زندگی کی یکسانیت کے ہاتھوں تنگ آکر دماغ میں کچھ نیا کرنے کا سمایا۔ ذہن پر زور دینے کے لیے بھاری کتابوں کا سہارا لیا لیکن اس ناہنجار دماغ نے کچھ نیا نہ سجھایا۔ سوچا چلو قریبی دوست کے پاس جا کر مشورہ کیا جائے، گھر سے باہر قدم نکالنے ہی والے تھے کہ دھوپ کی شدت دیکھ کر دوست کی بات یاد آگئی۔” زیادہ تیز دھوپ میں ہرگز باہر نہ جانا سورج کی روشنی سے بھوسا جلدی آگ پکڑ لیتا ہے۔” اپنے سر کی خیریت اسی میں جانی کہ شام تک انتظار کیا جائے۔ اسی ادھیڑ بن میں تھے کہ ڈور بیل کی آواز سنائی دی دروازہ کھولا تو سامنے محلےدار خاتون کو پایا جو حال ہی میں یہاں شفٹ ہوئی تھیں۔ انھیں اندر بلاکر امی کو ان کے آنے کی اطلاع دی باتوں باتوں میں پتا چلا کہ وہ اپنے بچوں کے لیے ٹیوشن ڈھونڈ رہی ہیں۔ ہمارے دماغ میں ٹیوشن پڑھانے کا خیال وارد ہوا جسے ہم نے عملی جامہ پہنانے کا سوچا اور فورا ً ہی اپنی خدمات پیش کر دیں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں کے مصادق انھوں نے بھی فوراً ہامی بھرلی۔ دوسرے دن وہ اپنے دو بچوں مع اپنی بہن کے تین بچوں کے تشریف لے آئیں۔ بچے ان کے سامنے جس شرافت کا مظاہرہ کر رہے تھے اسے دیکھ کر انگ انگ خوشی سے نہال ہوگیا کہ بچے نہایت تمیزدار اور سمجھ دار ہیں۔ اپنی امی کے جانے کے تھوڑی دیر بعد بچوں نے وہ رنگ ڈھنگ دکھائے کہ چودہ کیا اٹھائیس طبق روشن ہوگئے۔ خیر بچوں کو جلدی چھٹی دےکر گھر بھیجا اور ان سے نمٹنے کے طریقے سوچنے لگے۔ بالآخر بچوں کو کنٹرول کرنے کا ایک طریقہ سوچ ہی لیا۔ دوسرے دن بچوں کے آتے ہی انھیں چاکلیٹ دکھا کر آرام سے بیٹھ کر پڑھنے والے بچوں کو دینے کاوعدہ کیا۔ اس اعلان سے خاطر خواہ فائدہ ہوا مگر اس کے بعد ۔۔۔۔
“مس! پڑھنا کیوں ضروری ہے؟”
“اس لیے تاکہ آپ پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بن سکیں۔”
“مس عالم چنہ جتنا؟”
“مس ، مس! لڑکے پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بنتے ہیں تو کیا میں بڑی عورت بنوں گی۔ “
میں نے اپنا سر پکڑ لیا اور ڈپٹ کر کام مکمل کرنے کاکہا۔
تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ۔۔۔۔۔
“مس! یہ مجھے پڑھنے نہیں دے رہا۔”
” کیوں بھئی کیا مسئلہ ہے آپ کیوں پڑھنے نہیں دے رہے۔”
” مس میں تو کچھ بھی نہیں کررہا۔”
“مس! یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ میں اپنا یاد کررہا ہوں “قائد اعظم نے فرمایا” تو یہ بول رہا ہے “تو چل میں آیا”. “
میں نے بمشکل اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے دونوں کو ڈانٹا تو ایک نیا معرکہ شروع ہوگیا۔
“مس! یہ مجھے جھوٹی کہہ رہی ہے۔”
“مس! یہ کہہ رہی تھی کہ اس کی امی نے کہا ہے اب ہمیں کھانا کھانے اور سانس لینے پر بھی ٹیکس دینا پڑیگا۔”
.کچھ سوچتے ہوئے
” مس یہ ٹیکس کیا ہوتا ہے۔”
“بےوقوف !تمہیں اتنا بھی نہیں پتا۔ میرے ابو بتا رہے تھےجب حکومت دوسرے کے کیے ہوئے جرم کی سزا کے لیے عوام سے پیسے لے کر انکا خون نچوڑتی ہے تو اسے ٹیکس دینا کہتے ہیں، ہے نا مس! “
بچوں کی اتنی مدبرانہ، گستاخانہ اوراحتسابیانہ گفتگو سن کرمیرے دل سے صدا بلند ہوئی واقعی بچے غیرسیاسی ہوتے ہیں اور میں نے انھیں چھٹی دینے میں ہی عافیت جانی۔
واہ واہ واہ دماغ فریش ہو گیا
بہت خوب۔۔آپ کے بڑے سیاسی بچے آتے ہیں
سچی… بچے واقعی غیر سیاسی ہوتے ہیں.. اچھی تحریر
واقعی مزہ آگیا فرش کر دیا آپ نے
ارے واہ زبردست،👌مزہ اور تنبیہ کا بہترین امتزاج،سنا تھا دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔یہ آس پاس چلتی ہوئی دیواریں ہماری زندگی کی چلتی پھرتی آڈیوز ہیں،جو جگہ اور مقام اور موقع دیکھے بغیر آن ہو جاتی ہیں۔😅😜
بہت خوب ۔👍