گزشتہ روز پیش آنے والے ٹرین حادثے کے بدقسمت مسافروں کی نعشوں کو دیکھنے کے بعد دل انتہائی مغموم اور طبیعت اداس ہے۔ ریلوے جسے دنیا بھر میں سفر کا محفوظ ترین ذریعہ تصور کیا جاتا ہے مگر اہل پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں ٹرین حادثات روز بروز بڑھتے جارہے ہیں اور ان حادثات کے زمہ داروں کا تعین نہیں ہوپاتا۔گزشتہ روز بھی صادق آباد کے علاقے ولہار ریلوے سٹیشن پر صبح چار بجے ایک انتہائی افسوسناک حادثہ اس وقت پیش آیا جب اکبر ایکسپریس کو غلط سنگنل دیا گیا اور وہ ٹریک پر پہلے سے موجود مال گاڑی سے جاٹکرائی، جسکے نتیجے میں 24 افراد ہلاک اور ایک سو کے قریب زخمی ہوگئے۔ ہلاک ہونیوالوں میں ایک ہی خاندان کے چار افراد بھی شامل ہیں جبکہ اسی خاندان کے دو افراد زخمی بھی ہوئے۔ حادثے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی نفری اور ریسکیو ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں، اور پاک فوج کے دستے کے علاوہ 50سے زائد سرکاری و نجی ایمبولینسز نے ریسکیو آپریشن میں حصہ لیا۔ حادثہ اتنا شدید تھا کہ اس کے نتیجے میں ٹرین کی چھ بوگیاں انجن سے کٹ کر الٹ گئیں جبکہ بوگیاں پچک جانے کے باعث ہلاک شدگان کی نعشوں اور زخمیوں کو بوگیاں کاٹ کر باہر نکالنے میں بہت دقت کا سامنا کرنا پڑا۔شیخ زید ہسپتال رحیم یار خان میں منتقل متعدد زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ اس حادثے میں اکبر ایکسپریس کا ڈرائیور عبدالخالق اور اسسٹنٹ ڈرائیور بھی شدید زخمی ہوئے۔ چیئرمین ریلوے سکندر سلطان راجہ نے اکبر ایکسپریس کا سٹیشن پر پہلے سے موجود مال گاڑی سے ٹکرانا ریلوے سسٹم کی ناکامی سے تعبیر کیا ہے اور کہا کہ لوپ لائن پر مال گاڑی کی موجودگی میں اکبر ایکسپریس کو لوپ لائن پر لینا نااہلی ہے اور ابتدائی تحقیقات سے لگتا ہے کہ حادثے کا ذمہ دار ڈرائیور نہیں بلکہ ریلوے آپریشن سسٹم ہے۔جبکہ اس حادثے کے حوالے سے افسوسناک امر یہ ہے کہ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد اس حادثے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے اسے محض انسانی غلطی قرار دیکر اپنی گلوخلاصی کرتے نظر آئے اور انہوں نے امدادی کاموں کی نگرانی اور زخمیوں کی دیکھ بھال کیلئے جائے حادثہ پر جانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ بے شک ایسے حادثات میں انسانی غلطیوں کا ہی عمل دخل ہوتا ہے تاہم آئندہ ایسی غلطیوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ سخت اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ حادثات کی مکمل روک تھام ممکن ہوسکے۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق شیخ رشید احمد کے وزارت ریلوے کا قلمدان سنبھالنے کے بعد گیارہ ماہ کے عرصہ میں ریلوے کے 79 حادثات ہو چکے ہیں جس سے بادی النظر میں یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ وزیر موصوف نے اپنی وزارت میں زبانی جمع خرچ کے سوا کوئی ایسا عملی اقدام نہیں اٹھایا جس سے انسانی غلطیوں کی بنیاد پر ریلوے حادثات کی روک تھام یقینی بنائی جاسکے۔ اس حوالے سے مزید افسوسناک صورتحال یہ سامنے آئی ہے کہ گزشتہ ماہ جون میں سب سے زیادہ ریلوے حادثات ہوئے اور یہ حادثات یکے بعد دیگرے رونماء ہوئے۔ یکم جون کو لاہور یارڈ میں میں ٹرین ڈی ریل ہوگئی،3 جون کو عید سپیشل ٹرین لالہ موسیٰ سٹیشن کے قریب پٹڑی سے اتر گئی، 7 جون کو اسلام آباد ایکسپریس گجرات کے قریب موٹرسائیکل سے ٹکرا گئی،8 جون کو کراچی ڈویژن میں بولان ایکسپریس ٹرین کو حادثہ پیش آیا،15 جون کو سندھ ایکسپریس سکھر یارڈ میں پٹڑی سے اتر گئی،16 جون کو مال بردار ٹرین روہڑی سٹیشن کے قریب پٹری سے اتر گئی،18 جون کو ملتان ڈویژن میں جناح ایکسپریس کی ڈائننگ کار کو ہڑپہ سٹیشن کے قریب آگ لگ گئی، اسی روز کوئٹہ ڈویژن میں مال بردار ٹرین پٹری سے اتر گئی اور اس سے اگلے روز 19 جون کو کراچی ڈویژن میں رحمان بابا ایکسپریس کی زد میں ایک گاڑی آگئی جس سے انسانی جانوں کا ضیاع ہوا جبکہ20 جون کو حیدرآباد سٹیشن کے قریب جناح ایکسپریس مال بردار ریل گاڑی سے ٹکرا گئی جس کے نتیجہ میں ٹرین کا ڈرائیور اور اسسٹنٹ ڈرائیور جاں بحق ہوا۔ ٹرین حادثوں کے اس تسلسل میں 21 جون کو ہری پور کے قریب ایک کار راولپنڈی ایکسپریس کی زد میں آگئی اور22 جون کو لاہور ریلوے سٹیشن کے یارڈ میں کراچی جانے والی تیزگام کی بوگیاں پٹری سے اتر گئیں۔ اسی طرح 23 جون کو لانڈھی سٹیشن کے قریب جناح ایکسپریس کو حادثہ پیش آیا اور24 جون کو راولپنڈی ڈویژن میں ایک موٹرسائیکل کوہاٹ ایکسپریس کی زد میں آئی جبکہ 27 جون کو بدر ایکسپریس مسکالر سٹیشن کے قریب ٹریکٹر ٹرالی سے ٹکرا گئی۔ ایک ہی مہینے میں ریلوے حادثات کا یہ تسلسل آخری ہفتے تک برقرار رہا اور 28 جون کو فرید ایکسپریس اور ٹریک پر کھڑی دوسری ٹرین کے انجن میں تصادم ہوا جبکہ 29 جون کو بھی ایک موٹر سائیکل راولپنڈی ایکسپریس کی زد میں آئی۔ اسکے ڈیڑھ ہفتے بعد اب گزشتہ روز اکبر ایکسپریس اور مال گاڑی میں تصادم کی صورت میں پاکستان ریلوے کو بڑا حادثہ پیش آیا ہے جو اس امر کا غماز ہے کہ ریلوے کے وزیر موصوف ریلوے کی بحالی اور بہتری کی جانب ہرگز توجہ نہیں دے رہے اور انکی ترجیحات میں اپنی وزارت پر توجہ دینا شاید شامل ہی نہیں ہے۔
اگر وزیر موصوف کے دور میں پاکستان ریلوے کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے، صرف ایک مہینے میں ریلوے کے چھوٹے بڑے20 حادثات کے علاوہ ٹرینوں کا شیڈول بری طرح متاثر ہے اور ٹرینیں پانچ پانچ گھنٹے لیٹ ہونے کی وجہ سے انتظار کی اذیت برداشت کرتے شہری اکثر ریلوے اسٹیشنوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔جہاں تک بات ٹرین حادثات کی ہے سابقہ ادوار میں بھی ریلوے حادثات رونما ہوتے رہے ہیں مگر انکی تعداد اتنی زیادہ کبھی نہیں رہی، پاکستان ریلوے کی کارکردگی وزیر موصوف کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے، روز بروز بڑھتے ٹرین حادثات کی وجوہ جاننے، ریلوے ٹریک کی درستی و مرمت کی بجائے ان حادثات کو محض انسانی غلطی کہہ کر اپنی گلوخلاصی نہیں کروائی جا سکتی، بلکہ ہونیوالی کوتاہیوں اور غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے اصلاح احوال کے مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ ریلوے مسافروں کی قیمتی جانوں کا تحفظ ممکن ہوسکے۔
٭……٭……٭