بارش کے بعد

سبحان اللہ کراچی میں بارش ہوئی اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے، اس نے رحمت کی بارش برسائی اور ہمارے اٹھے ہوئے ہاتھوں کی لاج رکھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہوئیں۔ پھوار ہوئی کم زیادہ آخر کار پیر کی صبح سے رات تک بارش کا سلسلہ رک رک کر جاری ہے۔ دلوں کو قرار ہے مگر پھر بھی کیا کیا جائے ہم ہی ناخلف لوگ ہیں۔ ہم ہی نے تیاری نہیں رکھی کسی بھی قسم کی حکومتی اداروں کو کیا کہیں یہ تو پرانی کہانی ہے بگاڑ ہی بگاڑ سدھا ر کی گنجائش ہی نہیں صرف باتیں ہیں عملی میدان میں صفر ہیں۔ پھر بھی رب کریم کی ذات ہے جو رحمت برسارہی ہے۔ احتساب کیجئے۔
“جب میں نے کہا اللہ میرا حال دیکھ
حکم ہوا اپنا نامہ اعمال دیکھ!”
کیا حکومت کیا عوام بگاڑ کی طرف ہی مائل ہے سدھا ر کی فکر ہی نہیں۔ اپنے ملک کو اپنا گھر سمجھتے ہی نہیں۔ وسائل کو تحفظ سے نہیں برتتے۔ وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ پانی بجلی، گیس اگر کم ہے تو اس کو ناپ تول کرطریقے سے استعمال کر نا چاہئے۔ سڑکوں، پارکوں، دکانوں، گھروں کی صاف ستھرائی اور مرمت کا کام جاری رہنا چاہئے۔ بارش کے آنے سے پہلے حکومتی اداروں کو متحرک ہو کر ندی نالوں۔ نکاسی آب کی تمام سہولتوں کو پہلے ہی سے کھول کر صاف کرکے بجلی کے بریک ڈا ؤن اورتاروں اور درختوں کی کٹا ئی، مرمت اور بجلی سے حادثات سے بچنے کے تمام تر اقدامات کرلینے چاہئیں اور عوام کو بھی بھرپور اسکا تعاون کرنا چاہئے تا کہ کوئی حادثہ نہ ہونے پائے عوام کو پریشانی کا سامنا نہ ہو۔ مگر یہ کیا ابھی بادل آئے ہی نہیں کہا بجلی غائب وہ بھی تا حکم ثانی اس کے ساتھ ہی پانی کی مصیبت جیسے جان حلق میں اٹکی ہو۔ بارش کے بعد چند ہی گھنٹوں میں اللہ کی پناہ! دکانوں مکانوں کا ہر طرح کا کچرااور کچرے کے جگہ جگہ ڈھیر ابلتے نالے اور ناقص ٹریفک مل کر وہ صورت حال پیدا کرتی ہے کہ بیان سے باہر۔ سارے دن کی بارش اور بجلی کی غیرموجودگی۔ عوام ویسے ہی مہنگائی کے ہاتھوں رلی ہوئی ہے۔ تمام گھروں دکانوں راستوں میں مشکلات ہی مشکلات۔ تندور بھی بند، ڈیپ فریزر اور فریج بجلی کی لمبی جدائی سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ گھروں میں بچوں، بوڑھوں اور بیماروں کی تیمار داری کرنے والے خود بیمار اور جاں بلب ہوجاتے ہیں۔ باہر نکلو تو راستوں میں گندگی، مین ہولز، بے ربط رکی پھنسی گاڑیاں، بسیں، رکشہ ٹیکسی کی جیسے کال پڑی ہو ورنہ مار ہی امار، منہ مانگے کرائے۔ ایسے میں موت میت کے گھرانے دگنا شکار ہوجاتے ہیں۔ بارش تو رحمت ہے مگر ہم نے ہماری حکومتی سرگرمیوں نے مل کر اس کو خود زحمت بنا دیا ہے آخر یہ کب تک ہو گا؟ سوچنے سمجھنے تدبیر کرنے اور عمل در آمد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اللہ اللہ کرکے لائٹ آجائے تو خبریں سن سن کر جی خون کے آنسو روتا ہے کتنا نقصان ہو رہا ہے۔ بجلی کے کھمبے، ننگی تاریں، حادثات موت کے غیر یقینی اور انہوں نے واقعات سن سن کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ کیا ان کی ذمہ داری حکومت کی نہیں؟ بلا شبہ ہمیں حکومت سے تعاون کی ہر دم ضرورت ہے۔ مگر اتنے ٹیکس لیکر عوام حقوق سے محروم رہے۔ یہ ظلم ہے بربریت ہے ہم سب کو مل کر اس بربریت کو دور کرنا ہو گا معاشرے کو پرسکون اور خوشگوار بنانا ہو گا صرف تنقید کرنا برائیاں بتانا مقصد نہیں سدھا اور سنگھار مطلوب ہے۔ خدارا مقصد حیات کو سمجھتے ہوئے عوام الناس کیلئے بھلائی کے کام کریں اور بارش کی اس رحمت کو اداس اور پریشانی میں نہ بدلیں بلکہ رہتی دنیا تک دوسرے انسان کی بھلائی میں لگے رہیں تو ہی ہماری زندگی میں امن و سکون ہو گا اور جب ہی یہ بارشیں ہمارے حق میں رحمت ہی رحمت ہونگی۔
“شرط ہے فقط کوشش پیہم
پھر جو وہ رب کریم چاہئے “

حصہ

2 تبصرے

  1. رومی تحریر ۔یوں لگتا ھے کسی نے ھمارے دل کا حال لکھ ڈالا ۔بھت درست نشاندہی

جواب چھوڑ دیں