دنیا کا سب سے بڑا روگ……کیا کہیں گے لوگ

”لوگ کیا کہیں گے“ یہ وہ جملہ ہے جس نے بہت سے لوگوں کی زندگی کو مشکل بنا دیا بہت سے خواب پورا ہونے سے پہلے ہی دم توڑ گئے، ہم ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں ہمیں خود سے زیادہ دوسروں کی فکر ہے اپنی غلطیوں کے لیے ہم وکیل ہیں لیکن دوسروں کی غلطیوں پہ جج بن جاتے ہیں۔ایسے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ دوسرے کی روح تک چھلنی ہو جائے۔کسی کی بیٹی کی شادی نہیں ہوئی تو اس سے زیادہ فکر ہمیں ہے لڑکی پچیس کی ہو گئی ابھی تک رشتہ نہیں ہوا ضرور کوئی کمی ہے بیٹی میں،یہ یاد رکھیے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی پہلی زوجہ محترمہ اور پہلی ام المومنین حضرت خدیجہؓ کی شادی 40 برس کی عمر میں ہوئی اور ان سے اللہ تعالیٰ نے 6 بچوں سے بھی نوازا جبکہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی کوئی اولاد نہ تھی۔شادی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رزق کی مانند ہے اور اللہ کی ذات جب چاہے جس کو چاہے عنایت کرے،اس بات کی فکر نا کریں کے لوگ آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں، کیا سوچتے ہیں یاد رکھیں،حضرت مریمؑ کی شادی نہیں ہوئی لیکن وہ واحد خاتون ہیں جن کے نام سے پوری سورت منسوب ہے،اگر خاوند کا نا ہونا نقص ہوتا تو ان کا ذکر قرآن پاک میں نا آتا۔اور اگر کسی کی بیٹی کا رشتہ طے ہو جائے تو کہتے ہیں اتنی کیا جلدی تھی شادی کی، ضرور کہیں چکر ہو گا اس کا جو جلدی جلدی بوجھ اتار رہیں ہیں!شادی ہو جائے اور اولاد نا ہو تو کہتے ہیں لڑکی میں کوئی نقص ہے حالانکہ اولاد مرد کے نصیب سے ملتی ہے اور یاد رکھیے کہ حضرت عائشہؓ کی شادی رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے کم عمری میں ہوئی لیکن رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اور اگر کسی کی بیٹی کو طلاق ہو جائے تو افسوس کا اظہار بھی ایسے لفظوں میں کرتے ہیں کہ دوسرے کو اسکی نظروں میں ہی گرا دیتے ہیں۔کیا رشتہ ٹوٹ گیا؟؟ ہمیں تو پہلے ہی پتا تھا ان کی بیٹی کے لچھن ہی ایسے ہیں، ہو گا چکر کسی اور سے اسی لیے تو طلاق لے لی ورنہ نبھا لیتی،یہ یاد رکھیے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی دو بیٹیوں کو طلاق دی گئی تھی حالانکہ وہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی صاحبزادیاں تھیں۔بیٹی کو پڑھایا نہیں جاہل لوگ ہیں آج کل تو تعلیم لڑکیوں کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی لڑکوں کے لیے!کیا لڑکی کو یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے دیا لو بھلا لڑکیوں کو بھی کوئی اتنا پڑھاتا ہے اب دیکھنا ہاتھ سے نکل جائے گی پھر یہ پچھتائیں گے!اتنا گورا رنگ ہے اس کا اب اتنا بھی نہیں ہونا چاہیے دیکھنا اب نخرے دیکھائے گی!اُو ہو اتنا سانولا رنگ ہے ان کی بیٹی کا،بچیوں کا رنگ تو گورا ہی ہونا چاہیے، اب کون کرے گا اس سے شادی،کیسے ہو گا اس کا رشتہ گھر ہی بیٹھی رہے گی!
بیٹی ہوئی ہے؟؟ لو جی یہ تو لڑکی ہی منحوس ہے جو پہلی بیٹی پیدا کر دی خاندان کو وارث نہیں دیا اب لڑکیوں کی لائن لگائے گی!کیا لڑکا پیدا ہوا؟؟ رحمت نہیں آئی ان کے گھر، نصیب والوں کی پہلی اولاد بیٹی ہوتی ہے،نعمت ملی لیکن رحمت سے محروم ہیں!لڑکا کوئی کام نہیں کرتا ہم نے تو کہا تھا تعلیم کے ساتھ ہنر بھی سکھا دو اب ڈگریاں سنبھال کے بیٹھا ہے!لڑکے کا رنگ اتنا گورا،لڑکی ہی لگتا ہے بالکل اور اب اسے لڑکی بھی ہیروئن چاہیے __ ہائے ان کا لڑکا اتنا کالا اور جناب کی ڈیمانڈ ہو گی کہ بیوی گوری ملے اب سیاہ اور سفید کا کیا جوڑ بھلا!دوسرے کو تکلیف میں دیکھیں تو کہتے ہیں اعمال کی سزا مل رہی،خود پہ کوئی آفت آئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان ہے اور وہ اپنے پسندیدہ بندوں کو آزماتا ہے!
دوسرا جنت میں جائے گا یا دوزخ میں یہ فیصلہ بھی ہم کر لیتے ہیں!
دوسرے کے لیے مکافات عمل ہمیں یاد رہتا ہے مگر افسوس ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا ہمارے لیے بھی گول ہے!بعض لوگ غیر ضروری طور پر دوسروں کی اصلاح کرنے میں مشغول ہوتے ہیں، کیا ہی عمدہ بات ہو کہ وہ دوسروں کے بجائے اپنی اصلاح پر توجہ دیں تا کہ معاشرے کی اصلاح کا کام صحیح معنوں میں شروع ہو سکے!دنیا میں اعلی مقام انہی لوگوں نے حاصل کیا ہے جنہوں نے خود اپنے آپ پر تنقید کی اپنا محاسبہ خود کیا ویسے بھی جب دوسرا تنقید کرتا ہے نقص نکالتا ہے تو انسان ردعمل کا شکار ہو جاتا ہے، انسان
اپنے اوپر خود تنقید کرے اپنی غلطیاں خود نکالے تو جتنا زور اور جتنا وقت وہ دوسروں سے اس بحث میں لگائے کہ وہ بالکل صحیح ہے اس میں کوئی نقص نہیں ہے وہی وقت، وہی کوشش وہ اپنے آپ کو درست کرنے اور اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے میں لگا سکتا ہے!دوسروں کو آئینہ دیکھانے کی بجائے خود آئینہ دیکھیں!ہمارے اطراف میں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جس کی ہمیں مکمل آگاہی نہیں ہوتی اسلئے کسی کے بظاہر نظر آنے والے عمل پر فیصلہ نا سنائیں، کیونکہ اللہ تعالی کسی کی مجبوریوں، پریشانیوں اور تکلیفوں کو ہم سے بہتر جانتے ہیں!اگر آپ حدود اللہ کا احترام کرتے ہیں اور سرکشی اختیار نہیں کرتے
اگر آپ ہر حال میں کسی بھی قیمت پر گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اگر آپ فتنہ و فساد سے بچنے کیلئے محتاط راستہ اختیار کرتے ہیں تو پھر کسی کی بھی منفی باتوں کا اثر قبول نہ کریں اور یہ نا سوچیں لوگ کیا کہیں گے، اگر آپ اللہ کے سامنے مطمئن ہیں تو پھر بے فکر ہو جائیے کہ دنیا میں کس کس کو آپ کے کاموں پر اعتراض ہے کون کون آپ پر طنز کے تیر برسا رہا ہے کیونکہ جن لوگوں کی باتوں کو آپ اپنے اوپر اتنا حاوی کرتے ہیں وہ آپ کے مرنے پہ آ کے اِنّا لِلّہِ وَاِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن کہنے کی بجائے اس بات پہ غور کریں گے کہ کھانے کے لیے کیا مل رہا ہے۔ اتنی گرمی میں پنکھا لگا ہے کہ نہیں!خوش رہیں اور دوسروں کو خوش رہنے دیں جس قدر ہو سکے آسانیاں بانٹیے تا کہ آپ کی اگلی منزل بھی آسان ہو!

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں