نوٹ؛۔ موضوع کی طوالت، اہمیت و افادیت کے پیش نظر اس مضمون کو دو قسطوں میں پیش کیا جارہا ہے۔پہلی قسط میں تخلیقی طریقہ تدریس کی مبادیا ت،تخلیقی سوچ اور تخلیقی تدریس کے لئے درکار ضروریات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
تدریس ایک با کمال اور تخلیقی شعبہ ہے۔ درس و تدریس تخلیقی عمل سے گزر کرتاثیر کا درجہ پاتی ہے۔ موثر تدریس کے لئے استاد کواپنے مضمون پرمکمل لیاقت کے علاوہ تدریسی طریقوں اور مہارتوں سے بھی واقف ہونا ضروری ہوتا ہے۔اناتول فرانس (Anatole France)کے مطابق ”فن تدریس کا اہم مقصد طلبہ میں فطری تجسس کی بیداری ہے تاکہ وہ اپنی آنے والی زندگی آسودگی اور اطمینان سے بسر کر سکیں۔“(The whole art of teaching is only the art of awakeinginng the natural curiousity of the young minds for the purpose of satisfying it afterwards). ایک منصوبہ بند تدریس کے ذریعے جہاں فطری تجسس کے سوتے پھوٹتے ہیں وہیں تخلیقی فکر کی بنیادیں بھی استوار ہوتی ہیں۔بچوں میں تخلیقی فکر کو مہمیز کرنے میں نصاب سے زیادہ اساتذہ کا کردار اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔تعلیم ایک بہت ہی وسیع میدان ہے جہاں ہر دن نت نئے تجربات اور نظریات وجود میں آتے رہتے ہیں۔ہر دن مختلف مشورے اور جدید اصطلاحات سے اساتذہ کو روشناس کرنا گویا محکمہ تعلیم کے لئے اب ایک عام بات ہوچکی ہے۔تعلیمی میدان میں جدت طرازی سے کام لینے کے ساتھ ساتھ ہم عصر تعلیمی نظریات سے آگہی بھی اساتذہ کے لئے ضروری ہوتی ہے۔تخلیقی تدریس کی انجام دہی کے لئے اساتذہ کودنیا بھر کی تعلیمی اور تدریسی عمل کے ارتقاء میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے واقف ہونا ضروری ہوتا ہے۔ وہ اساتذہ تخلیقی تدریس کے فرائض احسن طریقے سے ا نجام دے سکتے ہیں جنہیں شعور ہوتا ہے کہ ان کا معاشرے کی جدید سوچ والے طبقے سے تعلق ہے۔
درس و تدریس جسے احقر تعلیمی سائنس سے تعبیر کرتا ہے اوریہ سائنس تدریسی عمل میں دیگر علوم (مضامین) سے زیادہ ہر پل ذہنی طور پر تیار رہنے کا تقاضہ کرتی ہے۔آج تک کوئی بھی قوم اپنے تعلیمی ماہرین اور اساتذہ کی سوچ اور معیار سے زیادہ بلند نہیں ہوئی ہے۔ اساتذہ کے معیار کے مطابق ہی معاشرے کی ترقی ہوتی ہے۔ سماج کی ترقی کے لئے ہر زمانے میں صاحب نظر اساتذہ اور تعلیمی ماہرین کی بے حد ضرورت ہوتی ہے۔اساتذہ کے لئے تخلیقی تدریس کا ادراک ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے علم کو تنقیدی اور تخلیقی انداز میں استعمال کر سکیں۔تدریس ایک دانشورانہ کام ہے۔ایک بہتر استاد تخلیقی حکمت عملی کو بروئے کار لاتے ہوئے مشکل مواد کو بھی کم وقت میں طلبا ء تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کرتا ہے۔ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل اساتذہ اکتساب کوبلندیوں تک پہنچادیتے ہیں۔
کسی بھی جماعت میں پائے جانے والے طلبہ کے تجربات،مشاہدات،اہلیت،فہم و ادراک کبھی بھی ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں۔کمرۂ جماعت کا یہ تنوع اکتسابی ماحول کے لئے رکاوٹ نہیں بلکہ ایک وسیلہ (Resource)کا کام کرتا ہے۔ جہاں افکار و معلومات میں تنوع کے باعث طلبہ کے لئے اکتساب کا میدان وسیع ہوجاتا ہے وہیں اساتذہ کے لئے اکتسابی عمل کو مہمیز کرنے میں یہ تنوع نہایت معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔اس پس منظرمیں استاد کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے۔کمرۂ جماعت میں واقع طلبہ کے تنوع کا علم استاد کے لئے نہ ضروری بلکہ لازمی ہوتا ہے۔ استاد کمرۂ جماعت کے تنوع سے واقف ہوکر، طلبہ کی لیاقت،خامیوں اور خوبیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے طریقہ تدریس منتخب کرتا ہے۔کمرۂ جماعت کے تنوع کو ایک کامیاب استاد تخلیقی تدریس کے ایک وسیلہ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔کلاس کے تنوع کے باوجود ہر طالب علم کو وہ سیکھنے کا مساوی موقع فراہم کرتا ہے۔ طلبہ کی خفتہ فطری تخلیقی صلاحیتوں کی بیداری،تخلیقی فکر کی تشکیل و استحکام منظم تخلیقی تدریس کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ہمارے اسکول طلبہ میں تخلیقی شعور و استدلال کے فروغ کے بجائے روایتی ساکت و جامد نظریات کی تبلیغ کو ہی تدریس سمجھ رہے ہیں۔ایسے تباہ کن نظریات پر تخلیقی تدریسی طریقوں سے ہی قابو پایا جاسکتا ہے۔طلبہ کی پوشیدہ فطری تخلیقی صلاحیتوں کو عیا ں کرنا ہی تعلیم کا اصل مقصد ہے۔کمرۂ جماعت میں موجود ہر طالب علم پیدائشی طور پر اختراعی صلاحیتوں اور تخلیقی فکر کا حامل نہیں ہوتا۔ لیکن اساتذہ اپنی کوشش اور جستجو سے ہر بچے میں تخلیقیت اور اختراعیت کو فروغ دے سکتے ہیں۔ایک لائق استاد ہر بچے میں ہمہ وقت تخلیقی سوچ پیداکرنے میں مصروف رہتاہے۔بچوں میں تخلیقی شعور،تجزیہ،تدببر اور مشاہدے کی صلاحیتوں کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ کسی بھی سماج کا بے جان ساکت و جامد نصاب تعلیم ہوتا ہے۔
تخلیقی اظہار کے بہتر وسیلوں کی عدم فراہمی کے باعث طلبہ کی تخلیقی صلاحیتں ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔ یہ نقص عام طور پر ہمارے تعلیمی نظام میں پایا جاتا ہے جسے دور کرتے ہوئے ہم تعلیم کو مزید مفید اور کارآمد بناسکتے ہیں۔اساتذہ طلبہ مرکوز طریقہ ہائے تدریس اپناتے ہوئے، فرسودہ روایتی تدریسی طریقوں سے اجتناب کرتے ہوئے اکتسابی عمل کو مزید پرکشش اور پرکیف بناسکتے ہیں۔اساتذہ تخلیقی تدریس کے مقاصد سے آشنائی اور مختلف طریقہ ہائے تدریس سے کماحقہ واقفیت حاصل کرتے ہوئے نہ صرف طلبہ میں تخلیقی اظہار کو اجاگر کرسکتے ہیں بلکہ تعلیمی عمل کو مزید دلچسپ،رنگین،متحرک اور فعال بناسکتے ہیں۔بچوں میں اکتسابی دلچسپی پیدا کرنا،فطری تخلیقیت کی بیداری،تخلیقی و اختراعی سرگرمیوں کی مناسب حوصلہ افزائی،منظم منصوبہ بندی اور مبسوط تدریسی لائحہ عمل کو تخلیقی تدریس کی اساس گردانا گیا ہے۔استاد تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ کے لئے سازگار ماحول پیدا کرنے میں اگر کامیابی حاصل کر لیتا ہے تب ما باقی کردار ماحول خود انجام دیتاہے۔اساتذہ بچوں میں معلومات کی ترسیل پر ہی اکتفاء نہ کریں بلکہ ان میں شوق و ذوق پیدا کریں۔بچوں میں اگر شوق و ذوق پیدا ہوجائے تب وہ اپنی منزل آپ تلاش کر لیتے ہیں۔موثر تدریسی اور تخلیقی فکر کے فروغ کے لئے سازگار ماحول کی تخلیق بے حد ضروری ہوتی ہے۔ماحول پیدا کیئے بغیر بامقصد،تخلیقی و اختراعی تدریس کا تصوربھی محال ہوتا ہے۔درخت سے جھڑے پتے جس طرح ہواؤ ں کے دوش پر سفر کرنے لگتے ہیں بالکل اسی طر ح ماحول کی آغوش میں طلبہ تخلیقی صلاحیتوں سے بہرہ آور ہوتے ہیں۔
تخلیقی سوچ؛۔طلبہ میں تخلیقی فکر کو کمرۂ جماعت میں منتخب تعلیمی سرگرمیوں کے ذریعہتشکیل دیا جاسکتا ہے۔طلبہ کو روشن لکیر پر چلنے اور روایتی فکر سے باز رکھتے ہوئے انہیں تخلیقی فکر کی جانب آمادہ کیا جاسکتا ہے۔معلوم و معروف نتائج سے آزادکر تے ہوئے طلبہ کو خول سے باہر جھانکنے کی ترغیب دی جاسکتی ہے۔تخلیقی فکر و شعور کو پیدا کرنے اس کی نمو و فروغ کے لئے طلبہ کو ایک بہتر سامع، شاہد،عمدہ تجزیہ کار کا کردار انجام دینا ہوتا ہے۔ بروقت اپنی معلومات کو استعمال کر نے کے لئے انہیں اپنی حافظہ کو بہتر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔طلبہ جب ایک اچھے سامع اور شاہد کا کردار انجام دیتے ہیں۔تخلیقی فکر ان میں ازخود نمو پانے لگتے ہے۔طلبہ کی قوت سماعت جس قدر موثر ہوگی اسی قدر ان میں مضمون کو سمجھنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوگی اور سوال کرنے کی استعداد بھی ازخود در آئے گی۔ اساتذہ پامال اور عام روش پر طلبہ کو ہر گز گامزن نہ کر یں یہ طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کے لئے زہر ہلاہل ثابت ہوتا ہے۔طلبہ میں اکتسابی آسودگی اور تخلیقی فضاء کو ہموار کرنے کے لئے اساتذہ اپنے تدریسی مواد اور طریقہ کار پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کریں۔ درجہ ذیل سطور میں تخلیقی طریقہ تدریس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اساتذہ جارحانہ برتاؤ سے احتراز کرتے ہوئے تخلیقی انداز تدریس کے ذریعے طلبہ کے ذہنوں میں معلومات کے دائمی نقوش بنا سکتے ہیں۔اساتذہ کا طلبہ سے مشفقانہ رویہ اور تخلیقی انداز تدریس نہ صرف معلومات کی ترسیل و تفہیم میں مددگار ثابت ہوتا ہے بلکہ بروقت معلومات کی بازیافت و اعادہ میں بھی کارگر ہوتا ہے۔معلومات کی ترسیل کے وقت اساتذہ کو بہت زیادہ احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اسی فراہم کردہ معلومات پر طلبہ اپنے نظریات کی عمارتیں تعمیر کرتے ہوئے کرشماتی نتائج پیش کرتے ہیں۔اساتذہ طلبہ کو فطرت کے اسرار پر غور کرنے کی عادت ڈالیں۔طلبہ میں حسیت کے فروغ کے لئے کام کریں۔کیونکہ ایک تجزیاتی ذہن اور حساس دل لامحدود کائنات کے اسرار ہائے سربستہ سے پردے اٹھا دیتا ہے۔فطرت کے راز ہائے سربستہ پر غور و خوض سے طلبہمیں تخلیقی فکر،استدلال اور تجزیہ کی کیفیت از خود جنم لینے لگتی ہے۔ایکتجزیاتیذہن تخیلاتی و تخلیقی نظریات کی آماجگاہ ہوتا ہے۔تخلیقی خیالات پر جب مناسب منصوبہ بندی کے ذریعہ عمل کیا جاتا ہے تب طلبہ کے تخلیقی افق میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔طلبہ میں تخلیقی فکر و اظہار پیداکرنے کا تما م ذمہ اساتذہ پر عائد ہوتا ہے۔اساتذہ مناسب ماحول کی فراہمی کے ذریعہ طلبہ کی تخلیقی افکار و استدلال کو مزید فروغ دے سکتے ہیں۔
تجسس طلبہ میں تخلیقی فکر پیدا کرنے میں ایک محرکہ کا کام انجام دیتا ہے۔اساتذہ قوت تجسس کو فروغ دیتے ہوئے باآسانی طلبہ میں تخلیقی فکر پیداکرنے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔بہتر طریقے سے طلبہ میں قوت تجسس کو پروان چڑھاتے ہوئے،تخلیقی ماحول پیدا کرتے ہوئے،تنقیدی فکر و استدلال کی ترغیب کے ذریعے اساتذہ اپنی تدریسی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتے ہیں۔ طلبہ میں اظہار کی صلاحیت کو فروغ دینا اشد ضروری ہوتا ہے۔تخلیقی افکار کو پیش کرنے میں اظہار سب سے معاون وسیلہ ثابت ہوا ہے۔کسی بھی مسئلہ کے معلنہ نتائج پر ہی اکتفاء کرنے سے طلبہ کو ؤ باز رکھیں۔
تخلیقی تدریس کے لئے درکار ضروریات؛۔یہ ٰایک حقیقت ہے کہ اساتذہ ہر طالب علم میں اعلی تخلیقی صلاحیتوں پیدا کرنے کی ہر گز قدرت نہیں رکھتے ہیں۔ لیکن وہ بچوں کو اسکولی اوقات میں تخلیقی انداز میں سوچنے کی تربیت ضرور فراہم کرسکتے ہیں۔طلبہ کی رمق بھر تخلیقی صلاحیت کو بھی اساتذہ پہچان کر اور اس کے مطابق بچوں کو تعلیمی سرگرمیاں تفویض کرتے ہوئے ان میں تخلیقی فکر کو پروان چڑھانے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔بچوں میں تخلیقی فکر کی نمو کے لئے درج ذیل امور اساس کی حیثیت رکھتے ہیں۔
(1)متنوع افکار، تخیل کی جدت اور تخلیقی قوت میں اپچ و لچک کی موجودگی اور ان عناصر پر تجربہ سازی تخلیقی تدریس کے لازمی عناصر گردانے جاتے ہیں۔
(2)بچوں کے ذوق و اشتیاق کے مظاہر ہ کے بارے میں اساتذہ کو بہت زیادہ محتاط اور حساس ہونا ضروری ہوتا ہے۔اساتذہ کو باریک بینی سے طلبہ کے ذوق و شوق اور دلچسپی کا جائزہ لیناضروری ہوتا ہے۔
(3)اساتذہ میں قوت متخیلہ کا پایا جانا بہت ضروری ہوتا ہے اور اس کو اعلی مدارج تک پہنچانے کی ان کو ہر دم کوشش کرنی ضروری ہوتی ہے کیونکہ تخلیقی صلاحیتوں کو قوت متخیلہ کے ذریعہ ہی عیاں کیا جاسکتاہے۔
(4)طلبہ میں تخلیقی مزاج کے پید اکرنے اور اس کے فروغ میں طلبہ سے اساتذہ کے مراسم و روابط کلیدی کردار انجام دیتے ہیں۔طلبہ کے سماجی حالات و کوائف سے اساتذہ کی واقفیت بچوں میں تخلیقی فکر پیدا کرنے میں نہایت مددگار ثابت ہوتی ہے۔
(5) اپنی قوت متخیلہسہارے تخلیق کردہ مثبت تخلیقی ماحول کے مضمرات اور اس کے حل کے لئے اساتذ ہ کو ذہنی طور پر تیار رہنا ضروری ہوتا ہے۔
(6)اساتذہ کمرۂ جماعت میں تدریسی سرگرمیوں اور اپنے تجزیاتی و تخیلاتی برتاؤکے ذریعہ بچوں میں تخلیقی تصورات اور نظریہ سازی کو یقینی بنائیں اور اس کے فروغ میں ہمہ تن مصروف بھی رہیں۔
تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کرنے کے طریقے؛۔طلبہ میں فطری طور پر تخلیقی مزاج کا اگر فقدان بھی پایا جائے تب بھی اساتذہ کسی قدر اپنی کاوشوں سے بچوں میں تخلیقی مزاج کو پیدا کرنے میں کامیا بی حاصل کر سکتے ہیں۔بچوں میں تخلیقی انداز فکر کو پیدا کرنے اور اس کو پروان چڑھانے میں درجہ ذیل نکات عملی طور پر بہت معاون ثابت ہوتے ہیں۔