عورت پر تشدد کم ظرفی کی نشانی ہے ۔عورت پر ہاتھ اٹھانا مردانگی نہیں بلکہ ذہنی بیماری ہے، ایسے مردوں کی تربیت میں فالٹ ہوتا ہے ۔یا تو وہ ایسے ہی ماحول میں بڑے ہوتے ہیں یا کوئی نفسیاتی مسئلہ ہوتاہے۔۔۔۔۔ ۔عورت ماں بھی ہے بہن بھی بیٹی بھی اور بیوی بھی۔ یقیناً ہر روپ میں عورت قابل احترام ہے ۔جس گھر میں عورت کی عزت نہ کی جاتی ہو ،عورت تکلیف میں ہو وہاں برکت نہیں ہوتی ۔
لڑکا ہو یا لڑکی بیٹا ہو یا بیٹی سب کی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے اور تربیت کرنے والی ماں بھی عورت ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔لڑکوں کو عورت کی عزت کرنے کی تمیز سکھانا اور عورت کو عورت کی عزت کرنا سکھانا ماں باپ اور ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ،پالیٹیکل پارٹیز اور میڈیا سب کی ذمہ داری ہے ۔
عورت بھی عورت کا استحصال کرتی ہے ۔۔۔۔۔ایک شادی شدہ مرد کی بیوی کی موجودگی میں اس مرد کے ساتھ دوستی اور بے غیرتی کے ساتھ فلرٹ کرنے والی بھی عورت ہوتی ہے ۔ بیٹے یا بھائی کو اس کی بیوی کے خلاف اکسانے والی بھی عورت ہوتی ہے۔
ایسے واقعات میں ان پڑھ ،پڑھے لکھے ،مذہبی اور غیر مذہبی ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔۔۔۔۔مذہبی کا مطلب بس ظاہری چیزوں پر عمل کرنا ہے جبکہ اسلام ایک دین ہے اور جو ہر معاملے میں بیلنس کے ساتھ گائیڈ کرتا ہے ۔معاشرہ حقیقی معنوں میں دین پر عمل کرنے والا نہیں بلکہ ظاہری معنوں میں مذہبی ہے ۔۔
اللہ کے نبی صلی اللہ وسلم نے خطبہ حجتہ الوداع میں یہ ہدایت کی کہ اپنی عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا ۔۔۔۔ خطبہ حجتہ الوداع ویمن رائٹس کا سب سے پہلا چارٹر ہے ۔اس سے پہلے کسی نے عورت کے لئیے آواز نہیں اٹھائی ۔۔۔۔۔لہذا دین کے حقوق سے باہر اگر کوئی حق مانگے گا تو اسے رسوائی ہی ملے گی ۔۔۔۔ضرورت ہے کہ پہلے دین کے دیے ہوئے حقوق دیے جائیں اور پھر اس دائرے میں معاشرتی ضرورت کے مطابق قانون سازی کی جائے اور جو اس پر عمل نہ کرے اسے سزا دی جائے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ بحیثیت انسان عورت ہو یا مرد حقوق سب کے لئیے ہیں ۔۔۔۔
عورت کے حق کے لئے افراط و تفریط کے ساتھ خوشنما نعرے مسائل حل کرنے سے زیادہ نئی نسل کو باغی بنارہے ہیں ۔۔۔۔۔
فیملی سسٹم کو کمزور کررہے ۔
بحیثیت انسان سب کے حقوق اور سب کے کچھ فرائض ہیں۔جہاں اللہ کاڈر اور توازن (بیلنس ) نہیں ہوگا وہاں مسئلہ ہوگا
حق دینے میں ڈنڈی مارنا اور زیادتی غلط ہے تو حق لینے میں بھی افراط و تفریط کا شکار ہونا اور زیادتی کرنا غلط ہے ۔