حضرت سید عبد اللہ شاہ غازی شہید نور اللہ مرقدہ

سندھ کی سر زمین ہمیشہ سے ہی عرفان وتصوف کا سرچشمہ رہی ہے یہاں سے بے شمار بزرگان ِ دین و ملت کا تعلق رہاہے اللہ تبارک وتعالیٰ کی اِن برگزیدہ شخصیات نے مختلف طریقوں سے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے کام کیاان مقدس و مکرم ہستیوں نے لوگوں کے اخلاق و اطوار کوسنوار کر اُنہیں شریعت محمدی ﷺ کے عین مطابق زندگی گزارنے کا طریقہ و سلیقہ سکھایا۔ یہ تمام اولیاء اللہ، بزرگان دین، صوفیائے کرام اُس شجرِ مبارک کی ٹہنیاں اور شاخیں ہیں جس کی جڑیں حیات محمدی ﷺ کے چشمے سے سیراب ہوئی ہیں۔انہیں میں سے ایک ہستی حضرت سید عبد اللہ شاہ غازی شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ذات مبارکہ ہے۔
حضرت سید عبد اللہ شاہ غازی شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولادتِ باسعادت 98 ھ مدینہ طیبہ میں ہوئی۔حضرت سید عبد اللہ شاہ غازی شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نسبتاً سید سادات ہیں۔ آپ ؒ کے پر دادا حضرت سید حسن مثنیٰ ؒ بن جگرگوشہ ئبتول ہم شبیہ ئ رسول حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے جن کی شادی حضرت سیدہ فاطمہ صغریٰ ؒ بنت شہید کربلا اما م عالی مقام حضرت سید حُسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئی۔ جن سے حضرت سید عبد اللہ شاہ غازی شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دادا حضرت سید عبداللہ المحض ؒ پیدا ہوئے۔ حضرت سید عبد اللہ شاہ غازی شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا شجرہ نسب کچھ یوں ہے:
” سیدابو محمد عبد اللہ شاہ اشتر غازی بن سید محمدذوالنفس الزکیہ بن سید عبد اللہ المحض بن سید حسن مثنیٰ بن سید حسن بن علی بن علی المرتضیٰ ”
اس طرح آپ ؒ “حسنی و حسینی” کہلاتے ہیں۔ آپ ؒ کا نام مبارک “عبد اللہ ” ہے اور لقب “الاشتر” ہے۔ الاشتر سے مراد وہ شخص ہے جس کے پپوٹے اُس کی آنکھوں پر جھکے ہوئے ہوں۔آپ ؒ کا شمار اُن اولیاء کرام میں ہوتا ہے جنکی زندگی کا ایک بڑا حصہ جہاد فی سبیل اللہ میں گزرا۔ مجاہد ہونے کے سبب آپؒ کو “غازی” کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آپ ؒ کے صاحبزارے ابو الحسن محمد ؒ کے نام کی نسبت سے آپ ؒ کو ابومحمد بھی کہا جاتا ہے۔ اس طرح آپ کا مکمل نام سید ابو محمد عبداللہ اشتر غازی ہے۔ آپ ؒ نے اپنی ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے والد گرامی قدرجناب سید محمدذوالنفس الزکیہ ؒ سے حاصل کی جن کا شمار اپنے وقت کے محدثین میں کیا جاتا ہے۔ حضرت سید عبد اللہ شاہ غازی شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ138 ھ میں سندھ تشریف لائے۔ کتب تاریخ بتاتی ہیں کہ سندھ میں متعدد صوفیائے کرام اور بزرگان دین دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں تشریف لائے ان میں ربیع بن فصیح بصری المعروف شیخ حاجی ترابی ؒ کو قدیم ترین شمار کیا جاتا ہے جن کا مزار مبارک ٹھٹھہ سے دس میل دور تحصیل میر پور ساکرو میں واقع ہے آپ ؒ کے مزارپر آپ ؒ کا سن وصال 171ھ تحریر ہے لیکن حقائق اور شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ آپؒ سے قبل ایک اور بزرگ ہستی سندھ میں تشریف لا چکی تھی اور وہ کوئی اور نہیں حضرت سید عبد اللہ شاہ غازی شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تھے کیوں کہ آپ ؒ کا سن شہادت151 ھ ہے۔
علامہ ابن اثیرؒ تاریخ الکامل میں لکھتے ہیں کہ حضرت سید عبد اللہ شاہ غازی شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خلیفہ منصور عباسی کے عہد حکومت میں سندھ آئے تھے۔ حضرت سید عبد اللہ شاہ غازی شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دینِ اسلام کی تبلیغ و ترویج کو بہت زیادہ ترجیح دیا کرتے تھے۔آپ ؒ کے سندھ آمد کے وقت عباسیوں اور علویوں کے مابین خلافت پر شدید کشمش جاری تھی اور اہلِ سادات کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔آپ بحیثیت گھوڑوں کے تاجر، سندھ میں داخل ہوئے تھے تاکہ آپ عباسیوں کے اہلکاروں سے محفوظ رہ سکیں۔ پھر آپ ؒ نے دین کی وعوت و تبلیغ کا مبارک کام شروع کیا جس کی بدولت دیکھتے ہی دیکھتے قلیل مدت میں بے شمار لوگ آپ کے گرویدہ ہو گئے۔آپ ؒ کے مخالفین و حاسدین نے اُس وقت کے گورنر سندھ عمر بن حفص کو حضرت سید عبد اللہ شاہ غازی شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خلاف بھڑکانے کی بڑی کوششیں کیں لیکن عمر بن حفص پر انکی باتوں کا کوئی اثر نہ ہو سکا کیوں کہ عمر بن حفص سادات کی بڑی عزت و احترام کیا کرتے تھے اور اسی لئے عمر بن حفص نے حضرت سید عبد اللہ شاہ غازی شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دین کی دعوت و تبلیغ سے نہیں روکا۔ اسی اثناء میں قصر خلافت بغداد سے گورنر سندھ عمر بن حفص کو مطلع کیا گیا کہ حضرت سید عبد اللہ شاہ غازی شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد گرامی قدر حضرت سید محمدذوالنفس الزکیہؒ خلافت عباس کے خلاف جہاد کرتے ہوئے شہید ہو چکے ہیں اب ان کے بیٹے جو سندھ میں ہیں اُنہیں جلد از جلد گرفتار کر کے خلیفہ منصو رکے دربار میں پیش کیا جائے۔گورنر سندھ عمر بن حفص نے اُس کا یہ حکم ٹالنے کی بڑی کوشش کی لیکن خلیفہ منصو ر نہیں مانا۔ ایسے میں گورنر سندھ عمر بن حفص نے حضرت سید عبد اللہ شاہ غازی شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو سندھ کی ساحلی پٹی پر واقع ریاست بھیجنے کا فیصلہ کیا کیوں کہ وہاں کا راجہ اسلامی حکومت کا اطاعت گزار تھا توعمر بن حفص نے اُسے حالات سے تفصیلی آگاہ کرتے ہوئے حضرت سید عبد اللہ شاہ غازی شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی حفاظت پر پابند کر دیا۔ راجہ نے آپؒ کی نیایت تعظیم کی اور آپ ؒ تقریبا ً سال تک وہاں دین اسلام کی دعوت و تبلیغ میں مصروف رہے۔ حضرت سید محمدذوالنفس الزکیہؒ کی شہادت کے بعد خلیفہ منصور، حضرت سید عبد اللہ شاہ غازی شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو عباسی خلافت کے لئے ایک بڑا خطرہ تصور کرتا تھا تواس نے عمر بن حفص کوگورنر سندھ کے عہدے سے معزول کرکے ہشام بن عمر کو نیا گورنر مقرر کیا۔ ہشام بن عمر بھی اپنے خلیفہ کے برعکس سید سادات کی تؑظیم کرنے والا ثابت ہوا، اور اُس نے بھی حضرت سید عبد اللہ شاہ غازی شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی کرنے سے گریز کیا۔اسی دوران سندھ کے ایک علاقے میں حکومت کے خلاف بغاوت ہو گئی جسے کچلنے کے لئے ہشام بن عمر نے اپنے بھائی سفیح بن عمر کو روانہ کیا۔جب یہ لشکر سندھ کے ساحلی علاقے پہنچا تو اُسے وہاں ایک اور لشکر نظر آیا جو حضرت سید عبد اللہ شاہ غازی شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا لشکر تھا جو اُس علاقے میں سیر کی غرض سے آیا تھا۔سفیح بن عمرنے اُسے باغی لشکر سمجھتے ہوئے اُس پر حملہ کر دیا۔حضرت سید عبد اللہ شاہ غازی شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بہت کوشش کی کہ جنگ نہ ہو سکے لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے اور حملے کی زد میں آکر شہید ہو گئے۔آپؒ کے مُریدین حضرت شہید ؒ کے جسدِ خاکی کو لے کر جھاڑیوں میں روپوش ہوگئے اورمختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے سندھ کی ایک ساحلی ریاست کے گاؤں کی پہاڑی کی چوٹی پرپہنچ کر آپ کو دفن کر دیا۔
آپؒ کے مریدان نے اپنے شیخ کی محبت میں آپؒ کے مزار کے قریب ہی سکونت اختیار کر لی۔یہاں دور دور تک پینے کا پانی میسر نہ ہونے کے باعث اُنہیں سخت تکلیف و مشقت کا سامنا کرنا پڑا۔ایک روز سب نے پیاس کی شدت کے سبب اللہ تعالیٰ کے حضور پانی کے لئے گڑگڑا کر دعائیں مانگیں تواُسی شب آپؒ کے ایک ضعیف مُرید کے خواب میں آکر حضرتؒ نے بشارت دی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول کر کے اسی پیاڑی کی تلی میں آپ کے لئے پینے کے پانی کا انتظام کر دیا۔ مُریدین نے جب فجر کی نماز کے بعد نیچے اُتر کر دیکھا کہ میٹھے پانی کا چشمہ اُبل رہا ہے۔ فیض ِ غازی ؒ کا منہ بولتا ثبوت یہ چشمہ آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں