وہ دونو ں مید ان ِ عرفات میں بیٹھے ہوئے تھے، پوری دنیا سے بے خبر، اپنے رب کے سامنے! آج انہیں اپنی خوش قسمتی پر کس قدر رشک آ رہا تھا، ان کی برسوں پرانی خواہش پوری ہو گئی تھی، رب نے ان کو اپنا مہمان بنا لیا تھا، حقیقت تو یہ ہے کہ مکہ آمد پر ہوٹل کے استقبالئے پر ”ضیوف الرحمن“ کی تختی دیکھ کر ہی عافیہ کا خون سیروں بڑھ گیا تھا کہ وہ رب کی مہمان ہے، آج وہ اور سعید اسی رب کی رحمت کے سائے میں میدان ِ عرفات میں بیٹھے تھے، دنیا و آخرت کی بھلائیوں کے امیدوار!!
عافیہ کو یاد تھا اس نے یہاں پہنچنے کی تیاریاں کس طرح کی تھیں، اپنے اکلوتے بیٹے کے بغیر یہ انکا پہلا طویل سفر تھا، سعید نے حج پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہیں پہلا خیال سعد کا ہی آیا تھا:
سعد کیسے رہے گا اتنے دن؟
اور سعید صاحب جھنجھلا اٹھے تھے، کیا اب بھی آپ کو سعد کی فکر ہے، بڑا ہو گیا ہے اب، تعلیم مکمل کر کے نوکری پر لگ گیا ہے، اگر بہت پریشانی ہے تو شادی کر دیجئے اسکی۔
اور اس آخری جملے نے انکی ساری کلفت دور کر دی تھی، اگلے کچھ روز انہوں نے سعد کے لئے چاند سی دلہن لانے کی تلاش میں گزار دیے، اور ابھی حج کے کاغذ بھی جمع نہ ہوئے تھے کہ انہیں اپنی تلاش مل گئی۔ ملائکہ بڑی پیاری لڑکی تھی، بڑی بڑی چمکتی آنکھیں، جب مسکراتی توآنکھوں کے دیے جل اٹھتے، اور ہنستی تو کانوں میں رس گھلتا محسوس ہوتا۔ انکی اپنی کوئی بیٹی نہ تھی، اس لئے ساری محبتیں اسی پر نچھاور کرنے کو تیار ہو گئیں۔شادی کی تیاری شروع کی تومہینوں کا کام ہفتوں میں کر لیااور ملائکہ کو گھر لا کر دم لیا۔ سعد اور ملائکہ کی جوڑی بھی خوب تھی، انہیں سعد عزیز تھا تو ملائکہ عزیز تر، ساس بہو کی روایتی دوریاں نہ تھیں، حج پر جانے سے پہلے انہوں نے گھر اسکے حوالے کر دیا، ملازمہ کے بارے میں ساری ہدایات، گھر کے اہم امور اور سب سے بڑھ کر سعد کے بارے میں!! حقیقت تو یہ ہے کہ سعد کے بارے میں کچھ زیادہ ہدایات کی ضرورت بھی نہ پڑی، انہوں نے سعد کو بہت سے کاموں میں خود انحصاری سکھائی تھی، اور باقی سب ان کا آپس کا معاملہ تھا۔
انکی حج کی تیاریوں میں دونوں نے آگے بڑھ کر ساتھ دیا تھا، چند ہفتوں میں ملائکہ ان سے مانوس ہو گئی تھی، الوداع کہتے ہوئے پیچھے رہ جانے والوں کے چہرے کچھ اداس تھے، عافیہ بیگم اور سعید انہیں دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوئے تھے، اور اب پندرہ دن ہو چکے تھے انہیں حرمین کی سرزمین پر، بیٹا بہو سے بات ہوتی تو انکے سینے میں اطمینان کی لہر اتر آتی، کتنا اچھا ہوا وہ اپنا فرض ادا کر آئے، اب کم از کم سعد کی تو فکر نہ تھی۔
عرفات کے میدان میں وہ دونوں رب کے حضور مغفرت مانگ رہے تھے، دنیا و آخرت کی بھلائیاں، اﷲ نے کتنے اچھے وقت میں ان سے یہ فیصلہ کروا لیا تھا، دعائیں مانگتے مانگتے سعید صاحب اچانک اس سے مخاطب ہوئے:
۔ ”بس اﷲ ہمیں پاک کر دے، گناہوں کا میل کچیل دور کر دے ، اور کسی نو زائیدہ بچے کی مانند کر دے“۔
۔ ”اﷲ تعالی واپس جانے کے بعد بھی ہمارے دلوں کو اسی طرح اپنی جانب متوجہ رکھے“۔ عافیہ بیگم کی دل کی دعا لبوں پر آگئی۔
۔ ”بڑی اچھی زندگی گزری ہے ہماری، کم ذمہ داریاں، اور آسان زندگی، اﷲ نے رزق ِ حلال دیا، فرائض کا پابند بنایا، کیا ہوکہ اگر اﷲ اسی پاکیزگی میں ہمیں اپنے پاس بلا لے“۔ سعید صاحب کے دل میں مچلتی کئی دنوں کی آرزو زبان پر آگئی۔
عافیہ بیگم نے گھبرا کر انکے منہ پر ہاتھ رکھ دیا:
۔ ”سعد بھول گیا ہے آپ کو؟ میں اسے کوئی صدمہ نہیں دینا چاہتی، باقی اﷲ کی مرضی۔۔ “۔
عافیہ اپنی دعاو¿ں کی کتاب کی جانب متوجہ ہو گئیں، اور سعید صاحب اپنی مناجات میں گم، وہ ساتھ ساتھ بیٹھے تھے، مگر اس موضوع کا باب عافیہ کے جواب نے بند کر دیا تھا۔ وہ جو ہمیشہ ایک سا سوچتے تھے آج جوان بیٹے کی محبت نے ان کی دعاو¿ں کو مختلف کر دیا تھا، حالانکہ انکی تمام عمر اسی طرح گزری تھی، سعید صاحب رشتہ داروں سے ملنے جاتے، یا کاروباری دوروں پر، یا سیر و سیاحت کرنے ، عافیہ بیگم انکے ساتھ ہوتیں، اگر سعد فارغ ہوتا تو وہ بھی، اور جب بھی سعد کے امتحان ہوتے یا کوئی اور مصروفیت تو انکا دل اسی میں اٹکا رہتا، وہ سعید صاحب کے ساتھ قدم بقدم چلتے ہوئے بھی اس سے مکمل آگاہ رہتیں۔
حج سے واپسی پر سعد اور ملائکہ انکے اسقبال کو موجود تھے، انہوں نے گھر کو بہترین طریقے سے سجا رکھا تھا، مبارک باد کا سلسلہ چند روز چلتا رہا، اسی دوران سعد نے بتایا کہ اسکا ٹرانسفر اسلام آباد ہو گیا ہے، سعید صاحب نے اپنے کسی دوست کے ذریعے انکی رہائش کا بندو بست کروایا، دونوں نے انہیں دعاو¿ں سے رخصت کیا، اور ابھی انہیں گئے دو ہفتے بھی نہ گزرے تھے کہ ایک روز اپنے آفس جاتے ہوئے سعید صاحب کی کار کو ایک ٹرک نے ٹکر ماری او ر وہ اﷲ کو پیارے ہو گئے، اﷲ نے دنیا کے جھمیلوں میں مشغول ہونے سے پہلے ہی انکے دل میں در آنی والی اس اچانک سی خواہش کو پورا کر دیا، جو جانے دعا کے قالب میں ڈھلی بھی تھی یا نہیں۔
عافیہ بیگم کی زندگی میں زلزلہ آگیا تھا، پچیس سالہ رفاقت تنہائی میں ڈھل گئی تھی، انہیں خود سمجھ نہ آ رہا تھا کہ اب کیا کریں۔ زمانہ عدت اسی غم اور سوچوں کے بہاو¿ میں گذر گیا، حقیقت تو یہ ہے کہ زندگی سعید کے ساتھ قدم بقدم گزری تھی، اب تو جینے کی آس بھی معدوم ہو رہی تھی،سعد ان کی کیفیت سمجھ رہا تھا، وہ اور ملائکہ ہر ہفتے لاہور آ جاتے، انکے ساتھ وقت گزارتے، ملائکہ انکے چھوٹے چھوٹے کام اپنی نگرانی میں کروا جاتی، عدت مکمل ہونے تک وہ انہیں اسلام آباد منتقل ہونے کا بھی نہ کہہ رہے تھے۔
عافیہ بیگم کی سب سے بڑی ڈھارس انکے رب نے بندھائی تھی، صدمے کے ابتدائی دنوں ہی میں انہوں نے رب سے تعلق کی گرہیں مضبوط کر لی تھیں، اپنے غم، دکھ اور صدمے کا اظہار وہ اسی رب سے کرتیں، رات کی گھڑیوں میں ان کے آنسو ان کے رخسار اور مصلّے کو بھگوتے رہتے، انہیں رب سے شکوہ نہ تھا، ہاں اس غم کا مداوہ چاہتیں تھیں، صبر ِ جمیل کی تمنا تھی انہیں! پھر اللہ کریم نے دھیرے دھیرے انہیں زندگی کی قیمت سکھا دی، سعید صاحب کا امتحان مکمل ہو چکا تھا مگر عافیہ بیگم کا پرچہ ان کے ہاتھ میں تھا، اور ان کی کامیابی کا تعلق باقی ماندہ سوالوں کے درست جواب پر تھا۔۔
زمانہءعدت میں سعید صاحب کی زندگی کے کئی اوراق ایسے بھی ان کی نظر سے گزرے، جو بیوی ہوتے ہوئے بھی ان سے اوجھل تھے، ایسے صدقات جو دایاں ہاتھ دے اور بائیں کو خبر نہ ہو، اور کچھ صدقہءجاریہ کام، اور انہیں میں یتیم بچیوں کے لئے ایک ادارہ تھا، جس کی کونسل کے ممبران نے جنازے کے بعد سعد سے ملاقات کی تھی۔ سعد نے انہیں یقین دلایا تھا کہ وہ والد کے حصّے کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرے گا۔ ادارے کی خاتون ذمہ دار بھی عافیہ بیگم سے ملنے آئیں، اور انہیں مستقبل کے کئی منصوبوں سے آگاہ کیا، عافیہ بیگم کی نگاہیں چمک اٹھیں، آئندہ زندگی کی ایک مشغولیت کا سرا ان کے ہاتھ آ گیا تھا۔
وہ چند ماہ بعد اسلام آباد آگئیں، لیکن لاہور کی مشولیت کو بھی وہ بھولی نہیں تھیں۔ تین ہفتے اسلام آباد گزارتیں اور چوتھا ہفتہ لاہور میں یتیم بچیوں کے ادارے کے کام کے لئے وقف تھا، اسی طرح انہیں کچھ وقت اپنے گھر میں گزارنے کا موقع بھی مل جاتا، جہاں سعید کے ساتھ گزرے وقت کی یادیں ان کا سہارا ہوتیں، اس گھر کے ہر گوشے سے کتنی ہی خوشگوا ر یادیں وابستہ تھیں، جہاں سعد، سعید صاحب اور وہ تھے، اور اس تکونے رشتے کے اپنے اپنے زاویے ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے پیوست نقطے تھے، جس میں ہر ایک دوسرے سے جڑا تھا۔۔
سعد کو اللہ نے یکے بعد دیگرے دو بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا تو وہ اسلام آباد ہی کر ہو کر رہ گئیں، کئی کئی ماہ لاہور آنا نہ ہوتا، بیٹی کی کمی عمارہ اور سارہ کے چہچہاتے وجود نے پوری کر دی، اور ابراہیم میں تو وہ گویا ایک مرتبہ پھر سعد کا بچپن دیکھ رہی تھیں، لیکن سعد سعید صاحب جیسا باپ نہ تھا، بلکہ ملائکہ بھی ان جیسی ماں نہ تھی، ان دونوں نے سعد کی تربیت میں دینی سوچ اور اعلی اخلاق اور معاشرت کو پیش ِ نظر رکھا تھا،مگر انکے بہو بیٹا بچوں کی تربیت سے کچھ غفلت برت رہے تھے، وہ دبے لفظوں سے کئی پہلووں کی جانب توجہ دلاتیں مگر وہ کیا کرتیں، ان دونوں نے جدید زمانے کے تقاضوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے، وہ جس طرح سعد کے لئے مثبت سرگرمیوں کا اہتمام کرتی تھیں ، سعد وہ سب اپنے بچوں کے لئے نہ کر پا رہا تھا۔ بچوں کی تفریح میں کھیل کود کی جگہ سکرین نے لے لی، لباس بھی جگ بھاتا اختیار کر لیا گیا، اور دین کی تعلیم مولوی صاحب کے سپرد کر دی گئی، عافیہ بیگم نے سمجھانا چاہا تو اسے مداخلت سمجھا گیا، وہ اپنے طور پر بچوں کو سکھانا چاہتیں تو بھی کئی رکاوٹیں سامنے آ جاتیں، سب سے بڑھ کر بچوں میں نظم وضبط کا فقدان انہیں پریشان کرتا، جوں جوں بچے بڑے ہو رہے تھے ، ان کی تشویش بڑھ رہی تھی، اور اس کا انجام یہ تھا کہ ایک مرتبہ پھر ان کی لاہور کی مصروفیات بڑھنے لگیں، یتیم بچیوں کے ادارے میں تربیت کے وہ سارے خواب پورے کر رہی تھی، جو انہوں نے اپنی نسل کے لئے دیکھے تھے، یہ سب صدقہ جاریہ بنے گا ان کے لئے، انہیں اندر تک اطمینان اترتا محسوس ہوتا، وہ لاہور میں خود کو زیادہ اطمینان میں پاتی تھیں، سعد نے کئی مرتبہ انہیں روکنا چاہا، لیکن ۔۔
وقت کا پہیہ بڑی تیزی سے گردش کر رہا تھا، سعد کی ملازمت کی مصروفیات میں کاروباری ذمہ داریاں بھی شامل ہو گئی تھیں، وہ اچھا شوہر تھا، محبت کرنے والا شفیق باپ اور بے حد دلارا بیٹا، اب بھی وہ ہر پریشانی عافیہ بیگم ہی سے شیئر کرتا، ہاں ایک قلق تھا اسے، وہ ماں کو ساتھ نہیں رکھ پایا تھا، یا وہ ہی اس کے ساتھ نہیں رہ سکی تھیں۔ اسے ذرا بھی فرصت ملتی تو سب کو ساتھ لے کر لاہور پہنچ جاتا، عافیہ بیگم سب کی آو¿ بھگت میں لگ جاتیں، اور سعد ہمیشہ اداس دل کے ساتھ واپس لوٹتا۔
سعد نے اسلام آباد میں مکان کی تعمیر شروع کی، تو سب گھر والے ہی مشوروں میں شریک تھے، وہ سب کی بات غور سے سنتا، اور ان کی رائے کو اہمیت دیتا، اسی دوران کسی کمزور لمحے اس نے عافیہ بیگم سے منوا لیا کہ نئے گھر میں وہ بھی ان کے ساتھ رہیں گی، اور پھر اس کی توجہ سب سے بڑھ کر اسی گوشے پر تھی، جسے اس نے سردی گرمی سے بچاو¿، اور بڑھاپے کی ضروریات سامنے رکھ کر بنوایا ، اس کی ایک کھڑکی لان کی جانب رکھی، اسے معلوم تھا پھول اور پودے ان کی کمزوری ہیں۔
مکین مکان میں پہنچ کر اس کو آراستہ کرنے میں لگے ہوئے تھے، عافیہ بیگم ابھی تک شش و پنج میں تھیں، اگرچہ ادارے کی ٹیم کو اپنے متوقع پروگرام سے آگاہ کر چکی تھیں، جو پودا انہوں نے خون ِ جگر سے سینچا تھا اس سے جدائی آسان نہ تھی، لیکن دو روقبل آنے والے فون نے انہیں اندر سے ہلا کر رکھ دیا تھا، جو فیصلہ مہینوں میں نہ ہوا تھا لمحوں میں ہو گیا تھا۔ سعد اور ملائکہ دونوں کو ابراہیم کے سکول بلایا گیا تھا، اشرافیہ کے سکول کی انتظامیہ کو بچوں کے منشیات میں ملوث ہونے کی رپورٹ ملی تھی، سکول کے کئی طلبا کے شیشہ ہاو¿س میں جانے کی بھی مصدقہ اطلاعات اور سمارٹ فونز میں قبیح اور فحش مواد کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا، سعد اور ملائکہ کے پیروں تلے زمین نکل گئی، ان کے قدم لڑکھڑا رہے تھے، جدید علوم کے حصول کی طلب میں انہوں نے کس اطمینان سے اس سکول کا انتخاب کیا تھا، یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ ابراہیم کے اخلاق اور کردار کے بارے میں اساتذہ اور انتظامیہ کی رپورٹ بری نہ تھی، لیکن وہ گندے اور متعفن ماحول میں موجود تو تھا اور کسی بھی مرض کا شکار ہو سکتا تھا۔آج انہیں ابراہیم کی تربیت کے لئے دادی کی معاونت درکار تھی، اور عافیہ بیگم جو بے گانے بچوں کی تربیت کے لئے ہلکان ہوتی تھیں اپنے پوتے سے کیسے لا تعلق رہ سکتی تھیں، انہوںنے بلا تردد دو روز بعد اسلام آباد منتقل ہونے کا عندیہ دے دیا، اور اس اعلان کے ساتھ ہی گھر بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ملائکہ اورسعد نے بچوں کے ساتھ مل کر اماں کا کمرہ سیٹ کروایا، ویڈیو کال سے ان کو سب کچھ دکھایا جاتا رہا اوران کی رضا مندی سے سب چیزیں ترتیب سے رکھی گئیں،ان سب کی بھاگ دوڑ عافیہ بیگم کو سرشار کر رہی تھی۔
ویک اینڈ پر سعد اور ملائکہ اماں کو لینے لاہور جا رہے تھے، اماں نے صبح ہی بتایا تھا کہ ان کی تیاری مکمل ہو چکی ہے اور وہ ان کی منتظر بیٹھی ہیں، ملائکہ ایک نظر ان کے کمرے کا جائزہ لینے گئی، اور وہ ملازمہ کو رات کے کھانے کی ہدایات دے رہی تھی، جب ابراہیم گھبرایا ہوا اس کے پیچھے آگیا:
”ماما ۔۔ ماما ۔۔ پاپا بلا رہے ہیں آپ کو ۔۔“۔
اور ابھی وہ ہدایات ہی دے رہی تھی کہ اس کی چیخ سنائی دی:
”ماما ۔۔ ماما ۔۔ دیکھیں نا پاپا کو ۔۔“۔
وہ بھاگتی ہوئی لاو¿نج میں پہنچی، سعد سینے پر ہاتھ رکھے کراہ رہا تھا، ابراہیم قریبی کلینک سے ڈاکٹر کو بلانے بھاگا، لیکن اس کے آنے سے پہلے ہی اس کی روح پرواز کر چکی تھی، ملائکہ پاس کھڑی انگلیاں مروڑ رہی تھی، اس کا چہرہ زرد تھا، موت کی المناک حقیقت نے سب کو حواس باختہ کر دیا تھا۔
اور اس شام جب عافیہ بیگم اسلام آباد پہنچی تو وہاں استقبال کا نہیں رخصت کا منظر تھا، اتنا خوبصورت گھر بنانے والا اور اسے خوابوں سے سجانے والا سعد اگلی منزل کی جانب سدھار گیا تھا، رشتہ دار آگے بڑھے اور ایک بزرگ نے ”کل نفس ذائقة الموت“ کا پیغام سنا کر جنازہ اٹھانے کا اشارہ کیا۔ عافیہ بیگم نے بس اتنا کہا: ”پیارے بیٹے اللہ کے حوالے، تو نے اتنی محبت سے بلا کر میرے آنے کا انتظار بھی نہ کیا، میں زندگی بھر تجھ سے راضی رہی اور آج بھی تیرے ایمان کی گواہی دیتی ہوں، اے اللہ تو بھی میرے بیٹے کی بخشش فرما دے، آمین“۔
سعد سے جڑا ہر رشتہ، دوست، ہمسائے، جانے انجانے سب اشکبار تھے، چند دن تک تعزیت کا سلسلہ رہا، اور پھر ایسی تنہائی کہ گھر کے در و دیوار کاٹ کھانے کو دوڑتے، بچے روتے بلکتے تو ملائکہ انہیں چپ کرواتے خود بھی بے حال ہو جاتی، اس کے سر سے سائبان اٹھ گیا تھا، اور عافیہ بیگم ٹکر ٹکر سب کو دیکھے جاتیں، اور پھر وہی ہمت جمع کر کے سب کو تسلی دیتیں، دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کا دوام!!
سارا دن وہ ملائکہ کا دل بہلاتیں اور ملائکہ انہیں خوش رکھنے کی اپنی سی کوشش کرتی رہتی، سارا اور عمارہ گھر آتیں تو ان کے غمزدہ اور اداس چہرے دیکھ کر انکا دل کٹنے لگتا، خوشیوں کے ہنڈولنے میں جھولنے والایہ گھرانہ غم کے معنی سے بھی نامانوس تھا، اب غم پڑا تو ان کے اعصاب چٹخ گئے، لیکن عافیہ بیگم نے کئی ماہ کی مسلسل کوشش سے انہیں اس رب سے جوڑ دیا جو ہنساتا بھی ہے اور رلاتا بھی، جو اس کی جانب بڑھنے والوں پر صبر انڈیل دیتا ہے ۔ وہ سارا دن سب کو وہی سبق پڑھاتی رہتیں۔
دن کی تھی ہاری جب وہ رات کو بستر میں آتیں تو ابراہیم چپکے سے انکے پاس سرک آتا، انکے کندھے دباتا، پیروں کی مالش کرتا، اور ہولے ہولے ان سے باتیں کئے جاتا، ماضی کی باتیں، اس گھر کی رونق بحال کرنے کے منصوبے اور مستقبل کے خواب! اسکی مضطرب نگاہوں اور ان کہے خطرے کو بھی وہ محسوس کر لیتیں، اور اسے سینے سے لگا کر بھینچ لیتیں، ابراہیم میرے بچے، میرے سعد کی امانت، تم سب کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاو¿ں گی، اب تو لاہور بھول گیا ہے مجھے۔
اور اس سمے انہیں میدانِ عرفات میں بیٹھے دو نفوس یاد آ جاتے جن میں سے ایک نے اک خواہش کا اظہار کیا تھا، اور دوسرا ہچکچا گیا تھا، اسے اپنا بیٹا بہت پیارا تھا۔۔ اور کسے معلوم تھا کہ ایک کی خواہش قبولیت پا جائے گی، اور دوسرے کے لئے رب کا ایک اور ہی فیصلہ ہو گا، جس بیٹے کی محبت نے اس لمحے انہیں جکڑ لیا تھا، وہ بھی ایک حسین اور نازک موڑ پر ان سے جدا ہو کر رب کے حضور پہنچ جائے گا، اور اتنے برس بعد وہ پھر محبت کی ڈور میں بندھی پوتے پوتیوں اور بیٹی جیسی بہو کی دلداری میں لگی ہوں گی، اللہ کے اگلے فیصلے کی منتظر ۔۔
اور ہر حال میں اس سے راضی۔۔
اور اسے راضی کرنے کے لئے فکر مند!!
٭٭٭
اہم بلاگز
کرپشن سے چھٹکارا
بلاشبہ افراد قوموں کو بناتے ہیں اور فرد کا کردار قوم کی تصویر کشی کرتا ہے ۔ ہم معاشرے کے ارکان اغراض کے غلام ہو چکے ہیں، لالچ، حرص، بد عنوانی اور خورد برد ہماری شناخت بن چکی ہے ۔ ہم اپنی بد عنوانی اور دھوکہ دہی کا آغاز انتہائی نچلی سطح سے کر چکے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے لوگوں پر ہوتا ہے ،ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے لوگ اپنے اپنے حصے کا کام پوری ایمانداری ، پوری لگن سے کریں تو اس ملک کا دنیا میں بول بالا ہو تا ہے، لیکن اگر اسی ملک کے لوگ اپنی جگہ بے ایمانی، کرپشن، زخیرہ اندوزی کرنے لگیں گے تو یقینااس ملک کوزوال پذیر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان وہ ملک بن چکا ہے جہاں ہر شخص اپنی جگہ کرپٹ ہے ، جسے جتنا موقع ملے وہ اتنی ہی ڈھٹائی سے کرپشن کرتا ہے ، فریج والے سے لے کر موٹر والے تک، میکینک سے لے کر دکاندار تک، ایک چھوٹے بچے سے لے کر بوڑھے شخص تک ہر کوئی کرپشن جیسی بیماری میں مبتلا ہے ۔ ہم ایک بار خود سے پوچھیں کہ ہم نے کتنی ایمانداری سے اپنے حصے کا کام کیا ہے ؟ ہم نے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟۔
حکمران عوام کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہیں، عوام اگر اچھے، نیک، ایماندار اور صاحب کردار ہوں تو حکمران بھی اچھے نیک اور صاحب کردار ہوتے ہیں۔ عوام اگر بد عنوان ، نافرمان اور بد کردار ہوں تو حکمران بھی ایسے ہی ملتے ہیں۔ یعنی جیسے عوام ہوں ویسے حکمران ان پر مسلط کردیے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے دل بھی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہوتے ہیں، جیسے لوگوں کے اعمال ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مطابق حکمرانوں کے دل کردیتا ہے ۔ ایک حدیث میں خام النیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے‘‘۔ یعنی جس قسم کے تم لوگ ہوگے، اسی قسم کے تمہارے حکمران ہوں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول بھی ہے کہ ’’جیسی قوم ویسے حکمران‘‘۔ ہم بحیثیت قوم کرپٹ ہیں، ہمارے تاجروں کا مال بیچتے وقت ترازو میں ہیر پھیر کرنا اور اچھا مال دکھا کر برا بیچنا معمول ہے۔ چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں جانوروں کا خون اور مضر صحت رنگ۔ بیکریوں میں گندے انڈوں کا استعمال ، آٹے میں میدے کی آمیزش، سرخ مرچوں میں چوکر،اینٹوں ولکڑی کا بورا،کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ ، معروف برانڈ کی کمپنیوں کے ڈبوں میں غیر معیاری اشیاء کی پیکنگ جیسی دھوکہ دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ملاوٹ مافیا کہیں خطرناک کیمیکل، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹ اور پانی کی آمیزش سے دودھ تیار کرکے فروحت کررہے ہیں تو کہیں دودھ کی مقدار کو بڑھانے کے لئے اس میں پروٹین، چکنائی، کوکنگ آئل، یوریا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کو شامل کیاجارہا ہے۔
اسی طرح ٹافیوں، پرفیوم،...
غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ
ہم آج تک غلط فہمیوں کا ہی شکار رہے۔ ہر کوئی دوسرے کو ہی موردِ الزام ٹھہراتا رہا۔ ہمیشہ بزرگوں ہی قربانیوں پر ہی تکیہ کیے رہے۔ ماضی کے ترانے گاتے رہے۔ آگے بڑھنے اور آزادی کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کن اسباب کی ضرورت تھی ان پر غور ہی نہیں کیا۔ آگے کے مرحلے میں تو جانی قربانیوں کے بجائے مال کی اور صلاحیتوں کی قربانی درکار تھی۔ لیکن ہوا اس کے برعکس۔ جہاں جس کا زور چلا اس نے اپنی اپنی سیاست چمکائی۔
عوام کو طبقات میں تقسیم کیا گیا۔ کوئی بہت غریب تو کوئی بہت امیر ہو گیا۔ کچھ زمینوں میں مربوں کے مالک بن گئے اور کچھ ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس گئے۔ تعلیم فروخت ہونے لگی۔ اسکولوں اور کالجوں میں علم و شعور کے بجائے ڈگریوں والی تعلیم ملنے لگی۔ ملک میں ذہانت تو بہت تھی لیکن اس کو کوئی وقعت نہیں دی گئی۔ مغرب کے پروردہ پالیسی ساز قبضہ مافیا نے عوام کو ہر قیمت پر بے شعور رکھنے کی پالیسی اپنائی اور پاکستانی عوام نے بھی اسی حالت میں رہنا گوارا کر لیا، اور جانے انجانے میں اپنے ہی ہاتھوں دنیا میں بسنے والے مظلوم مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کرنے میں حصہ ڈالنے لگے۔
اپنی معیشت مضبوط کرنے کے بجائے ترقی یافتہ ملکوں کو مزید ترقی دیتے چلے گئے۔ مغربی نظریات و افکار کے ساتھ ساتھ ان کی جاذبِ نظر مصنوعات کو بھی روزمرہ زندگی کا لازمی جزو بنائے رکھا۔ کبھی سوچا ہی نہیں کہ کیا اپنے ملک میں کچھ بھی نہیں بنتا کہ جو استعمال کے قابل سمجھا جائے؟ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر ہی اس خوبصورت انداز سے کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی چیز خریدنے کا دل چاہتا ہے۔ افسوس صد افسوس! اپنے ہی ملک میں بڑے بڑے ذہین و فطین پالیسی ساز، فلاسفر اور دینی علماء بیٹھے ہیں، لیکن مجال ہے کسی نے بھی عوام کو یہ راہ بھی سمجھائی ہو کہ ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے ملک کے ہی وسائل اور ملک کی ہی بنی مصنوعات کو اہمیت دینی چاہیے تھی۔ ہم لوگ جان ہی نہ پائے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے غیر ملکی مصنوعات کا سیلاب مسلم ممالک میں اس تیزی سے آیا کہ ہم لوگ آنکھیں بند کیے اس میں بہتے چلے گئے۔
اہلِ فلسطین کی بے لوث قربانیوں نے ہماری انکھیں کھول دیں۔ اب ادراک ہوا کہ ہم تو خود ہی اپنے ہاتھوں امتِ مسلمہ کی بربادی کا سامان کر رہے ہیں۔ اگر ملک کی اشرافیہ ذمہ دار ہے تو دوسری جانب عوام کا طرزِ عمل بھی قابلِ فخر نہیں رہا۔ یہودی پالیسی ساز اپنی ملٹی نیشنل کمپنی کے ذریعے مسلمانوں سے ہی منافع کما کر مظلوم مسلمانوں کا قتلِ عام کا سامان کرتے رہے اور ایک تیر دو شکار کرنے والا فارمولا اپنایا گیا اور ہم مسلمانوں کو سالوں بے وقوف بنائے رکھا۔ یہی وقت ہے کہ اہلِ پاکستان کو کم سے کم اپنی خواہشات اور آرزوؤں کی قربانی دینی ہوگی۔ اپنے ملک کی مصنوعات کو فوقیت دینی ہوگی۔ معیاری اور غیر...
رب کی پکڑ
میں تم سب کی شکایت اللہ تعالیٰ کے پاس جا کر کروں گی"۔ غزہ کی اس چھوٹی سی معصوم بچی کی آواز اکثر کانوں میں گونجتی ہے ،جس سے اسرائیلی فوج کی اندھا دھند بمباری نے اس کے والدین،اس کے بھائی بہن، اس کا گھر، اس کا بچپن سب کچھ چھین لیا تھا۔وہ اپنے جلے ہوئے گھر کے ملبے پر کھڑے ہو کر امت مسلمہ کو پکار رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ وہ بھی بہت جلد اپنے رب کے حضور پہنچ جائے گی لہذا جاتے جاتے وہ 57 اسلامی ممالک کے سربراہوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانا چاہ رہی تھی ۔....پیاری گڑیا! تمہارے دل سے نکلی آہ نے عرش الٰہی کو ہلا ڈالا، تمہاری پکار نے رب کی بارگاہ میں قبولیت کی سند پالی ۔ امریکہ جو کہ اسرا ئیل کا منہ بولا باپ ہے ،جس کی شہ پر غز ہ میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے آج خود اپنے گھر میں لگی آگ کے سامنے بے بس و مجبور نظر آرہا ہے۔
صاحبان عقل و دانش اس بات پر انگشت بدنداں ہیں کہ اپنے آپ کو سپر کہلانے والے ملک نے اپنے تمام تر وسائل، طاقت اور اختیار ہونے کے باوجود اس آگ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔اطلاعات کے مطابق 7جنوری 2025 کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں لگنے والی آگ پر تاحال قابو نہ پایا جا سکا ہےکیونکہ تیز ہوائیں اور خشک موسم آگ کو ایسے بھڑکا رہی ہیں جیسے کسی تندور کو دہکایا جا رہا ہو۔ ہزاروں فائر فائٹرز ۔۔۔۔سینکڑوں کی تعداد میں واٹر ٹینکر ،سینکڑوں کی تعداد میں فائر انجن اور 60 طیارے مل کر بھی اس دہکتی ہوئی آگ پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ یہ امریکی تاریخ کی تباہ کن آگ ہے جس نے لاس اینجلس کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اب تک 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 13 ابھی بھی لاپتا ہیں، 150 بلین ڈالر سے اوپر کا نقصان ہو چکا ہے ،35 ہزار صارفین بجلی سے محروم ہیں، ڈیڑھ لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ مزید ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کو وارننگ دے دی گئی ہے۔ خالی مکانوں میں جہاں آگ بجھا دی گئی ہے وہاں چوروں اور لٹیروں نے تیسری دنیا کے ممالک کی طرح لوٹ مار مچا دی ہے لہذا حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامیہ کوکرفیو نافذ کرنا پڑا ہے۔
ہیلی کاپٹر سے لی گئی تصویر میں غ ز ہ اور لاس اینجلس ایک جیسے نظر آرہے ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ غ ز ہ میں انسانوں نے اپنے ہی جیسے انسانوں پر بم گرا کر معصوم لوگوں کو شہید اور ان کے املاک کو ملیا میٹ کر دیا حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی بم گرائے گئے تاکہ معصوم زخمیوں کا علاج بھی نہ ہو سکے یہ ظلم وبربریت وہاں ڈیڑھ سال سے جاری ہے جبکہ لاس اینجلس کو راکھ کا ڈھیر بننے میں صرف چند گھنٹے لگے کیونکہ غ ز ہ کے معصوم بچوں نے بارگاہ ایزدی کی عدالت میں اپنے کیس دائر کیے تھے جو بے...
آگ کی دستک
کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں تاریخ کی بد ترین آگ نے جو تباہی پھیلائی ہے وہ ہر دل رکھنے انسان کو غمگین کررہی ہے ، مکینوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اچانک ان کے بڑے بڑے آسائشوں سے ہھرے ہوئے، ٹھنڈے ،گرم گھر جل کر خاکستر ہو جائیں گے ۔
لاس اینجلس کی ہمسایہ کاؤنٹیز میں سات مختلف جگہوں پر آگ نے تباہی مچادی ہے۔ جس میں اداکاروں اور امرا کے محلے بھی شامل ہیں۔
دولاکھ افراد نقل مکانی پر مجبورہوگئے ،55 بلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے ، ہزاروں ایکڑ زمین پر موجود ہر چیز جل چکی ہے۔
60 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہواوں کی وجہ سے آگ بجھانے کا عمل حد مشکل تھا، تین دن بعد بھی خراب موسم امدادی کاموں میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔
کیلیفورنیا میں بڑی آفت کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
متاثرہ مکینوں کو امدادی کیمپوں میں منتقل کرنے کا عمل جاری ہے ،آگ بجھانے کے لئے پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے۔
افسوسناک خبر یہ بھی ہے کہ 1000 سے زائد لوگ لا پتہ ہیں۔
مگردنیا ہر حکمرانی کرنے والی اے بڑی طاقت ہم انسانیت کی خاطر،کسی تعصب کے بغیر تمہاری آہوں کے ساتھ آہیں ملائیں گے ، تمہارے غم کو اپنا غم سمجھیں گے ، کھانے پینے کا انتظام کریں گے بستروں کا ڈھیر لگادیں گے،زخمیوں سے بھائی چارگی دکھائیں گے ان کے زخموں پر مرہم ہم بھی رکھیں گے کیونکہ ہم تو اس کے امتی ہیں جو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا گیا،اس دین کے پیروکارہیں جو ہر انسان کی عزت کرنا سکھاتا ہے۔
مگرظالموں کا ساتھ دینے والے ظالموں!
تم اس آگ کے شعلوں اور اس تباہی کو دیکھو۔۔۔
ذرا سوچو یہ آگ تو تمہاری اپنی لگائی ہوئی ہے ۔۔۔
تمہارے ہی پاس تو ایسی تباہی کے تمام ذرائع موجود ہیں۔۔۔
آگ لگانے کی ہر چنگاری تمہارے اعمال میں چھپی ہے۔۔۔
ذرا سوچوتمہارا کئی ہزار ارب ڈالر کا نقصان اس ایک معصوم جان کے برابر بھی نہیں جسے تم نے ناکردہ گناہ کے بدلے میں روند ڈالا۔۔۔
ایسے اربوں ڈالر تو تم لاشوں پر سیاست کرکے پھر کمالوگے۔۔۔۔
ذرا سوچو نسلوں کو مٹا دینے کی ہوس میں تم نے شہر مٹی میں ملا دیئے۔۔۔
ذرا سوچو زخمیوں سے بھرے ہوئے ہسبپتالوں کو شرانگیزی کا اڈہ ہونے کا بہانہ کرکے نیست ونابود کردیا پھر خیموں کو بھی آگ کی بھینٹ چڑھادیا ۔۔۔
ذرا سوچو تمہارے شرمناک مظالم نے انسانیت کی عظمت کو ذلت میں بدل دیا ۔۔۔۔
مگر اس سب کے باوجود رحم کرنے والے نے اتنی بڑی آگ میں سے 5 سے 7 کے افراد کے علاوہ ہزاروں کو بچا لیا۔
کاش اس کے رحم کاایک حصہ ہی تم نے پایا ہوتا ۔۔۔
کاش تم نے دیگر انسانوں کو اپنے کتوں کے برابر ہی سمجھا ہوتا ۔۔۔
کاش تم نے مذہب کے تعصب میں ہزاروں بے قصوروں اور معصوموں کو قتل نہ کیا ہوتا ۔
کاش تم نے انسانوں سے محبت ہمارے دین سے سیکھی ہوتی تو آج تم بھی اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل کرتے۔۔۔
کاش تم نے انصاف کا درس ہماری کتاب سے سیکھا ہوتا تو آج تم دنیا کے دلوں پرحکمرانی کرتے۔۔۔
اور شاید تمہاری دنیا بھرمیں...
من کی توانائی کیلیے’’ص‘‘۔
کسی اسکالر کا بیان نظروں کے سامنے سے گزرا کہ روح اور نفس کے لئےــ’’ ص‘‘ سے شروع ہونے والی پانچ چیزوں کو اپنی ذات میں شامل کریں جو آپکے لئے’’ وٹامن ‘‘ ثابت ہونگی۔وہ پانچ چیزیں صوم، صلوات، صدقہ، صلح رحمی، صبر ہیں۔
غور کیا تو واقعی بندہ ان پانچوں باتوں کو اپنی زندگی میں شامل کرلے تو اسکی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائے گی، اسکے تن اور من دونوں کو سکون اور تقویت بھی مل جائے گی۔
1_۔ صلواۃ جو قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے ، ہمارا اللہ رب العزت ہی تو ہمارا مالک و خالق ہے وہی ہماری سنتا ہے اس کا قرب ہی بندگی کی علامت ہے دن میں پانچ مرتبہ اسکے دربار میں حاضری دینے سے قلب کو صرف سکون ہی نہیں ملتا بلکہ ہم سرگوشیوں میں اس سے مانگتے ہیں اسکی بے شمار نعمتوں پر اشکبار شکریہ کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور ہمارا رب اپنی رحمتوں سے ہماری جھولیاں بھرتا جاتا ہے ،سبحان اللہ !
2۔ روح اور نفس کی پاکیزگی اور طاقت کے لئے دوسرا وٹامن صوم یعنی روزہ ہے جس میں بندہ صرف رب کی رضا اور خوشنودی کے لئے گرمی ہو یا سردی، دن بھر بھوکا پیاسا رہتا ہے اور روزے کی حالت میں وہ اپنے نفس کو کسی بھی بدی کی طرف جانے سے سختی سے روکتا ہے یعنی روزہ ڈھال بن جاتا ہے برائیوں کے وار سے بچنے کے لئے بلکہ اسے دوسروں کی بھوک و پیاس کا احساس بھی شدت سے ہوتا ہے اور پھر یہی کوشش اسکے لئے اجر ثواب کا ذریعہ بن جاتی ہے سبحان اللہ !
3۔ مومن حقوق العباد کے بعد حقوق العباد کی پاسداری سے ہی رب کی رضا کا مستحق بنتا ہے جو حقوق العباد کی پاسداری کا پابند ہوجائے تو وہ آس پاس کے تمام رشتوں کی طرف سے غافل نہیں رہ سکتا ہے انکے حقوق ادا کرنے کو وہ اپنے لئے لازم بنا لیتا ہے ماں باپ کا رشتہ تو سب سے افضل و اعلی ہے جس سے غافل ہوکر وہ اپنی آخرت بھی گنواسکتا ہے لیکن باقی رشتوں کا بھی خیال رکھنا اسکے فرائض میں شامل ہے جس سے غافل رہ کر وہ رب کی رضا سے محروم ہوجاتا ہے یہ غفلت اسے اس دنیا میں بھی سکون نہیں دے سکتی نہ ہی اسکے رزق میں برکت ہوسکتی ہے اور نہ آخرت کی بھلائی حاصل ہوپائے گی جبکہ صلح رحمی کرنے والے کے لئے( یہ وٹامن) اسے دنیا کے ساتھ اخرت کی خوشیاں بھی عطاکرے گی ان شاءاللہ لہزا اس وٹامن کو بھی اپنی زندگی میں شامل کرنا بے حد فائدہ مند ہے سبحان اللہ !
4۔ بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ صدقہ بلاوں کو روکتا ہے بیشک اس کا تجربہ سیکڑوں مرتبہ دیکھ بھی چکے ہیں اللہ رب العزت کے ہر حکم کے پیچھے مصلحت پوشیدہ ہے اور اسکے بندوں کے لئے دنیا وآخرت کے فائدے ہی فائدے ہیں ،مشکلات اور تکالیف میں یہ صدقہ رب کی طرف سے بندے کا مددگار بن جاتا ہے اور سامنے والے مستحق کی مدد کا ذریعہ بھی، سبحان اللہ !
5۔ زندگی...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔