نہیں ۔
بصری حیا کا تعلق ہماری آنکھوں سے ہے،یعنی اپنی آنکھوں کا درست استعمال یا نظروں کی پاکیزگی۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کی سوچوں کو متاثر کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان فحش اور بے حیائی پر مبنی مناظر یا تصاویر دیکھے اور پھر بھی اس کا دل و دماغ پاک اور تقویٰ سے بھر پور ہو،اسی طرح سمعی حیا کو اختیار نہ کیا جائے اور اللہ کو ناراض کر نے والی موسیقی یا ڈراموں کے ڈائیلاگ سنیں جائیں اور ہمارا دل ایمان کی حلاوت سے بھرا ہوا ہو، یہی کیفیت قلبی حیا سے متعلق ہے، ہمارا قلب غیر اللہ کے ذکر سے پر ہو یا فحش سے بھرا ہوا ہو اور ہمارا ظاہر حیادار ہو؟
حیا کا تصور آتے ہی حجابی خواتین کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ بے شک چادر، اسکارف اور گاؤن پردے کی علامت ہیں لیکن ان کا تعلق حیا کے ظاہری پہلو سے ہے جبکہ دل کی حیا ہمارے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں، کانوں پر پابندی لگاتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم فحش نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے تو یہی بات ہماری باطنی حیا ہے۔
مکمل حیا کے حصول کے لیے جہاں خواتین و حضرات کا لباس اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو وہیں اپنی آنکھ ،کان اور دل کو حیا دار بنانا ضروری ہے۔
آج کے دور میں کہ جہاں مغربی تہذیب کی یلغار ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔ انٹرنیٹ جہاں ہماری ضرورت بن چکا ہے وہیں یہ بد نظری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔بچے، بڑے، مرد اور خواتین سبھی اس بات سے بے پرواہ اپنا ایمان اور وقت اس کے ساتھ برباد کر رہے ہیں۔بجائے یہ کہ اس کااستعمال بہترین اسلامی روایات کے پھیلاؤ میں کیا جاتا الٹا چند ٹکوں کے لئے مسلمان اپنا اسلامی وقار داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ٹک ٹاک،فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر اسلام کی ترویج کی بجائے حیا باختہ مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ حیا باختگی کے نتیجے میں گھر اور رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مرد اور عورت کا باہم اعتماد ناپید ہوتا جا رہا ہے۔طلاق کی شرح میں ہو شربا اضافہ ہو چکا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو"۔ واقعی جب ہمارا معاشرہ حیا سے خالی ہوا تو جس کے جو من میں آیا اس نے کرنا شروع کر دیا ۔قطع نظر اس کے کہ ان کاموں کے کیا نتائج نکلیں...
آسان نہیں مسلماں ہونا !
ایک تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے، کہنے کو تو یہ تصویر ہے اہل غزہ کی گھروں کی جانب روانگی کی، لیکن یہ دراصل داستان ہے ان مجاہدین اسلام کی جو حق کے لیے ڈیڑھ سال تنہا کمر بستہ کھڑے رہے ہیں، یہ راہ حق کے مسافران ، مجاہدین صدق وفا، پیکر صبر و استقامت اور علمبردار شجاعت ان میں کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے بچے بوڑھے جوان عورتیں ان سب کی ایک منزل ہے یہ ایک ہی راہ کے راہی اور اللہ رب العزت کے سپاہی ہیں۔لٹے پٹے بے سروسامان گھروں کی جانب رواں جانتے ہیں وہ گھر اب کیا ہیں ؟ ملبوں کا ڈھیر،جہاں تعلیمی ادارے باقی ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی،ان کےاپنے ان سے چھن گئے ہیں معذور ہوگئے زخمی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے چہروں پر امید اور رونق و بشاشت ہے ایسا آہنی حوصلہ نظر آرہا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ۔ یہ اہل غزہ درحقیقت فداک امی و ابی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ایک شعر ترمیم کے ساتھ انکی نظر ہے،،
اسی تے گلاں ای کردے رہ گئے
تے غزہ دے مجاہد بازی لیہہ گئے
انکی ایمانی طاقت کو، مقصد سے لگن کی قوت کو آفرین ہے سلام ہے ان کو ،ہم تو انکے لیے فقط دعا کرتے رہے۔ اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔
شاید ایسے ہی ہمت اور حوصلے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ان اہل غزہ میں کوئی ماں سے محروم ہے توکوئی باپ سے کوئی اولاد سے کوئی شوہر سے کوئی بیوی سے کوئی بھائی بہنوں سے جدا ہے لیکن انکے حوصلے پر ہمارا دل فدا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےعرض کیا تھا! فداک امی و ابی سے نبی کریم ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان۔ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے لیے ہمارا سب کچھ قربان اور حاضر ہے ۔ اسی کے مصداق اہل فلسطین نے فداک امی و ابی کی وہ اعلیٰ جیتی جاگتی زندہ و جاوید مثال قائم کی ہے جو ہمارے لیےمشعل راہ ہے۔ اب ان اہل فلسطین کے سامنے ایک اور سخت مشکل مرحلہ ہے
’’ری بلڈ فلسطین‘‘ یعنی فلسطین کی ازسرنو تعمیر
آج کل میڈیا پر لوگوں کی زبانوں پر اسی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ری بلڈ یعنی از سر نو تعمیر فلسطین۔
کہنے کو تو یہ جملہ منہ سے ادا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہو تو سب کام آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس فلسفے کی موجودہ حقیقت ہمارے سامنے آج اس شکل میں موجود ہے کہ امریکہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہوتے ہوئے بھی لاس اینجلس اور اطراف کے جنگلات میں بھڑکتی آگ اور ہوا تھپیڑوں سے اسے پھیلنے سے روکنےبمیں بازی ہار گیا، اب اعتراف شکست کرتے ہوئے پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ری بلڈ لاس اینجلس‘‘ میں تیزی سے مصروف ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب اپنے مشن سے...
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔