“رشک اور حسد میں کیا فرق ہے ۔؟” میں ہیری پوٹر مووی دیکھ رہی تھی جب میرے پندرہ سالہ بھانجے سعد نے مجھ سے سوال پوچھ لیا۔
“مطلب۔؟” ہم نے ناسمجھی سے اسے پلٹ کر دیکھا۔
“میرے دوست میری کہانیاں پڑھتے ہیں تو مجھ سے کہتے ہیں کے تم اپنی آپی سے لکھواتی ہو۔ وہ میری قسمت پر رشک کرتے ہیں۔” سعد نے مجھ سے تائید چاہی.
“نہیں وہ تم سے حسد کرتے ہیں۔” میں نے صاف جملوں میں اسے کہا تو وہ مجھے الجھن کا شکار نظر آنے لگا۔ میرے لیے بہتر تھا کہ میں اپنی زندگی کی پچیسویں بار دیکھی جانی والی ہیری پوٹر مووی کو بند کرکے اسے رشک اور حسد کے فرق سے آگاہ کروں۔
“اگر وہ تم پر رشک کرتے تو تمہاری صلاحیت کی تعریف کرتے نہ کہ تم پر یہ الزام لگاتے کہ تم ناکارہ ہو اور تمہاری صلاحیت تمھاری آپی کی مرہون منت ہے۔ غبطہ جس کو اردو میں رشک کہتے ہیں، کسی بھی صاحب نعمت سے زوال نعمت کی تمنا کیے بغیر یا اس پر الزام لگائے بغیر کھلے دل سے اس کی تعریف کرنا کہلاتا ہے۔ تمہارے دوست اگر تم سے اس طرح کہہ رہے ہیں تو وہ ضرور س سے یہی کہتے ہوں گے ۔۔؟؟” میں نے کچھ سوچ کر اس سے پوچھا جوابا وہ افسردگی سے بولا۔ “ہاں وہ سب سے یہی کہتے ہیں، کل میں نے اپنی ایک کہانی مس کو دکھائی تو میرے دوست نے مس سے کہ دیا کے اس کی آپی رائٹر ہیں وہ اس کی کہانیاں صحیح کرتی ہیں اور اپنے تعلقات پر اسے لگاتی ہیں۔ پھر مس نے بھی میری تعریف نہیں کی۔” سعد ایک دم سے بہت بہت دکھی نظر آنے لگا تھا۔
“دیکھو بیٹا اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسانی طبائع کو جہاں گونا گوں صفاتِ عالیہ سے نوازا ہے وہاں اُس میں کچھ کوتاہیاں بھی رکھ دی ہیں، جو اُس کے بشر ہونے پر دلیل ہیں۔ خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو ان خامیوں کے اِدراک کی صلاحیت بھی بخشی ہے اور دور کرنے کا سلیقہ بھی عطا کیا ہے۔ انسانی شعور ان کو محسوس کرسکتا ہے اور اسباب و علل کو تلاش کرکے علاج بھی کرسکتا ہے۔ یہ خامیاں جسمانی، روحانی قسم کی ہیں جو نفسیات واخلاق سے تعلق رکھتی ہیں۔ان میں سے کچھ وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہوجاتی ہیں، کچھ کو بدلنا انسان کے اختیار میں نہیں، کچھ پر کم وقت اور کم محنت صرف ہوتی ہے اور کچھ اَخلاقی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جو خود بخود ختم نہیں ہوتیں بلکہ باقاعدہ محنت کرکے ہی ان کی بیخ کنی کی جاسکتی ہے۔ یہ مشقت طلب بھی ہے اور صبرآزما بھی۔انہی میں سے ایک ’حسد‘ بھی ہے۔ حسد کا مطلب ہے ’’کسی دوسرے کی خوش حالی پر جلنا اور تمنا کرنا کہ اس کی نعمت اور خوش حالی دور ہوکر اسے مل جائے۔‘‘ اس کے لیے حاسدین مختلف طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ وہ پہل میں وہ آپ پر طرح طرح کے الزامات لگاتے ہیں جس سے آپ کی شخصیت کو مسخ کیا جاسکے۔ ایسے لوگ حاسدوں کو اپنے ساتھ ملالیتے ہیں۔
“سارے حاسد ایک ساتھ کیسے جمع ہوتے ہیں۔ کیا وہ آپس میں حسد نہیں کرتے ۔؟” سعد نے بڑی اہم بات پوچھ لی تھی۔
“حاسدین اکھٹے تب ہوتے ہیں جب وہ اپنے سے کسی “بڑے” کا مقابلہ کرتے ہیں۔ حاسد وہ ہے جو دوسروں کی نعمتوں پر جلنے والا ہو۔ وہ یہ نہ برداشت کرسکے کہ اللہ نے کسی کو مال، علم، دین، حسن ودیگر نعمتوں سے نوازا ہے۔ بسا اوقات یہ کیفیت دل تک رہتی ہے اور بعض اَوقات بڑھتے بڑھتے اس مقام تک آپہنچتی ہے کہ حاسد (حسد کرنے والا) محسود (جس سے حسد کیا جائے) کے خلاف کچھ عملی قدم اٹھانے پہ آ جاتاہے۔ اس کی کیفیات کا اظہار کبھی اس کی باتوں سے ہوتا ہے اور کبھی اس کا عمل اندرونی جذبات و اِحساسات کی عکاسی کرتا ہے۔حسد کی کیفیت جب تک حاسد کے دل ودماغ تک محدود رہے ، محسود کے لیے خطرہ کا باعث نہیں بنتی بلکہ وہ سراسر حاسد کے لیے ہی وبالِ جان بنا رہتاہے اور یوں وہ اپنی ذات کا خود ہی بڑا دشمن بن بیٹھتا ہے، لیکن جب وہ اپنی جلن کو کھلم کھلا ظاہر کرنے لگے تو یہی وہ مقام ہے جس سے پناہ مانگنے کے لیے خالق ارض و سماء نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے: {وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدٍ} (الفلق:۵)’’(میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں) حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرنے لگی۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں یہ نہیں سکھایا گیا کہ ’’حاسد کے شر سے پناہ مانگو‘‘ بلکہ اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ’’حاسد کے شر سے پناہ مانگو جب وہ حسد کرنے لگے‘‘ کیونکہ جب تک اس کا حسد ظاہر نہیں ہوتا تب تک وہ ایک قلبی وفکری بیماری ہے جس کا تعلق حاسد کی ذات سے ہے اور یہ درجہ محسود کے حق میں نقصان دہ نہیں ہے۔ ”
“اوہ تو مجھے قرآن کی آیت کی مدد لینی چاہیے۔ تاکہ میں اپنے دوستوں سے بچ سکوں۔” سعد نے کہا۔
“بالکل ۔ لیکن ایک بات یاد رکھنا وہ تمہارے دوست ہر گز نہیں ہوسکتے ۔ وہ دوست جیسے مقدس رشتے کی توہین کرتے ہیں۔”
“لیکن وہ تو مسلمان ہیں اور مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہوتے ہیں اگر دوست نہ بھی ہوں تو۔؟” سعد بہت ذہین تھا اور اکثر سوالات اور کہانیوں میں وہ اپنی ذہانت دکھاتا رہتا تھا۔ جواب دینے کے لیے بھی علم کا ہونا ضروری ہے اور اہل کتاب علم نہ رکھیں یہ تو ناممکن ہے۔ ہم نے مسکرا کر کہا۔
“حسد کی مذمت میں نبی اکرم ﷺسے مختلف اَحادیث مروی ہیں، انہی میں سے ایک یہ ہے کہ ’’کسی بندے کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوسکتے۔‘‘ (سنن نسائی:۲۹۱۲)
حسد کی بھی کئی اقسام ہوتی ہیں
پہلی قسم: یہ کہ حاسد دوسرے کی نعمت چھن جانے کی خواہش کرے خواہ وہ اس کو ملے یا نہ ملے یہ مذموم ترین قسم ہے کہ انسان اپنے لیے بھی اللہ سبحان و تعالیٰ کے انعام و فضل کا خواہش مند نہیں ہوتا اور وہ اپنے بھائی کے نقصان کا متمنی ہوتا ہے۔
دوسری قسم: یہ ہے کہ حاسد چاہتا ہے کہ نعمت، صاحب نعمت سے چھن کر مجھے مل جائے،یہ کیفیت ایمان کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔ اللہ بڑے فضل اور وسعت والا ہے۔ ’نعمت‘ صاحب نعمت سے چھن کر مجھے مل جائے‘‘ اس کی بجائے حاسد اگراللہ سے یہ دعا کرے کہ’’یااللہ! یہ نعمت مجھے بھی مل جائے‘‘ تواللہ کی قدرتِ کاملہ سے کیا بعید ہے کہ وہ اس کو صاحب نعمت سے بڑھ کر مالا مال کردے یہ اللہ پر ایمان اور سوچ کا فرق ہے۔
تیسری خطرناک ہے کہ “حاسد اپنے بھائی کے کردار کو مسخ کرکے اسے لوگوں کی نظر میں جھوٹا ، ناکارہ ، بےایمان ، مکار ، ثابت کرنے کی جان توڑ کوشش کرتا ہے لیکن ایک وقت تک ہی وہ کامیاب ہوتا ، بس جتنا اللہ کو منظور ہوتا ہے اس کے بعد اللہ اسے (جس سے حاسد حسد کرتا ہے( بےمثال عزتوں سے نواز دیتے ہیں (اگر اس کا بندہ صبر کرے) تو اللہ اسے وہ طاقت بنادیتے ہیں کے بعد میں حاسدین کا جھوٹ کھل جاتا ہے اور وہ خود زلیل و خوار ہوجاتا ہے۔
اگر انسان کسی دوسرے پر اللہ کا فضل و کرم دیکھے اور پھر اللہ سے اپنے لیے بھی وہی کچھ یا اس سے بڑھ کر طلب کرے تو یہ رشک کہلاتاہے اور جائز ہے،کیونکہ اُس نے دوسرے انسان یا صاحب نعمت کی نعمت کا زوال نہیں چاہا، نہ چھن جانے کی تمنا کی۔ حسد کی بُرائی ہی یہ ہے کہ اس میں مبتلا ہوکر ایک بھائی دوسرے بھائی کی خوشیوں اور نعمتوں کے زوال کی یا چھن جانے کی آرزو کرتا ہے۔
حسد عموماً ہمسر اور ہم پلہ اَفراد میںہوتا ہے۔ مثلاً بہن بھائیوں میں، دوستوں میں، افسران میں،تاجر تاجر سے حسد کرے گا،سیاستدان سیاستدان سے حسد کرے گا، طالب علم طالب علم سے اور اہل قلم اہل قلم سے حسد کریں گے اور حسد کی جڑ اس فانی دنیا کی محبت ہے۔ اس کے اور بھی بہت سے اَسباب ہیں۔ ایمان کی کمزوری بھی حسد کا باعث بنتی ہے۔حاسد اللہ کی تقسیم پر راضی نہیں ہوتا، وہ سمجھتا ہے کہ یہ نعمت جو دوسرے کو عطا کی گئی ہے اس کا اصل حق دار میں ہوں۔ وہ اپنے قول و عمل سے یہ اظہار کرتا ہے کہ اللہ نے کیسی ناانصافی کی ہے اور اپنے فضل و کرم کے لیے غلط انسان کا انتخاب کیا ہے۔ یہ تصورات و خیالات اس کے ایمان کو متزلزل کردیتے ہیں اور اس کے اللہ کے ساتھ تعلق کو کمزور کردیتے ہیں۔ اسی سوچ کی وجہ سے ابلیس ملعون و مردود قرارپایا تھا۔ ایسا کردار و مزاج رکھنا در حقیقت ابلیس کے نقش قدم پر چلنا ہے جس کا انجام نامرادی کے سوا کچھ بھی نہیں، کیونکہ حاسد کا حسد اللہ کے فیصلے کونہیں بدل سکتا۔
ہر انسان کچھ خوبیوں اور کچھ خامیوں کامجموعہ ہے۔ اپنے کردار و مزاج کی خامیوں کو سمجھتے ہوئے ان کی اصلاح کی کوشش کرنا مثبت و تعمیری سرگرمی ہے، لیکن اگر اپنی خامیوں کی اِصلاح کی بجائے دوسروں کی صلاحیتوں اور خوبیوں پر انسان جلنا کڑھنا شروع کردے تویہ حسد کا پیش خیمہ بن جاتاہے۔ایسا انسان احساس کمتری میںمبتلا ہوجاتا ہے اور اپنی اور دوسروں کی زندگی اجیرن کرلیتا ہے۔اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں پر اس کی نظر نہیں جاتی۔وہ ہر وقت دوسروں پر نظر رکھتا ہے۔ اللہ سے شکوہ کناں رہتا ہے اور حاسد بن جاتا ہے۔ ایسے لوگوں سے دور رہنا چاہیے اور ان سے پناہ مانگنی چاہیے۔” ہم نے اپنی بات ختم کی اور دوبارہ سے مووی کی جانب رخ کرلیا۔ سعد سمجھدار تھا ۔ اور وہ بہت کچھ سمجھ گیا تھا۔ وہ باہر جانے لگا تو ہم نے اس سے فقط اتنا کہا: “کبھی بھی کسی کے حسد سے دل چھوٹا مت کرنا، اپنی صلاحیتوں سے کنارہ کشی بھی مت کرنا ، بلکہ اتنے مضبوط بن جاو کے کبھی بھی کوئی بھی تم سے تمہارا “خواب” نہ چھین سکے۔”