”چار دیواری کے دشمن“

بہت پہلے جب مغربی (انگریز) عورت مشرق (ہندوستان) میں آٸی تو یہاں کی عورت کا رتبہ اور اقتدار دیکھ کر اسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گٸیں۔کہ یہاں عورت کی  پیداٸش پہ خوشی سے مٹھاٸیاں بانٹی جاتیں ہر عمر میں اس کے لاڈ اٹھاۓجاتے بغیر کسبِ معاش کے اسکےپاس مال زیورات حتیٰ کہ جاٸیداد تک ہوتی  گھریلو معاملات میں وہ مالک و منتظم خودمختار ہوتی ۔۔یہاں تک کہ  اسّی سال کی عمر میں بھی اسکے اقتدار کاحال یہ ہوتاکہ ایک مرد جوخود اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا اور اس کو ایک دنیا سلامی دےرہی ہوتی وہ اپنی شریک زندگی کے انتخاب کے لیے اس عورت کا محتاج ہوتا تھا جوکہ اس کی بھی نہیں اس کے باپ کی ماں تھی۔اور ایک نہیں کٸ کٸ خود مختار مرد ہر گھریلو معاملے میں اس بڑھیا کا منہ دیکھتےتھے۔
مغربی عورت تو جل بھن کر راکھ ہوگٸ وہ قیامت تک ایسے سکھ اوررعب ودبدبہ کا تصور نہیں کرسکتی تھی ۔حسد میں چور ہوکر اس نے ایک گھناونا منصوبہ بنایا اور مسلمانوں میں پھیلی ہوٸی جہالت کی مدد لے کر ان کو ان کی حاصل شدہ نعمتوں کے کفران کی طرف مدعو کرنا شروع کیا۔
اب جہاں جہاں دینی تعلیم کی کمی تھی وہاں اس( مغربی عورت)  کا داٶ چل گیا۔ اپنی ظاہری ٹیپ ٹاپ اور معاشی مجبوریوں کواپنی خوشی اور آزادی ظاہر کرتےہوےاس نے مشرق کی بیٹی سے بڑے مکارانہ انداز میں ہمدردی کاڈھونگ رچایا۔
مشرقی عورت کی بربادی میں اسکے گھر کے قلعے سے باھرآنے میں گمراہ اور ہوس پرست مردوں کے لے بھی شیطانی لذتیں تھیں لہٰذا وہ بھی ان شیطان عورتوں کے ساتھ شامل ہوگۓ اور آج تک شامل ہیں!!!!!
کوٸ بھی شریف النفس یا خاندانی شخص اورعورتوں کا حقیقی بہی خواہ مرد ، عورتوں کو بکاٶ مال بنانے کی حمایت کبھی نہیں کرسکتا ۔۔۔۔ یہ صرف اسی ماحول کی پیدوار ہیں جو خود اپنے باپ کے نام تک نہیں جانتے۔۔۔۔ وہ کب پسندکرینگےکہ معاشرے کےباقی لوگ معزز اور خاندانی ہوجاٸیں ۔
چادر اور چاردیواری کے خلاف یہ ساراطوفان بے حیاٸی اور بدتمیزی اسی لیے ہے کہ ہمارے یہاں ایک لاوارث طبقہ اپنے بقا کی جنگ لڑ رہاہے!!!!!!!!

حصہ

2 تبصرے

جواب چھوڑ دیں