حج سنت کے مطابق اداکیجیے

حج کی تعریف
لغت حجِ عرب میں کے معنی’’ کسی عظیم الشان چیز کی طرف جانے کا ارادہ کرنے ‘‘کے ہیں۔اصطلاح شریعت میں حج سے مراداسلام کے بنیادی پانچ فرائض، جن پر اسلام کی پوری عمارت قائم ہے،میں سے پانچواں فریضہ ہے ،جس میں احرام باندھ کر خانہ کعبہ کا طواف ،سعی اور وقوف عرفات کے فرائض ایک مخصوص ترتیب سے بجالائے جاتے ہیں۔
حج تمام صاحب استطاعت مرد و عورت پر پوری زندگی میں صرف ایک بار ادا کرنا فرض ہے،اس میں بلاوجہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے،مباداکب سانسوں کی ڈوری کٹ جائے اور یہ فرض ذمے میں باقی رہ جائے،اس لیے اس فریضے کو جلد از جلد ادا کرلینا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : جو مسلمان استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا تووہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر،اللہ تعالیٰ کو اس سے کوئی سروکار نہیں (ترمذی شریف ،دارمی)
آج کل بدقسمتی سے سفر حج کوبھی اسٹیٹس کواور نمائش کا ذریعہ سمجھ لیا گیاہے ۔سفر پر روانگی سے پہلے اور واپسی پر بڑی بڑی دعوتیں اور پروگرامات ہوتے ہیں،لیکن اصل مقاصد کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ حج پر روانہ ہونے سے پہلے تمام عزیز و اقارب کے حقوق اور دل آزاری پر بالخصوص معافی تلافی کرلیں۔کسی کا حق ذمے میں باقی ہوتو اسے ادا کرلیں۔کیامعلوم دوبارہ واپسی نصیب ہو یانہ ہو۔مخلوق کے حقوق تو اللہ تعالیٰ بھی اس وقت تک معاف نہیں کرتے ،جب تک صاحبِ حق ادانہ کردے۔
یہ بات بھی یادرکھیے کہ حج کاسفر عاشقانہ سفرہے،محبوب کی راہ میں پیش آنے والی پرمشکل عاشق کے لیے نہ صرف سہل وآسان ،بلکہ لذیزوپرلطف ہوتی ہے،اس لیے سفرحج کے دوران کسی قسم کی مشقت اور تکلیف کو بخوشی برداشت کیجیے۔آپ کایہ عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑے اجر اور ثواب کا باعث ہوگا۔
حج کی تین اقسام ہیں:(۱)حج افراد:اس میں حاجی صرف حج کا احرام باندھے گا اور عمرہ نہیں کرے گا۔(۲)حج قران:اس میں حاجی عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھے گا۔ مکہ پہنچ کر صرف طواف اور سعی کرے گا لیکن بال نہیں منڈوائے گا۔ جب حج پورا ہوجائے گا تو بال منڈوائے گا اس حج میں ساراوقت احرام اور احرام کی پابندیاں جاری رہیں گی۔(۳)حج تمتع:اس طریقے میں حاجی اگر پہلے مکہ جائے گا تو احرام باندھ کر عمرہ ادا کرے گا اور بال منڈواکر احرام کھول دے گا۔ اور حج کے لیے مکہ میں کسی جگہ دوبارہ احرام باندھ کر حج کرے گا۔پہلے مدینہ جانے کی صورت میں بھی جب مکہ جائے گا تو احرام باندھ کر مکہ جائے گا اور عمرہ کرے گا۔ اس طرح کے حج کو حج تمتع کہتے ہیں اور زیادہ تر پاکستانی اسی طرح حج کرتے ہیں۔
حج کے تین فرائض ہیں ،ان میں سے کوئی ایک بھی رہ جائے تو حج سرے سے نہیں ہوگا،فرائض حج یہ ہیں:احرام (احرام باندھنا)…وقوفِ عرفات…طوافِ زیارت ،ان میں سے کون سے دن کون سا رکن اداکیاجاتاہے،ذیل میں اس کی تفصیل درج کی جارہی ہے:
ایامِ حج ۸ ذی الحجہ سے شروع ہوتے ہیں۔قیام ِ منیٰ ۷ ذی الحجہ کو رات شروع ہونے پر ۸ ذی الحجہ ہوجاتاہے۔ آپ منیٰ جانے کی تیاری رات میں ہی کرلیں۔ سنت کے مطابق غسل کرلیں اوراگر سہولت نہیں تو وضو کرلیں۔ پھر احرام کی نیت کرکے احرام باندھ لیں اور دو رکعت نفل برائے احرام پڑھ لیں۔ اس وقت سر کو ڈھک لیں اور نماز ختم ہوتے ہی سر کو کھول دیں۔ اب حج کی نیت کرلیں اورتین(۳) دفعہ تھوڑی بلند آواز میں تلبیہ پڑھیں، درود شریف پڑھیں، دعا کریں۔ صبح ۸ ذی الحجہ ہے اور فجر کی نماز کے بعد منٰی روانہ ہونا ہے۔ سارا وقت تلبیہ۔،درود شریف اور دعاء کرتے رہیں۔ (منٰی جانے اور قیام کا بندوبست وغیرہ معلم حضرات کرتے ہیں)آپ دوپہر تک منٰی پہنچ جائیں گے۔ یہاں آپ کو ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نماز پڑھنی ہے اور رات منیٰ میں ہی گزارنی ہے۔
صبح ۹ ذی الحجہ ہے۔ آج مغفرت اور عرفہ کا دن ہے۔ فجر کے وقت فجر کی نماز پڑھیں۔ فجر کی نماز کے بعد تکبیرات تشریق شروع ہوجاتی ہے۔ اور تھوڑا انتظار کریں جب سورج کی روشنی سفید ہوجائے تو عرفات کے لیے روانہ ہوجائیں۔ (یہ انتظام اور وقت کا تعین بھی معلّم کرتے ہیں)آپ تلبیہ، درود شریف اور کلمہ چہارم کا ورد کرتے رہیں۔آپ دوپہر تک عرفات پہنچ جائیں گے۔
وقوفِ عرفات حج کا رکنِ اعظم ہے اور اس کے بغیر حج نہیں ہوتا ہے وقوف کی نیت کرنا شرط نہیں ، لیکن مستحب ہے۔ ظہر کے وقت ظہر کی نماز خیمہ یا جماعت سے پڑھیں۔ اسی طرح عصر کی نماز پڑھیں۔(یہاں لیٹنا مکروہ ہے) اور عصر کی نماز کے بعد دھوپ میں کھڑے ہوکر وقوف کی نیت کریں۔ اپنی زبان میں دعائیںاور ثناء، تکبیر، تحلیل اورتلبیہ پڑھتے رہیں۔ تلبیہ تین تین بار پڑھیں۔ کثرت سے ددرود شریف پڑھیںاور سب کی بھلائی اور مغفرت کی دعا کریں۔ عرفات میں دعاء قبول ہوتی ہے۔ مغرب تک یہ عمل جاری رکھیں اور اگر دھوپ میں مشکل ہو تو سائے میں آجائیں۔یہاں مغرب کی نماز نہیں پڑھنی ہے۔
۹ ذی الحجہ کی شام غروبِ آفتاب کے بعد مزدلفہ روانہ ہونا ہے۔ (یہ بھی معلم حضرات کی نگرانی میں ہوگا) مزدلفہ پہنچ کر عشاء کے وقت ایک تکبیر سے پہلے مغرب پھر عشاء کی نماز پڑھیں یہاں ساری رات عبادت میں مصروف رہیں۔ رمی (شیطان کو کنکریاں مارنا)) کے لیے کھجور کی گٹھلی کے برابر تقریباً ساٹھ (60) ستر(70) کنکریاں جمع کرلیں اور ان کو دھوکر صاف کرلیں۔ یہاں آرام اور سونا منع نہیں ہے۔
آج ۱۰ ذی الحجہ ہے اور نماز کے بعد منیٰ جانا ہے۔ فجر کی نماز کے وقت حسبِ معمول فجر کی نماز پڑھیں۔ اور نماز کے بعد تھوڑی دیر تک مزدلفہ میں وقوف کی نیت سے ٹھہریں۔ (یہ واجب ہے) اور وقوفِ مزدلفہ کہلاتا ہے۔ یہاں تکبیر تحلیل اور تلبیہ پڑھتے رہیں۔ اور سب کی خیر کی دعائیں کریں۔منی میں آج صرف بڑے شیطان کی رمی کرنی ہے یعنی کنکریاں مارنی ہیں ،رمی سے قبل تلبیہ پڑھنا بند کردیں۔رمی کے بعد قربانی کرنی ہے۔آج کل قربانی بھی معلم یا اس کا نمائندہ آپ کی طرف سے کرے گا جو کہ ایگریمنٹ میں لکھاہوتا ہے اور اس کی رقم پیکج میں شامل ہوتی ہے۔ قربانی کے بعد جس کی اطلاع آپ کو نمائندہ ے گا۔ آپ کو پورے سر کے بال منڈوانے ہیں۔ اور افضل ہے کہ استرا پھروالیں اگر چہ آپ کے سر پر پہلے ہی استرا پھرا ہو (عمرہ کا) یہ واجب ہے۔ اب آپ غسل کرلیں اور میل کچیل کو صاف کرلیں۔اور احرام کھول کر روز مرہ کے کپڑے پہن لیں۔ احرام کی پابندیاں ختم ہوچکی ہیں۔ سوائے بیوی کے حلال ہونے کے۔
طوافِ زیارت آج( ۱۰ ذی الحجہ) کا سب سے اہم کام ہے اور اس کے بغیر بیوی حلال نہیں ہوگی۔ اگر آج طواف زیارت نہیں کرسکے تو ۱۲ ذی الحجہ غروب آفتاب سے قبل تک ضرورکرلیں (ورنہ بیوی کی پابندی لازم رہے گی) طوافِ زیارت کے بعد سعی کریں جو دراصل حج کی سعی ہے۔ یہ سب آپ روز مرہ کے کپڑوںمیں کریں گے۔
آج۱۱ ذی الحجہ ہے۔ آج دوسری رمی کرنی ہے۔ راستے میں سب سے پہلے جمرہ اولیٰ (چھوٹا شیطان) آتا ہے۔ پہلے اس کو سات کنکریاں الگ الگ ماریں اور ہر کنکری پر’’ بسم اللہ اکبر ‘‘پڑھ کر ماریں، پھر ذرا ہٹ کر دعا کریں ۔اسی طرح درمیان میں جمرہ وسطی (درمیانی شیطان) آئے گا ’’بسم اللہ اکبر‘‘ کہہ کر اس کی بھی رمی کریں اور ذرا ہٹ کر دعا کریں۔ پھر آخر میں جمرہ عقبیٰ (بڑا شیطان) آئے گا، اس کی بھی’’ بسم اللہ اللہ اکبر ‘‘کہہ کر رمی کریں۔ یہاں دعا نہیں کرنی ہے۔
الحمدللہ اب آپ کے حج کے ارکان پورے ہوگئے ہیں۔ صرف واپسی سے قبل آپ نے طواف وداع کرنا ہے۔ یہ بھی واجب ہے۔ (یہ پاکستان سے آنے والے کے لیے واجب ہے) اس کے علاوہ آپ نفلی عمرہ کرتے رہیں اور حرم شریف میں وقت گزاریں۔
نوٹ:پاکستان سے جانے والے حضرات عام طور پر حج تمتع کریں گے، اس کے لیے عمرہ اور حج کا احرام الگ الگ باندھا جائے گا۔پاکستان سے روانگی یا سفر کے دو طریقے ہیں ،جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱۔پہلے مدینہ منورہ جانا:مدینہ جانے والے افراد اپنے عام کپڑوں میں مدینہ جائیںگے اور روضہ رسول ﷺ کی زیارت اور مسجد نبوی میں چالیس وقت کی نماز (اگر وقت ہو)ادا کریں گے۔پھر مدینے سے احرام باندھ کر مکہ کے لیے روانہ ہوجائیں گے۔
احرام باندھنے کے لیے غسل کریں یا صرف وضو کر لیں اور احرام کی نیت کریں دو رکعت نفل پڑھیں اور تلبیہ پڑھیں،تلبیہ کے بعد احرام کی پابندیاں شروع ہوجاتی ہیں(جن کی تفصیل آگے آرہی ہے)۔
۲۔براہ راست مکہ مکرمہ جانا:براہ راست مکہ مکرمہ جانے والے افراد کے لیے بہتر یہ ہے کہ گھر سے غسل کرکے نکلیں اور وضو کرکے ایئر پورٹ پرعمرے کی نیت کرکے احرام باندھیں اور دو رکعت نفل پڑھ کر تلبیہ پرھ لیں۔تلبیہ کے بعد احرام کی ساری پابندیاں شروع ہوجائیں گی۔
گھر سے احرام باندھنا بھی جائز ہے ،لیکن اس میں کئی قسم کی قباحتوں کا خطرہ ہے،مثلاً:فلائٹ نکل جائے اور قریب کے دنوں میں کوئی امکان بھی نہ ہو،تو ایسے شخص کو لامحالہ احرام کھولنا پڑے گا اور اس کے ذمے دم واجب ہوجائے گا،کیوں کہ وہ ’’محصر‘‘کے حکم میں ہوگیا(اس کی تفصیل آگے آرہی ہے)۔
دونوں قسم کے پاکستانی حجاج کرام مکہ مکرمہ پہنچنے پر خانہ کعبہ کا طواف کریں اور دو رکعت واجب الطواف ادا کرکے سعی کریں ۔پھر حرم شریف سے باہر نکل کر پورے سر کے بال کٹوائیں(اسے قصر کہتے ہیں)یا استرا پھروائیں(اسے حلق کہتے ہیں)۔اس کے بعد احرام کھول دیں اورطواف کریں(اس طواف کو، طواف قدوم کہتے ہیں) اب آپ پر سے احرام کی ساری پابندیاں ختم ہوگئیں اور وہ تمام کام جائز ہوگئے جو احرام کے بغیر کیے جاتے ہیں۔

حصہ
mm
مولانا محمد جہا ن یعقوب جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی کے سینئر ریسرچ اسکالرہیں اور مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں