نصب العین

قومیں دنیا میں عروج کسی نہ کسی نصب العین کے تحت حاصل کرتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ امت مسلمہ کی سر بلندی کا دور جو صدیوں پر محیط ہے، اسی صورت قائم و دائم رہا کہ انہوں نے ظلم کے بجائے اسلامی اصولوں کے تحت حکومت کی، اللہ اور اسکے رسول کی ناموس پر کوئی سودے بازی نہیں۔ خاتم النبیین محمدﷺ کے دین کے نفاذ کو انسانیت کی نجات کا ذريعہ سمجھا اور جب اس راہ پر چلنے سے انکے قدم ڈگمگائے تو عبرت کا نشان بنا دیئے گئے۔
” جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کرے گا ہم اسکی عزت کریں گے اور جو ان کی عزت نہیں کرے گا وہ ہمارا دشمن ہوگا“
یہ ہیں مصرکے پہلے جمہوری صدر محمد مرسی شہید جنہوں نے اقوام متحدہ میں پہلی تقریر کرتے ہوئے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ مصر کی آنے والی نئی حکومت کس نصب العین کے تحت کام کریگی ۔ یہ الگ بات ہے کہ مرسی کی حکومت کو کام کرنے کا موقع نہ ملا ، لیکن انکے تختہ الٹنے سے لیکر قیدو شہادت تک یہ بات ثابت ہوگئی کہ آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے والے اور حرمت رسول پر فدا ہونے والے شخص سے آج بھی غیر مسلم ڈرتے ہیں۔وہ ان اقوام کی آنکھ میں کھٹکتا ہے اور وہ اس سے جینے کا حق چھین لیتے ہیں ۔
بات ہورہی تھی نصب العین کے تعین کی کہ کس طرح قومیں اپنی راہیں متعین کرتی ہیں لیکن پاکستان کی بدقسمتی کہ لاالہ الااللہ کے نصب العین پر حاصل کیا جانے والا ملک آج تک اپنی راہ متعین نہ کر سکا۔ ہر آنے والی حکومت غیروں کے اشاروں پر ناچنے میں مصروف رہی۔نہ کسی کونصب العین کی فکر رہی اور نہ اس راہ پر چلنے کی کوششیں نظرآئیں۔۔
موجودہ تبدیلی حکومت نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا تو دل میں تسلی سی ہوئی کہ کاش اب ملک اپنے اصل نصب العین کی طرف بڑھنے لگے گا۔ لیکن یہ جعل ساز پچھلی حکومتوں سی دو ہاتھ آگے ہی نکلے۔ اپنے آقاؤں کو خوش رکھنے کیلئے اپنے نصب العین سے کمپرومائز کرنے کیلئے ہر دم تیار۔ پچھلی حکومت کی روش پر چلتے ہوئے حکومت اپنے شاہی اخراجات پورے کرنے کیلئے ہر جگہ کشکول لیکر بھیک مانگ رہی ہےاور بدلے میں آئی ایم ایف کےکہنے پرغریب عوام پر ٹیکسز کی بھرمار اور ملک کو امریکہ کے پیر کی جوتی بنانے کی سر توڑ کوششیں کر رہی ہے۔ یہ ریاست مدینہ کے دعویدار ہیں جو نہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کر سکتے ہیں نہ ایمانی سرحد کی۔انکی حکومت میں ہر حرام کام حلال کا درجہ رکھتا ہے اور ہر حلال کام حرام کا۔۔الیکشن سے پہلے کے وعدوں اور الیکشن کے بعد کے کارناموں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آج اٹھانوے فیصد عوام کو بھوک، غربت اور جہالت کا سامنا ہے اپنے ہی ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ظلم وستم کا نشانہ بننے کا خوف ہے۔ اپنی عزت و عصمت کے لٹ جانے کا خوف ہے۔اپنے گھر ،کاروبار اور دکانوں کے بلڈوز ہو جانے کا خوف ہے۔ اپنی اولاد کے ایمان کے لٹ جانے کا خوف ہے کیونکہ ملک میں قادیانیت اسلام کے بھیس میں موجود ہے اور اسے حکومتی سرپرستی حاصل ہے ۔فقر و فاقہ انسان سے بہت کچھ کروالیتا ہے پیٹ کی آگ جہنم کی آگ پر غالب آجاتی ہے۔ انسان اپنی بھوک برداشت کرلیتا ہے لیکن اولاد کو بھوک سے تڑپتا اور بلکتا دیکھ کر انسان ہر حد پار کرنے کو تیار ہو جاتا ہے اپنے ایمان کا سودا کرنے کو تیار ہو جاتا ہے ۔ان حکمران نے عوام کو دو وقت کی روٹی کھانےکمانے کے قابل شاید اسی لئےنہیں چھوڑا کہ وہ نعمت ایمان کا سودا کرلیں۔ قدرت کی نعمتوں پر قابض حکمران ہر چیز کو ٹیکس کے شکنجے میں جکڑنے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ دراصل رب کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں