پہنچی وہیں پہ خاک ۔ ۔ ۔ ۔

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اقرار بالکل اسی طرح کرنا پڑجاتا ہے جیسے دن میں دن کو دن ماننا اور رات میں رات کو رات تسلیم کرنا کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جو کچھ بھی کہا جائے گا، کہنے والا اس کے بر عکس ہی کرے گا خواہ زمین آسمان سے جا ملے یا آسمان زمین پر آ گرے۔
جب پاکستان بنانے کی تحریک اپنے عروج پر تھی کہ تو ہر فرد و بشر کے لبوں پر ایک ہی نعرہ تھا کہ جو خطہ زمین ہم حاصل کرنا چاہ رہے ہیں اس کو حاصل کرنے کا مقصد صرف اور صرف اس نظام کو نافذ کرنا ہے جو اللہ کے رسول لے کر آئے لیکن زمین و آسمان اس بات کے گواہ ہیں کہ جس سرزمین کو اللہ کا نام لے کر حاصل کیا گیا اور جس کیلئے فرزندان اسلام نے بے پناہ قربانیاں پیش کیں، اس نظام کو 71 سال گزرنے کے باوجود بھی ایک لمحے کیلئے بھی اللہ کے نام پر حاصل کی گئی زمین پر نافذ نہیں کیا گیا۔
پھر اسی قربانی کو 1970 میں یہ کہہ کر طلب کیا گیا کہ پاکستان کا دوسرا مطلب “اسلام” ہے کیونکہ اس سرزمین کو اللہ کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اس لئے پاکستان کو “اسلام” کہا جائے یا اسلام کو “پاکستان”، بات ایک ہی ہے لہٰذا جو گروہ بھی پاکستان (مغربی پاکستان) کے خلاف ہے وہ دراصل اسلام کے خلاف ہے اور جو اسلام سے پھر جائے وہ “مرتد” ہوا اور اسلام سے ارتداد کی ایک ہی سزا ہے اور وہ سروں کو قلم کر دینا ہے۔ پاکستان (اسلام) سے محبت کرنے والے اس نعرے کے فریب میں ایسے ہی آئے جیسے تقسیم ہند کے وقت آئے تھے اور ان کے نزدیک ہر وہ فرد جو پاکستان کی امتیازانہ پالیسیوں اور رویوں پر نالاں تھا اور اپنے حق میں 6 نکات کو اہمیت دیتا تھا وہ بھی خارج از اسلام تصور کیا گیا اور یوں ایک مرتبہ پھر زمین مسلمانوں کے خون سے رنگ دی گئی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ 1947 میں زمین کو مسلمانوں کے خون سے رنگنے والے غیر مسلم تھے لیکن 1971 میں سرزمینِ پاکستان کو مسلمانوں کے خون سے خود مسلمانوں نے رنگا اور ہندوؤں نے بہنے والے خون سے ہولی کھیل کر اپنے سینے کی اس آگ کو بجھایا جو تقسیم کے بعد سے ان کے سینہ پُر کینا میں قیامت اٹھائے ہوئے تھی۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کے بعد پاکستان میں جتنی بھی تحاریک چلیں اس میں اسلام ہی جوش و ولولے کا سبب بنا رہا اور پروانہ ہائے اسلام اسی طرح دیوانہ وار شمع اسلام کے گرد جل جل کر مرتے رہے لیکن جس نعرے پر حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں، اس کو عملی طور پر نہ تو اس ملک میں نافذ ہونا لکھا گیا تھا اور نہ ہی دور و نزدیک ایسے آثار دکھائی دیتے ہیں کہ وہ اللہ کے نام پر حاصل کئے گئے خطے پر نافذ کیا جاسکے گا۔
پاکستان بنانے یا پاکستان بچانے کے نام پر تحریکیں یا تو نظریہ اسلام کے سہارے چلتی رہیں یا پھر ایک نعرہ مستانہ “احتساب” پر عوام کو بیوقوف بنایا جاتا رہا اور عوام بصد رضا و رغبت بیوقوف بنتے رہے اور اس فریب میں مبتلا رہے کہ ظالموں، چوروں، ڈاکوؤں، لٹیروں اور قزاقوں کا لازماً احتساب ہوگا، ان کے سینے اور پیٹ چاج ہونگے اور ان سے لوٹی گئی دولت نکال کر ملک کے خزانوں میں واپس ڈالدی جائے گی اور اس طرح ایک جانب ملک مالا مال ہوجائے گا اور دوسرے جانب عوام کے پژمردہ اور مرجھائے ہوئے چہروں پر خوشیاں رقص کرنے لگیں گی لیکن تاریخ نے ثابت کیا کہ یہ بھی پُرفریب نعرے ہی تھے اور احتساب کے نام پر ٹیکسوں میں اضافہ کرکے لٹروں، چوروں اور ڈاکوؤں کی سزائیں بھی غریب عوام ہی کو بھگتنا پڑیں جس کا سلسلہ آج تک دراز ہے اور صور پھونکے جانے سے ایک لمحہ پہلے تک ان سزاؤں کے ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
پاکستان میں ہر سیاسی جماعت کو عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کیلئے ہمیشہ دو چیزوں کو سہارا لینا جیسے جزولاینفک بن کر رہ گیا ہے اور جب تک کوئی بھی جماعت دو نعروں کا سہارا نہیں لیتی اس وقت تک وہ عوام میں کوئی مقام یا جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔
ایک نعرہ، نعرہ اسلام ہے خواہ اس کو کسی بھی جزدان میں لپیٹ کر عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ اللہ کا نظام، نظام مصطفےٰ ص، شریعت محمدی ص، ریاست مدینہ یا “کتاب”۔ دوسرے نمبر پر امریکہ کی پُر زور مخالفت۔ یہ وہ دو نعرے ہیں جس کی بنیاد پر ہر بڑی سیاسی جماعت نے پاکستان میں اپنی مقبولیت کا گراف آسمان کی جانب سیدھا کیا لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس جس سیاسی پارٹی کو ان دو نعروں پر مسند اقتدار تک پہنچایا یا اس حیثیت میں آنے کے اسباب فراہم کئے کہ وہ اپنے دعوؤں کو عملی جامہ پہنا سکیں یا ایسے راستوں کی جانب گامزن ہو سکیں جہاں سے ان کی منزل قریب سے قریب تر ہوجائے، وہ اپنے سارے دعوؤں سے منحرف ہو گئے اور عوام کو مایوسی کے اندھیاروں میں دھکیل کر تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر گئے۔
موجودہ حکومت کے اقتدار تک پہنچنے کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ امریکہ کی ہر پالیسی کی مخالفت بھی رہی تھی۔ ان کے ڈرون گرانے کے دعوے، ہر قسم کے ناطے توڑنے کی باتیں، اُس کی جنگ میں شریک نہ ہونے کا عزم، اس سے مالی امداد نہ لینے کے ارادے، نیٹو کی سپلائی کو عملاً روکنے کے اقدامات جیسے مظاہرے موجودہ حکومت کی مقبولیت کا سبب بنے۔ طالبان سے قربتوں کے دعوے اور ان کے خلاف اٹھائے جانے والے سخت اقدامات کی مخالفت شہرت میں اضافہ کرتی رہی۔ بلاامتیاز بے رحم احتساب اوج ثریا سے ہمکنار کرتا رہا اور ریاست مدینہ بنانے کے دعوے شہرت میں چار چاند لگاتے رہے لیکن بات وہیں آکر ختم ہوئی کہ آج تک پاکستان بنانے اور پاکستان بچانے کی جتنی بھی تحاریک اس ملک میں چلتی رہیں اور جن جن دعوؤں اور وعدوں کا سہارا لیا گیا ان پر کسی ایک پارٹی یا مسند اقتدار تک پہنچنے والی کسی بھی سیاسی جماعت نے عمل کر کے نہیں دیا یا باالفاظ دیگر وہ عوام کی نفسیات کا پورا پورا فائدہ اٹھا کر ہوس اقتدار کی بوالہوسی کو تسکین پہنچانے کے علاوہ کچھ کرتی نظر نہیں آئی۔
ایک ایسی حکومت جس کی اصل وجہ شہرت ہی افغانستان میں امریکی مداخلت کی مخالفت رہی ہو، جو اقتدار پر براجمان ہو کر ایک سال تک یہ ثابت کرتی رہی ہو کہ اس سے بڑی امریکی مخالف جماعت کوئی بھی نہیں، آج وہی امریکہ کے آگے یہ کہہ کر سرنگوں ہوجائے کہ “پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو از سر نو استوار کرنے کا وقت آ گیا ہے” تو کتنی حیرت اور حیرت سے بڑھ کر کتنے دکھ کی بات ہوگی کہ جو قوم اس بات پر خوش تھی کہ نئے پاکستان میں اب امریکہ کا عمل دخل بس اتنا ہی رہ جائے گا جیسے دنیا کے دیگر ممالک کا ہوا کرتا ہے۔
بدھ کی رات گئے امریکی ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں دو طرفہ بھروسہ چاہتے ہیں۔ بہت ضروری ہے کہ آپ پاکستان کے نقطۂ نظر سے آگاہی حاصل کریں۔
اس سے پہلے عمران خان نے کیپیٹل ہِل میں پاکستان “کاکس” سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں پہلے پاکستان کے بارے میں غلط فہمی پائی جاتی تھی اور ماضی کی حکومتوں نے امریکہ کو زمینی حقائق سے آگاہ نہیں کیا۔ وزیر اعظم کا یہ جملہ بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرنے کیلئے کافی ہے کہ “امریکہ کے ساتھ تعلقات کو ازسرنو استوار کرنے کا وقت آ گیا ہے”۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان کی مشترکہ پریس بریفنگ کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کا اخباری نمائندوں کو یہ جواب کہ “اس حکومت سے قبل جو بھی حکمران تھے کیونکہ وہ امریکہ کی پالیسیوں پر اس طرح عمل نہیں کرتے تھے جس طرح ہم چاہتے تھے اس لئے ہم نے پاکستان کی امداد بند کردی تھی لیکن موجودہ حکومت کیونکہ ہماری ہر پالیسی کو تسلیم کرتی ہے اس لئے ہم نے پاکستان کی امداد بحال کر دی ہے”، بھی بہت معنی خیز ہے اور اس بات کا کھلا ثبوت کہ موجودہ حکومت نے اپنا ریموٹ کنٹرول مکمل طریقے سے امریکہ کے حوالے کرنے پر رضامندی کا اعلان کردیا ہے۔
وہی بات جسے آغاز میں عرض کیا گیا تھا کہ پاکستان کے قیام سے تا حال، جس جس سیاسی پارٹی نے عوام کے سامنے جو جو وعدے اور دعوے کئے، مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد اسی سیاسی گروہ یا پارٹی نے اس کے برعکس اقدامات اٹھائے، وہ اب اسی طرح صحیح ثابت ہو رہی ہے جس طرح ماضی میں ثابت ہوتی رہی۔ ایک ایسی حکومت جس کی ساری سیاسی جد و جہد کا انحصار امریکی مخالفت پر تھا، آج وہی حکومت ساری حکومتوں سے دو قدم بڑھ کر امریکی طرفداری کرنے پر آمادہ و تیار ہے۔ ان تمام اقدامات کی روشنی میں جو اب تک موجودہ حکومت اٹھاتی رہی ہے اور جو مستقبل میں اٹھائے جانے کے امکانات ہیں، یہی کہا جاسکتا ہے کہ “پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا”۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں