”میں وہ آنکھ کہاں سے لائوں “

نبی محمدﷺ  کے فرمان کے مطابق امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے اگر اسکے ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم اس تکلیف  کو محسوس کرتا ہے(مفہوم (

بحیثیت امت مسلمہ ہمارے دل میں امت مسلمہ کا وہ درد موجود نہیں ہے جو ہونا چاہیے تھا۔

 ایک وقت تھا کہ جب علماء حضرات مساجد کے منبر پر بیٹھ کر عام مسلمانوں کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے درس دیا کرتے تھے۔جب سے علماء حکمران طبقے کی ڈیوڑهی پر ماتھا ٹیکنے لگے اپنے فرائض سے غافل ہوگئے۔ لوگ مزاروں پر جاکر اپنا ایمان برباد کرتے رہے ،جعلی عاملوں کے کاروبار چمکتے رہے ،نوکری اولاد اور گھر کی خوشیوں کیلئے عورتوں نے اپنی عصمتیں لٹادیں۔چوری، رشوت، کرپشن، دوسروں کا حق مارنا اور زنا جیسے گناہ عام ہوتے چلے گئے اور معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا، لیکن علماء  کو اپنے فرائض  یاد نہ آئے۔

ایک سروے کے مطابق نائن الیون کے بعد مغربی ممالک میں تیزی سے قبول کیا جانے والا مذہب اسلام ہے کیونکہ ان ممالک نے اسلام کی ساری خوبیاں پہلے سے اپنا لی تھیں اور اسی بنیاد پر وہ ترقی کر رہے ہیں اور جب اسلام کی خوبیاں انکے سامنے آشکار ہوئیں تو انھوں نے بلا جھجک اسے قبول کرلیا۔

بات ہورہی تھی امت مسلمہ کے درد محسوس کرنے کی۔۔۔۔ جب ہمارے اپنے ملک کی معاشرتی حالت اس قدر ابتر ہو چکی ہےاور ملک کی اکثریت معاشرتی ظلم وستم کا شکار ہے ہر وہ جسے کسی بھی حیثیت میں اختیار حاصل ہے وہ اپنے ماتحت کا استحصال کررہا ہے۔ ایسے حالات میں ہم اس قابل ہیں کہ دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف  آواز اٹھائیں؟۔آج دنیا میں مسلمان ہر جگہ یہود و ہنود کے ظلم وستم کا شکار ہیں۔لیکن کہیں سے انکے حق میں آواز بلند نہیں ہوتی۔

کچھ روز قبل سوشل میڈیا پرایک تصویر دیکھ کر اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ وہاں ایک خاتون  نے عالمی طاقتوں  سے مطالبہ کیا کہ کشمیر میں پیلٹ گن استعمال روکا جائے کہ اس سے معصوم بچےاور بڑے اپنی آنکھوں سے محروم ہورہے ہیں ۔یہ دیکھ کر اپنی بےحسی پر افسوس ہوا کہ میں وہ آنکھ کہاں سے لائوں جو اس ظلم وستم کو دیکھ کر اس پر آواز اٹھا سکے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں