وہ دونو ں مید ان ِ عرفات میں بیٹھے ہوئے تھے، پوری دنیا سے بے خبر، اپنے رب کے سامنے! آج انہیں اپنی خوش قسمتی پر کس قدر رشک آ رہا تھا، ان کی برسوں پرانی خواہش پوری ہو گئی تھی، رب نے ان کو اپنا مہمان بنا لیا تھا، حقیقت تو یہ ہے کہ مکہ آمد پر ہوٹل کے استقبالئے پر ”ضیوف الرحمن“ کی تختی دیکھ کر ہی عافیہ کا خون سیروں بڑھ گیا تھا کہ وہ رب کی مہمان ہے، آج وہ اور سعید اسی رب کی رحمت کے سائے میں میدان ِ عرفات میں بیٹھے تھے، دنیا و آخرت کی بھلائیوں کے امیدوار!!
عافیہ کو یاد تھا اس نے یہاں پہنچنے کی تیاریاں کس طرح کی تھیں، اپنے اکلوتے بیٹے کے بغیر یہ انکا پہلا طویل سفر تھا، سعید نے حج پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہیں پہلا خیال سعد کا ہی آیا تھا:
سعد کیسے رہے گا اتنے دن؟
اور سعید صاحب جھنجھلا اٹھے تھے، کیا اب بھی آپ کو سعد کی فکر ہے، بڑا ہو گیا ہے اب، تعلیم مکمل کر کے نوکری پر لگ گیا ہے، اگر بہت پریشانی ہے تو شادی کر دیجئے اسکی۔
اور اس آخری جملے نے انکی ساری کلفت دور کر دی تھی، اگلے کچھ روز انہوں نے سعد کے لئے چاند سی دلہن لانے کی تلاش میں گزار دیے، اور ابھی حج کے کاغذ بھی جمع نہ ہوئے تھے کہ انہیں اپنی تلاش مل گئی۔ ملائکہ بڑی پیاری لڑکی تھی، بڑی بڑی چمکتی آنکھیں، جب مسکراتی توآنکھوں کے دیے جل اٹھتے، اور ہنستی تو کانوں میں رس گھلتا محسوس ہوتا۔ انکی اپنی کوئی بیٹی نہ تھی، اس لئے ساری محبتیں اسی پر نچھاور کرنے کو تیار ہو گئیں۔شادی کی تیاری شروع کی تومہینوں کا کام ہفتوں میں کر لیااور ملائکہ کو گھر لا کر دم لیا۔ سعد اور ملائکہ کی جوڑی بھی خوب تھی، انہیں سعد عزیز تھا تو ملائکہ عزیز تر، ساس بہو کی روایتی دوریاں نہ تھیں، حج پر جانے سے پہلے انہوں نے گھر اسکے حوالے کر دیا، ملازمہ کے بارے میں ساری ہدایات، گھر کے اہم امور اور سب سے بڑھ کر سعد کے بارے میں!! حقیقت تو یہ ہے کہ سعد کے بارے میں کچھ زیادہ ہدایات کی ضرورت بھی نہ پڑی، انہوں نے سعد کو بہت سے کاموں میں خود انحصاری سکھائی تھی، اور باقی سب ان کا آپس کا معاملہ تھا۔
انکی حج کی تیاریوں میں دونوں نے آگے بڑھ کر ساتھ دیا تھا، چند ہفتوں میں ملائکہ ان سے مانوس ہو گئی تھی، الوداع کہتے ہوئے پیچھے رہ جانے والوں کے چہرے کچھ اداس تھے، عافیہ بیگم اور سعید انہیں دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوئے تھے، اور اب پندرہ دن ہو چکے تھے انہیں حرمین کی سرزمین پر، بیٹا بہو سے بات ہوتی تو انکے سینے میں اطمینان کی لہر اتر آتی، کتنا اچھا ہوا وہ اپنا فرض ادا کر آئے، اب کم از کم سعد کی تو فکر نہ تھی۔
عرفات کے میدان میں وہ دونوں رب کے حضور مغفرت مانگ رہے تھے، دنیا و آخرت کی بھلائیاں، اﷲ نے کتنے اچھے وقت میں ان سے یہ فیصلہ کروا لیا تھا، دعائیں مانگتے مانگتے سعید صاحب اچانک اس سے مخاطب ہوئے:
۔ ”بس اﷲ ہمیں پاک کر دے، گناہوں کا میل کچیل دور کر دے ، اور کسی نو زائیدہ بچے کی مانند کر دے“۔
۔ ”اﷲ تعالی واپس جانے کے بعد بھی ہمارے دلوں کو اسی طرح اپنی جانب متوجہ رکھے“۔ عافیہ بیگم کی دل کی دعا لبوں پر آگئی۔
۔ ”بڑی اچھی زندگی گزری ہے ہماری، کم ذمہ داریاں، اور آسان زندگی، اﷲ نے رزق ِ حلال دیا، فرائض کا پابند بنایا، کیا ہوکہ اگر اﷲ اسی پاکیزگی میں ہمیں اپنے پاس بلا لے“۔ سعید صاحب کے دل میں مچلتی کئی دنوں کی آرزو زبان پر آگئی۔
عافیہ بیگم نے گھبرا کر انکے منہ پر ہاتھ رکھ دیا:
۔ ”سعد بھول گیا ہے آپ کو؟ میں اسے کوئی صدمہ نہیں دینا چاہتی، باقی اﷲ کی مرضی۔۔ “۔
عافیہ اپنی دعاو¿ں کی کتاب کی جانب متوجہ ہو گئیں، اور سعید صاحب اپنی مناجات میں گم، وہ ساتھ ساتھ بیٹھے تھے، مگر اس موضوع کا باب عافیہ کے جواب نے بند کر دیا تھا۔ وہ جو ہمیشہ ایک سا سوچتے تھے آج جوان بیٹے کی محبت نے ان کی دعاو¿ں کو مختلف کر دیا تھا، حالانکہ انکی تمام عمر اسی طرح گزری تھی، سعید صاحب رشتہ داروں سے ملنے جاتے، یا کاروباری دوروں پر، یا سیر و سیاحت کرنے ، عافیہ بیگم انکے ساتھ ہوتیں، اگر سعد فارغ ہوتا تو وہ بھی، اور جب بھی سعد کے امتحان ہوتے یا کوئی اور مصروفیت تو انکا دل اسی میں اٹکا رہتا، وہ سعید صاحب کے ساتھ قدم بقدم چلتے ہوئے بھی اس سے مکمل آگاہ رہتیں۔
حج سے واپسی پر سعد اور ملائکہ انکے اسقبال کو موجود تھے، انہوں نے گھر کو بہترین طریقے سے سجا رکھا تھا، مبارک باد کا سلسلہ چند روز چلتا رہا، اسی دوران سعد نے بتایا کہ اسکا ٹرانسفر اسلام آباد ہو گیا ہے، سعید صاحب نے اپنے کسی دوست کے ذریعے انکی رہائش کا بندو بست کروایا، دونوں نے انہیں دعاو¿ں سے رخصت کیا، اور ابھی انہیں گئے دو ہفتے بھی نہ گزرے تھے کہ ایک روز اپنے آفس جاتے ہوئے سعید صاحب کی کار کو ایک ٹرک نے ٹکر ماری او ر وہ اﷲ کو پیارے ہو گئے، اﷲ نے دنیا کے جھمیلوں میں مشغول ہونے سے پہلے ہی انکے دل میں در آنی والی اس اچانک سی خواہش کو پورا کر دیا، جو جانے دعا کے قالب میں ڈھلی بھی تھی یا نہیں۔
عافیہ بیگم کی زندگی میں زلزلہ آگیا تھا، پچیس سالہ رفاقت تنہائی میں ڈھل گئی تھی، انہیں خود سمجھ نہ آ رہا تھا کہ اب کیا کریں۔ زمانہ عدت اسی غم اور سوچوں کے بہاو¿ میں گذر گیا، حقیقت تو یہ ہے کہ زندگی سعید کے ساتھ قدم بقدم گزری تھی، اب تو جینے کی آس بھی معدوم ہو رہی تھی،سعد ان کی کیفیت سمجھ رہا تھا، وہ اور ملائکہ ہر ہفتے لاہور آ جاتے، انکے ساتھ وقت گزارتے، ملائکہ انکے چھوٹے چھوٹے کام اپنی نگرانی میں کروا جاتی، عدت مکمل ہونے تک وہ انہیں اسلام آباد منتقل ہونے کا بھی نہ کہہ رہے تھے۔
عافیہ بیگم کی سب سے بڑی ڈھارس انکے رب نے بندھائی تھی، صدمے کے ابتدائی دنوں ہی میں انہوں نے رب سے تعلق کی گرہیں مضبوط کر لی تھیں، اپنے غم، دکھ اور صدمے کا اظہار وہ اسی رب سے کرتیں، رات کی گھڑیوں میں ان کے آنسو ان کے رخسار اور مصلّے کو بھگوتے رہتے، انہیں رب سے شکوہ نہ تھا، ہاں اس غم کا مداوہ چاہتیں تھیں، صبر ِ جمیل کی تمنا تھی انہیں! پھر اللہ کریم نے دھیرے دھیرے انہیں زندگی کی قیمت سکھا دی، سعید صاحب کا امتحان مکمل ہو چکا تھا مگر عافیہ بیگم کا پرچہ ان کے ہاتھ میں تھا، اور ان کی کامیابی کا تعلق باقی ماندہ سوالوں کے درست جواب پر تھا۔۔
زمانہءعدت میں سعید صاحب کی زندگی کے کئی اوراق ایسے بھی ان کی نظر سے گزرے، جو بیوی ہوتے ہوئے بھی ان سے اوجھل تھے، ایسے صدقات جو دایاں ہاتھ دے اور بائیں کو خبر نہ ہو، اور کچھ صدقہءجاریہ کام، اور انہیں میں یتیم بچیوں کے لئے ایک ادارہ تھا، جس کی کونسل کے ممبران نے جنازے کے بعد سعد سے ملاقات کی تھی۔ سعد نے انہیں یقین دلایا تھا کہ وہ والد کے حصّے کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرے گا۔ ادارے کی خاتون ذمہ دار بھی عافیہ بیگم سے ملنے آئیں، اور انہیں مستقبل کے کئی منصوبوں سے آگاہ کیا، عافیہ بیگم کی نگاہیں چمک اٹھیں، آئندہ زندگی کی ایک مشغولیت کا سرا ان کے ہاتھ آ گیا تھا۔
وہ چند ماہ بعد اسلام آباد آگئیں، لیکن لاہور کی مشولیت کو بھی وہ بھولی نہیں تھیں۔ تین ہفتے اسلام آباد گزارتیں اور چوتھا ہفتہ لاہور میں یتیم بچیوں کے ادارے کے کام کے لئے وقف تھا، اسی طرح انہیں کچھ وقت اپنے گھر میں گزارنے کا موقع بھی مل جاتا، جہاں سعید کے ساتھ گزرے وقت کی یادیں ان کا سہارا ہوتیں، اس گھر کے ہر گوشے سے کتنی ہی خوشگوا ر یادیں وابستہ تھیں، جہاں سعد، سعید صاحب اور وہ تھے، اور اس تکونے رشتے کے اپنے اپنے زاویے ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے پیوست نقطے تھے، جس میں ہر ایک دوسرے سے جڑا تھا۔۔
سعد کو اللہ نے یکے بعد دیگرے دو بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا تو وہ اسلام آباد ہی کر ہو کر رہ گئیں، کئی کئی ماہ لاہور آنا نہ ہوتا، بیٹی کی کمی عمارہ اور سارہ کے چہچہاتے وجود نے پوری کر دی، اور ابراہیم میں تو وہ گویا ایک مرتبہ پھر سعد کا بچپن دیکھ رہی تھیں، لیکن سعد سعید صاحب جیسا باپ نہ تھا، بلکہ ملائکہ بھی ان جیسی ماں نہ تھی، ان دونوں نے سعد کی تربیت میں دینی سوچ اور اعلی اخلاق اور معاشرت کو پیش ِ نظر رکھا تھا،مگر انکے بہو بیٹا بچوں کی تربیت سے کچھ غفلت برت رہے تھے، وہ دبے لفظوں سے کئی پہلووں کی جانب توجہ دلاتیں مگر وہ کیا کرتیں، ان دونوں نے جدید زمانے کے تقاضوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے، وہ جس طرح سعد کے لئے مثبت سرگرمیوں کا اہتمام کرتی تھیں ، سعد وہ سب اپنے بچوں کے لئے نہ کر پا رہا تھا۔ بچوں کی تفریح میں کھیل کود کی جگہ سکرین نے لے لی، لباس بھی جگ بھاتا اختیار کر لیا گیا، اور دین کی تعلیم مولوی صاحب کے سپرد کر دی گئی، عافیہ بیگم نے سمجھانا چاہا تو اسے مداخلت سمجھا گیا، وہ اپنے طور پر بچوں کو سکھانا چاہتیں تو بھی کئی رکاوٹیں سامنے آ جاتیں، سب سے بڑھ کر بچوں میں نظم وضبط کا فقدان انہیں پریشان کرتا، جوں جوں بچے بڑے ہو رہے تھے ، ان کی تشویش بڑھ رہی تھی، اور اس کا انجام یہ تھا کہ ایک مرتبہ پھر ان کی لاہور کی مصروفیات بڑھنے لگیں، یتیم بچیوں کے ادارے میں تربیت کے وہ سارے خواب پورے کر رہی تھی، جو انہوں نے اپنی نسل کے لئے دیکھے تھے، یہ سب صدقہ جاریہ بنے گا ان کے لئے، انہیں اندر تک اطمینان اترتا محسوس ہوتا، وہ لاہور میں خود کو زیادہ اطمینان میں پاتی تھیں، سعد نے کئی مرتبہ انہیں روکنا چاہا، لیکن ۔۔
وقت کا پہیہ بڑی تیزی سے گردش کر رہا تھا، سعد کی ملازمت کی مصروفیات میں کاروباری ذمہ داریاں بھی شامل ہو گئی تھیں، وہ اچھا شوہر تھا، محبت کرنے والا شفیق باپ اور بے حد دلارا بیٹا، اب بھی وہ ہر پریشانی عافیہ بیگم ہی سے شیئر کرتا، ہاں ایک قلق تھا اسے، وہ ماں کو ساتھ نہیں رکھ پایا تھا، یا وہ ہی اس کے ساتھ نہیں رہ سکی تھیں۔ اسے ذرا بھی فرصت ملتی تو سب کو ساتھ لے کر لاہور پہنچ جاتا، عافیہ بیگم سب کی آو¿ بھگت میں لگ جاتیں، اور سعد ہمیشہ اداس دل کے ساتھ واپس لوٹتا۔
سعد نے اسلام آباد میں مکان کی تعمیر شروع کی، تو سب گھر والے ہی مشوروں میں شریک تھے، وہ سب کی بات غور سے سنتا، اور ان کی رائے کو اہمیت دیتا، اسی دوران کسی کمزور لمحے اس نے عافیہ بیگم سے منوا لیا کہ نئے گھر میں وہ بھی ان کے ساتھ رہیں گی، اور پھر اس کی توجہ سب سے بڑھ کر اسی گوشے پر تھی، جسے اس نے سردی گرمی سے بچاو¿، اور بڑھاپے کی ضروریات سامنے رکھ کر بنوایا ، اس کی ایک کھڑکی لان کی جانب رکھی، اسے معلوم تھا پھول اور پودے ان کی کمزوری ہیں۔
مکین مکان میں پہنچ کر اس کو آراستہ کرنے میں لگے ہوئے تھے، عافیہ بیگم ابھی تک شش و پنج میں تھیں، اگرچہ ادارے کی ٹیم کو اپنے متوقع پروگرام سے آگاہ کر چکی تھیں، جو پودا انہوں نے خون ِ جگر سے سینچا تھا اس سے جدائی آسان نہ تھی، لیکن دو روقبل آنے والے فون نے انہیں اندر سے ہلا کر رکھ دیا تھا، جو فیصلہ مہینوں میں نہ ہوا تھا لمحوں میں ہو گیا تھا۔ سعد اور ملائکہ دونوں کو ابراہیم کے سکول بلایا گیا تھا، اشرافیہ کے سکول کی انتظامیہ کو بچوں کے منشیات میں ملوث ہونے کی رپورٹ ملی تھی، سکول کے کئی طلبا کے شیشہ ہاو¿س میں جانے کی بھی مصدقہ اطلاعات اور سمارٹ فونز میں قبیح اور فحش مواد کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا، سعد اور ملائکہ کے پیروں تلے زمین نکل گئی، ان کے قدم لڑکھڑا رہے تھے، جدید علوم کے حصول کی طلب میں انہوں نے کس اطمینان سے اس سکول کا انتخاب کیا تھا، یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ ابراہیم کے اخلاق اور کردار کے بارے میں اساتذہ اور انتظامیہ کی رپورٹ بری نہ تھی، لیکن وہ گندے اور متعفن ماحول میں موجود تو تھا اور کسی بھی مرض کا شکار ہو سکتا تھا۔آج انہیں ابراہیم کی تربیت کے لئے دادی کی معاونت درکار تھی، اور عافیہ بیگم جو بے گانے بچوں کی تربیت کے لئے ہلکان ہوتی تھیں اپنے پوتے سے کیسے لا تعلق رہ سکتی تھیں، انہوںنے بلا تردد دو روز بعد اسلام آباد منتقل ہونے کا عندیہ دے دیا، اور اس اعلان کے ساتھ ہی گھر بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ملائکہ اورسعد نے بچوں کے ساتھ مل کر اماں کا کمرہ سیٹ کروایا، ویڈیو کال سے ان کو سب کچھ دکھایا جاتا رہا اوران کی رضا مندی سے سب چیزیں ترتیب سے رکھی گئیں،ان سب کی بھاگ دوڑ عافیہ بیگم کو سرشار کر رہی تھی۔
ویک اینڈ پر سعد اور ملائکہ اماں کو لینے لاہور جا رہے تھے، اماں نے صبح ہی بتایا تھا کہ ان کی تیاری مکمل ہو چکی ہے اور وہ ان کی منتظر بیٹھی ہیں، ملائکہ ایک نظر ان کے کمرے کا جائزہ لینے گئی، اور وہ ملازمہ کو رات کے کھانے کی ہدایات دے رہی تھی، جب ابراہیم گھبرایا ہوا اس کے پیچھے آگیا:
”ماما ۔۔ ماما ۔۔ پاپا بلا رہے ہیں آپ کو ۔۔“۔
اور ابھی وہ ہدایات ہی دے رہی تھی کہ اس کی چیخ سنائی دی:
”ماما ۔۔ ماما ۔۔ دیکھیں نا پاپا کو ۔۔“۔
وہ بھاگتی ہوئی لاو¿نج میں پہنچی، سعد سینے پر ہاتھ رکھے کراہ رہا تھا، ابراہیم قریبی کلینک سے ڈاکٹر کو بلانے بھاگا، لیکن اس کے آنے سے پہلے ہی اس کی روح پرواز کر چکی تھی، ملائکہ پاس کھڑی انگلیاں مروڑ رہی تھی، اس کا چہرہ زرد تھا، موت کی المناک حقیقت نے سب کو حواس باختہ کر دیا تھا۔
اور اس شام جب عافیہ بیگم اسلام آباد پہنچی تو وہاں استقبال کا نہیں رخصت کا منظر تھا، اتنا خوبصورت گھر بنانے والا اور اسے خوابوں سے سجانے والا سعد اگلی منزل کی جانب سدھار گیا تھا، رشتہ دار آگے بڑھے اور ایک بزرگ نے ”کل نفس ذائقة الموت“ کا پیغام سنا کر جنازہ اٹھانے کا اشارہ کیا۔ عافیہ بیگم نے بس اتنا کہا: ”پیارے بیٹے اللہ کے حوالے، تو نے اتنی محبت سے بلا کر میرے آنے کا انتظار بھی نہ کیا، میں زندگی بھر تجھ سے راضی رہی اور آج بھی تیرے ایمان کی گواہی دیتی ہوں، اے اللہ تو بھی میرے بیٹے کی بخشش فرما دے، آمین“۔
سعد سے جڑا ہر رشتہ، دوست، ہمسائے، جانے انجانے سب اشکبار تھے، چند دن تک تعزیت کا سلسلہ رہا، اور پھر ایسی تنہائی کہ گھر کے در و دیوار کاٹ کھانے کو دوڑتے، بچے روتے بلکتے تو ملائکہ انہیں چپ کرواتے خود بھی بے حال ہو جاتی، اس کے سر سے سائبان اٹھ گیا تھا، اور عافیہ بیگم ٹکر ٹکر سب کو دیکھے جاتیں، اور پھر وہی ہمت جمع کر کے سب کو تسلی دیتیں، دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کا دوام!!
سارا دن وہ ملائکہ کا دل بہلاتیں اور ملائکہ انہیں خوش رکھنے کی اپنی سی کوشش کرتی رہتی، سارا اور عمارہ گھر آتیں تو ان کے غمزدہ اور اداس چہرے دیکھ کر انکا دل کٹنے لگتا، خوشیوں کے ہنڈولنے میں جھولنے والایہ گھرانہ غم کے معنی سے بھی نامانوس تھا، اب غم پڑا تو ان کے اعصاب چٹخ گئے، لیکن عافیہ بیگم نے کئی ماہ کی مسلسل کوشش سے انہیں اس رب سے جوڑ دیا جو ہنساتا بھی ہے اور رلاتا بھی، جو اس کی جانب بڑھنے والوں پر صبر انڈیل دیتا ہے ۔ وہ سارا دن سب کو وہی سبق پڑھاتی رہتیں۔
دن کی تھی ہاری جب وہ رات کو بستر میں آتیں تو ابراہیم چپکے سے انکے پاس سرک آتا، انکے کندھے دباتا، پیروں کی مالش کرتا، اور ہولے ہولے ان سے باتیں کئے جاتا، ماضی کی باتیں، اس گھر کی رونق بحال کرنے کے منصوبے اور مستقبل کے خواب! اسکی مضطرب نگاہوں اور ان کہے خطرے کو بھی وہ محسوس کر لیتیں، اور اسے سینے سے لگا کر بھینچ لیتیں، ابراہیم میرے بچے، میرے سعد کی امانت، تم سب کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاو¿ں گی، اب تو لاہور بھول گیا ہے مجھے۔
اور اس سمے انہیں میدانِ عرفات میں بیٹھے دو نفوس یاد آ جاتے جن میں سے ایک نے اک خواہش کا اظہار کیا تھا، اور دوسرا ہچکچا گیا تھا، اسے اپنا بیٹا بہت پیارا تھا۔۔ اور کسے معلوم تھا کہ ایک کی خواہش قبولیت پا جائے گی، اور دوسرے کے لئے رب کا ایک اور ہی فیصلہ ہو گا، جس بیٹے کی محبت نے اس لمحے انہیں جکڑ لیا تھا، وہ بھی ایک حسین اور نازک موڑ پر ان سے جدا ہو کر رب کے حضور پہنچ جائے گا، اور اتنے برس بعد وہ پھر محبت کی ڈور میں بندھی پوتے پوتیوں اور بیٹی جیسی بہو کی دلداری میں لگی ہوں گی، اللہ کے اگلے فیصلے کی منتظر ۔۔
اور ہر حال میں اس سے راضی۔۔
اور اسے راضی کرنے کے لئے فکر مند!!
٭٭٭
اہم بلاگز
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
مداوا
آج سارہ کی امی کی برسی تھی اسے امی بہت یاد آرہیں تھیں ۔امی کے انتقال کو 8 یا 9 سال گزر چکے تھے۔انکے جانے کے بعد انکی قدر ہوئی۔ ابّا تو جب وہ دس سال کی تھی تب ہی گزر گئے تھے۔
وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ لیکن دونوں ماں بیٹیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔وہ فیشن کی دلدادہ اور امی بڑی سادہ مزاج وہ جدید فیشن کی بات کرتی امی سادگی کا درس دیتیں۔ تو اسنے ماں کے بجائے سہیلیوں میں دل لگا لیا۔ 20 سال کی عمر میں امی نے شادی کردی میاں جی ہم مزاج ملے یوں زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔
تینوں بھائی بیرون ملک امی کو بڑے بھیا اپنے ساتھ کینیڈا لے گئے۔ ہر ھفتے وہ فون کر کے ان سے بات کرتی لیکن انکی باتوں میں وہ ربط ہی نہ رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی بڑھاپا ہے بڑھاپے میں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔
ایک دن بڑے بھیا کا فون آیا امی کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے تم آجاو۔ یہاں سب جاب پر ہوتے ہیں تم انکے ساتھ ہسپتال میں رہ جانا۔
میاں نے جانے کا بندوبست کیا اور ایک مہینے کے اندر وہ کینیڈا میں تھی اسی دن اماں سے ملنے گئی تھوڑی دیر تک وہ پہچان ہی نہ سکیں۔ بھابھی نے کہا ڈیمینشیا ہو گیا ہے (بھولنے کی بیماری) تھوڑی دیر بعد پہچانیں "کہنے لگیں تم سارہ ہونا" سارہ انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔ بھابھی بولیں "کچھ ہی لوگوں کو پہچانتیں ہیں"۔
کینسر کی آخری اسٹیج تھی انکو کمفرٹس زون میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اولڈ ہوم تھا جہاں ان ہی مریضوں کو رکھتے تھے جن کا مرض لاعلاج تھا۔ سارہ کو ویزہ ہی دو مہینے کاملا تھا ۔ وہ روز صبح جاتی اور واپسی رات میں ہوتی۔ اس نے جوانی میں امی کی ساتھ جو رویہ رکھا اس کا مداوا کرنا چاہتی تھی۔کیا دو مہینے کافی تھےاس مداوے کے لیئے؟۔ سارہ کا آخری دن تھا کینیڈا میں ایئر پورٹ جانے کے لئے نکلی بھائی جان نے گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ لی۔ سارہ کی ان سے آخری ملاقات تھی۔
تھوڑی دیر انکے بستر کیساتھ لگی کھڑی رہی انکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی امی بولیں" کہیں جا رہی ھو"سارہ نے آنسو پونچھے۔اور بولی" نہیں واش روم تک"۔ امی نے کہا"آجاو گی نا دیکھو دھوکہ نہ دینا"۔۔۔۔ ان کے یہ آخری الفاظ اس کے دل پر تیر کی طرح لگے مسافر تھی نا جانا تو تھا، وارڈ سے باہر آکر وہ بھائی جان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس وقت انکا ڈیمینشیا کا مرض نعمت لگنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر بعد بھول جائیں گی ۔ لیکن میں کیسے بھولوں گی۔ سارہ نے سوچا،،،کہ وہ زور زور سے چیخےاور کہے کہ خدارا اپنی ذات پر رحم کریں، گیا وقت پھر نہیں آتا کوئی دوسری سارہ نہ بننا اپنے بوڑھے والدین کو وقت ضرور دینا ان سے باتیں کرنا ان کے پاس بیٹھنا ایسا نہ ھو کہ وہ نہ رہیں اور وہ گزر جائیں ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہمارے ماضی کے کیے ہوئے وہ...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...