پاکستانی مرسی، صدرمحمد مرسی اور ہماری ذمہ داری

مصر کی 1928-29 میں قائم ہونے والی اخوان المسلمون  85 سالہ جدوجہد کے بعد عوام کی کثرت رائے سے برسراقتدار آئی۔یہ 85 سال صرف جدوجہد نہیں بلکہ جانی، مالی جدوجہد تھی ۔۔۔۔ ڈکٹیٹرز کا خیال تھا کہ وہ اقتدار اور دہشت کی مدد سے اخوان المسلمون کا قلع قمع کردیں گے مگر یہ نہ جانتے تھے کہ

اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبادیں گے۔

مصر کے پہلے جمہوری صدر جو عوام کی 51.7 فیصد حمایت کے ساتھ برسرقتدار آئے ۔۔۔مصر کے سب سے اعلیٰ تعلیم یافتہ سوٹڈ بوٹڈ صدر تھے۔

نجینیرنگ کے شعبے میں پی ایچ ڈی اور پھر امریکی یونیورسٹیز سے مزید تعلیم اور تدریس کے فرائض سرانجام۔دینے والے محمد مرسی دو بار مصر کی پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔

ایک سال برسراقتدار  رہنے کے بعد غیروں کے ایماء پر بے بنیاد الزامات لگاکر فوجی سربراہ جنرل سیسی نے اقتدار پر قبضہ کیا اور انہیں کٹھ پتلی عدالت سے قید تنہائی کی سزا دلوا دی گئی۔

مصر کی جیلوں میں آج بھی ساٹھ ہزار اخوان المسلمون کے بوڑھے، جوان، بچے اور خواتین قید ہیں ۔

ماہر امور مشرق وسطیٰ کے مطابق پچھلے کچھ عرصہ قریباً نو سو افراد  تشدد کے دوران شہید ہوچکے ہیں۔۔۔تو سوچ رہی تھی شہداء تو جنتوں میں ہونگےجو باقی تشدد کے باوجود زندہ ہیں اور قیدوبند کی صعوبتیں اٹھا رہے ہیں۔۔۔۔ان کے دن رات کیسے گزرتے ہونگے!!!!

ان قیدیوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ بلکہ سیکنڑوں پی ایچ ڈی ہیں تو عرض یہ ہے کہ مصر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ،حافظ قرآن محمد مرسی جو کہ 85 سالہ اخوان کی جمہوری پر امن جدوجہد کے بعد برسراقتدار آئے ۔۔۔۔چھ سال قید تنہائی میں رہے، جہاں انہیں انسانی بنیادی حقوق کے مطابق شوگر، بی پی، گردہ کی تکالیف میں مبتلا منتخب جمہوری صدر محمد مرسی کو ادویات اور گھر والوں، وکیلوں سے ملاقات کی تو اجازت نہیں تھی کسی اخبار کی تو کیا قرآن کریم کے نسخے کی فراہمی تک نہ کی گئی۔۔۔

پاکستان میں رمشہ مسیح کو کم عمر بچی بناکر قانون کے دائرے میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھگاتے ہوئے،  آسیہ مسیح، ریمنڈ ڈیوس سمیت سیکنڑوں دیگر ملی و قومی مجرموں کو انسانی حقوق کے نام پر بیرونی امداد کی چھتری دیتے انسانی حقوق کے انٹرنیشنل اداروں نے مصر کے قابل ترین انسان اور پہلے منتخب جمہوری صدر کی جبری معزولی اور چھ سالہ قید تنہائی میں ایک آواز بھی نہ بلند کی۔!

سر پیٹنے کو دل کیا جب پاکستانی سوشل میڈیا پر سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر زرداری کو پاکستان کا مرسی کہا گیا۔

کرپشن میں ملوث نواز شریف صاحب کو یہاں جیل میں  ہر سہولت بہتر درجے کی دستیاب ہے، اہل خانہ سے وکلاء سے ملاقات، گھر سے من و سلویٰ جاتا ہے، بہترین ڈاکٹرز، علاج و ادویات فراہم کی جاتی ہیں۔۔۔۔یہ اور بات ہے کہ پینتیس سال کسی نہ کسی طرح مسند اقتدار پر ہونے کے باوجود کوئی ہاسپٹل اور ڈاکٹر اس قابل نہیں لگتا جو ان کا علاج کرے ماسوائے لندن کے۔۔۔۔۔۔

سود کے نظام کے خاتمے کے وعدے پر اسلامیان کا ووٹ لے کر مکر جانے والے اور سپریم کورٹ کے سودی نظام کے خاتمے کے فیصلے خلاف سپریم کورٹ جاکر اسٹے آرڈر لینے والے ۔۔۔۔۔۔

مرزائیوں کو مشیر بنانے سے اپنا بھائی قرار دینے والے ۔۔۔۔۔ عظیم ہستی مرسی کا نام لینے کے قابل نہیں ۔۔۔۔۔۔۔کہ وہ صدر محمد مرسی جنہوں نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں ببانگ دہل کہا

“جو ہمارے نبی صلی الله عليه وسلم  کی عزت نہیں کرے گا ہم اس کی عزت نہیں کریں گے “

اور مسٹر ٹین پرسنٹ زرداری۔۔۔۔جن کے کرپشن کے پول سمیت منی لانڈرنگ میں ایان علی ایک طرف ۔۔۔۔۔۔ راؤ انور، ڈاکٹر عاصم جیسوں کی سرپرستی۔۔۔۔

راؤ انور وہ کہ جو سرکاری ملازمت پر ہوتے سینکڑوں بے گناہوں، ماؤں کے سپوتوں کے ماورائے عدالت قتل زرداری کے ایماء پر کئے۔۔۔۔۔

 اور موجودہ سیلیکٹڈ وزیراعظم عمران خان جو ڈکٹیٹیر جنرل سیسی سے ملاقات کرکے پاکستانیوں کے جذبات کی توہین کرتا ہے۔

یہ سب مصر کے قابل ترین سابق صدر محمد مرسی کے پاؤں کی خاک نہیں۔۔۔۔۔۔۔

اگست 2013 میں اخوان المسلمون نے صدر مرسی کی برطرفی کے خلاف پرامن مظاہرہ تحریر اسکوائر میں کیا جہاں لاکھوں لوگ اپنے جمہوری حق پر شب خون مارنے پر سراپا احتجاج تھے ۔۔۔۔۔پوری دنیا میں میدان رابعہ کے نام سے تحریک پھیلی ۔

 میڈیا کے اس جدید دور میں ہم عیش و آرام سے اپنے گھروں میں تحریر اسکوائر میں ہوتا ظلم دیکھتے رہے جہاں ہزاروں مصری شہریوں کو ان کی اپنی ہی فوج نے مار دیا، سیکنڑوں معذور ہوئے، سینکڑوں زخمی۔۔۔۔۔۔۔

کارپوریٹڈ میڈیا نے اسے اندرون خانہ جنگ کا نام دیا ۔۔۔۔ وہی منظر کھینچا اور اتنا ہی دکھایا جتنی اجازت تھی۔۔۔۔۔چنداں کہ اخوان کی سوشل میڈیا کوریج نے حقائق دنیا تک پہنچانے کی پوری کوشش کی لیکن کوئی توانا آواز ان کے لئے نہ اٹھی۔۔۔۔۔ ہم بھی گھروں میں بےبسی کے آنسو بہاتے رہ گئے۔۔۔۔۔

اگر آپ نے  اس وقت کی ویڈیوز دیکھی ہوں تو خاندان کے خاندان وہاں موجود محسوس ہوتے تھے،نوزائیدہ بچے سے لیکر بوڑھوں تک۔۔۔۔۔بلکہ وہیل چئیر پر بھی لوگ موجود تھے اور حیرت انگیز طور پر کسی کو بھاگتا یا فرار ہوتا نہیں دیکھیں گے بلکہ سینہ تان کر للکارتے۔۔۔۔ٹینکوں اور فوجیوں کے سامنے کھڑے ہی دیکھیں گے۔دوسری چونکا دینے والی بات ان لاکھوں میں سے ہر ایک کے پاس قرآن کی موجودگی۔۔۔۔۔عبدالغفار عزیز بھائی نے ایک بار بتایا تھا کہ اخوان کے ڈرائنگ روم میں پندرہ بیس قرآن مجید کے نسخے موجود ہوتے ہیں۔ملاقاتیں ہوں، تہوار ہوں، تقاریب ہوں یا گیٹ ٹو گیدر جو آتا جاتا ہے قرآن پڑھتا ہے۔۔۔یا اکھٹے پہلے قرآن پڑھتے ہیں پھر کوئی اور کام

1928-29 میں جب اخوان المسلمون بنی تو وہ کوئی انقلابی تحریک نہ تھی۔۔۔اوریا مقبول جان کے مطابق وہ انقلابی تحریک ہمارے مولانا مودودی کی تصانیف اور اقبال کی شاعری سے بنی۔۔۔۔اور پورے عرب میں پھیل گئی۔۔۔۔۔

ڈکٹیٹرز نے انسانی حقوق کو تو جوتے کی نوک پر رکھا ہی۔۔۔۔۔۔اخوان پر گرفتاریوں، مظالم کے پہاڑ توڑے ،انکے لٹریچر پر بھی پابندی لگائی یہاں تک اقبال اور مولانا کے لٹریچر پر بھی پابندی لگی۔۔۔۔

اور میں سوچ میں پڑ گئی یہ وہی اقبال اور مودودی ہیں جن کے لٹریچر نے دیار عرب میں تو 1928 سے 2019 تک کم وبیش 91 سالہ جدوجہد کو گرم دم جستجو رکھا ہوا ہے۔۔۔۔لیکن اقبال اور مودودی جس قوم اورملک میں پیدا ہوئے، جن کی اردو زبان میں لکھا۔۔۔۔۔اس قوم کی موجوں میں اضطراب کیوں نہیں اٹھتا۔۔۔۔؟؟؟؟

ہم نے بحیثیت قوم اپنے ان محسنین کی ناقدری کی ہے۔

اس پر مجھے شرمندگی ہے۔

ایک بات تو طے ہے ہمارے دشمنوں کو ہماری مساجد، ہمارے مدرسوں، ہمارے گلی گلی میلادوں، ہمارے ذکر اذکار کی محفلوں یہاں تک کہ حج کے بعد سب سے بڑے مسلم اجتماع رائے ونڈ تبلیغی اجتماع اور اسکے چلّے کاٹنے نکلنے والے سینکڑوں وفود سے بھی کوئی مسئلہ نہیں۔

جہاں  “پریکٹس اسلام” کی بات ہوگی۔۔۔۔یہ بدک کر مسلمانوں پر چڑھ دوڑیں گے۔۔۔۔۔

ہوسکتا ہے کہ آپ میری بات سے اختلاف کریں۔۔۔۔کچھ ہی عرصہ قبل نیوزی لینڈ مسجد سانحے میں وہاں کی  حکومت و و وزیراعظم کا رویہ مثالی تھا۔۔۔۔۔میں اسکی تمام نیک نیتی کی دل سے قدردان ہوں

لیکن شرطیہ کہہ سکتی ہوں آج وہاں کے مسلمان وہاں اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کی جدوجہد شروع کریں تو نیوزی لینڈ کی زمین ان پر تنگ کردی جائے گی۔۔۔۔۔واللہ اعلم۔بالصواب

قرآن میں ارشاد ہے۔۔۔۔

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا.

اور (اے مسلمانوں ) تمہیں کیا ہوگیا (تمہارے پاس کیا جواز ہے) کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس ( ضعیف و کمزور) مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو( چیخ و پکار کر) یہ کہہ رہے ہیں کہ اے ہمارے رب؛ ہمیں اس بستی سے نکال دے کہ جس کے رہنے والے ظالم ہیں،

اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کو حامی پیدا کر دیجیے اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی مدد گار بیج دیجیے.(النساء 75)

حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ اپنے مسلمان بھائی پر نہ ظلم کرو اور نہ ہی اس پر ظلم کرنے دو،(ورنہ دونوں صورتوں میں ظالم ہو)

ظالم کا ہاتھ نہ روکنا ظالم کی حمایت و نصرت ہے،

الْمُسْلِمُونَ كَرَجُلٍ وَاحِدٍ إِنِ اشْتَكَى عَيْنُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ وَإِنِ اشْتَكَى رَأْسُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ .

ترجمہ: تمام مسلمان ایک فردکی طرح ہیں اگر اس کی آنکھوں میں تکلیف ہوجائے تو وہ خودپورا تکلیف میں مبتلاء ہوجاتا ہے اور اگر اس کا سر تکلیف میں مبتلاء ہوتا ہے تووہ خودپورا تکلیف میں مبتلاء ہوجاتا ہے۔ (مسلم)

موت کا ایک دن مقرر ہے

اللہ کا دین غالب ہوکر رہے گا یہ بھی طے ہے

تو بتائیے۔۔۔

میں اور آپ کیا کررہے ہیں؟؟؟

ہم میں سے کتنوں نے اخوان کی تاریخ جاننے کی کوشش کی۔۔۔۔؟

یا بس جتنا کسی نے بتا دیا جان لیا۔۔۔۔

آگے کتنے لوگوں تک آگاہی پھیلائی ؟

چلیں ہم اخوان، صدر مرسی یا دنیا میں مظلوم و مقہور مسلمانوں کی مدد کو نہیں پہنچ سکتے تو۔۔۔۔۔

ہم نے انکے بارے میڈیا پروپیگنڈے بجائے درست معلومات لینے کی اور انہیں اپنے سرکل اپنے گھر والوں تک پہنچانے کی کوشش کی ۔۔۔۔

ہمارے ووٹ کا، ہماری حمایت کا وزن کس کے پلڑے میں گیا؟؟

 حدیث مبارکہ ہے۔۔۔۔

مَثَلُ الْمُؤْمِنِ كَمَثَلِ الْجَسَدِ ، إِذَا أَلِمَ بَعْضُهُ تَدَاعَى سَائِرُهُ.

ترجمہ: مومنوں کی مثال ایک جسم کی مانند ہے اگر اس کے ایک حصہ کوتکلیف پہنچتی ہے تو اس کے تمام اعضاء بے چین ہو اُٹھتے ہیں۔(احمد)

موت برحق ہے۔

اللہ کا فیصلہ ہے اس کا دین غالب آکر رہے گا۔

ہمیں سوچنا ہے کہ ہماری رائے۔۔۔۔ہماری کوششوں۔۔۔۔۔ہماری جدوجہد کا وزن اہل حق کی جانب ہے یا ستر سال سے پاکستان پر برسراقتدار رہنے والے اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ سیاسی کٹھ پتلیوں کی جانب۔۔۔۔۔

اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کرنے کی سب سے بڑی سنت کے لئے اخوان 91 سال سے ہر ظلم ستم سہنے کے باوجود اپنے مقصد اور اپنی جدوجہد سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے کیونکہ انہیں معلوم ہے یہی زندگی ہے۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی نے فرمایا:

 مجھے اسلامی نظام کے غالب ہونے پر اتنا یقین ہے جتنا کل سورج طلوع ہونے پر یقین ہے۔

صدر محمد مرسی کی وفات کے بعد ان کے بیٹے نے ٹوئیٹ کیا

“اباجان اب ہم آخرت میں ملیں گے”

دنیا میں سر اٹھا کر وہی جیتے ہیں جنہیں آخرت میں اپنے پیدا کرنے والے رب سے اجر ملنے پر ایمان پختہ ہوتا ہے جو دنیا کو اللہ کی بادشاہی کی رحمت سے بھر دینے والے نبی مہربان صلی اللہ وآلہ وسلم کا سامنا کرسکیں کہ یا رسول اللہ ۔۔۔۔ہم نے انسانوں کی بھلائی کے لئے آپ کی بتائی تعلیمات پر عمل کرنے کی “کوشش” تو کی تھی۔

حصہ

1 تبصرہ

  1. ہماری قوم کی موجوں میں اضطراب نہیں
    افسوس
    شازیہ بہت عمدہ
    سیسی کی زندگی کی کہانی بھی تو بھیانک حقائق منکشف کر رہی ہے
    فیس بک لنک بھی دے دیں دلیل کا

جواب چھوڑ دیں