منزل تری راہ میں ہے

اپنے بڑوں سے سنتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد یہ جملہ اکثر درو دیوار پر لکھا نظر آتا تھا کہ پاکستان تو بن گیا پاکستان بننے کا مقصد کب پورا ہو گا۔

       پاکستان کے قیام کا مقصد کیا تھا ؟ بقول قائد اعظم محمد علی جناح کہ پاکستان کے قیام کا مقصد محض ایک زمین کے ٹکڑے کا حصول نہیں ہے بلکہ ہم دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ چودہ سو سال پرانے اصول آج بھی کتنے کار آمد ہیں ۔ قائد کےانہی واضح نظریات کی وجہ سے  جب پاکستان بننے کا یقین ہو چلا تھا تو مسلم لیگ یوپی نےمقتدر علمائے کرام کی ایک  مجلس ترتیب دی تاکہ مملکت خداداد  پاکستان کی سیاسی اساس اسلام کے سنہرے اصولوں کے مطابق پہلے ہی متعین کردی جائے ۔ اس مجلس کے اراکین میں مولانا ابوالاعلی مودودی ، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا آزاد سبحانی ، مولانا عبدالماجد دریا آبادی، مولانا حکیم محمد اسحاق سندیلوی جیسے زعماء شامل کئے گئے تھے ۔ اس مجلس کے فیصلے کے مطابق مولانا محمد اسحاق سندیلوی نے تاریخی دستاویز کو تیار کر کے اس کی نقول تمام اراکین متعلقہ کو بھیج دی تھیں مگر فسادات و انتشار نے اسے منظر عام سے دور رکھا۔( بحوالہ: مقدمہ” اسلام کا سیاسی نظام “از مولانا عبد الماجد دریا آبادی ) ۔آج یہ مسودہ صرف کتابی شکل میں “کچھ” کتب خانوں کی زینت  ہے جس پر ایک مسلم مملکت کی سیاسی بنیادیں تعمیر ہونی چاہئیں تھیں ۔

           قیام پاکستان کے بعد نئی مملکت  لٹےپٹے مہاجرین کی آمد اور اس پر وسائل کی قلت کی بنا پر مسائل و مصائب کی گرداب میں پھنسی ہوئی تھی۔ اس لئے دستور کی تیاری کا کام فوری طور پر نہ کیا جا سکا ۔ ایسے میں مولانامودودی وہ پہلی شخصیت اور جماعت اسلامی وہ پہلا پلیٹ فارم تھا جس نے حکومت اور دستور ساز اسمبلی سے مطالبہ کیا کہ چونکہ پاکستان اسلام کے نفاذ کے نعرے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے اس لئے فوری طور پر یہاں اسلامی نظام کے نفاذ کا عمل شروع کیا جائے ۔ حکومت نے اس بات کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے مولانا مودودی کو دعوت دی کہ ریڈیو پاکستان پر سلسلہ تقاریر شروع کریں اور قوم کو بتائیں کہ اسلامی نظام کیا ہے؟  اس دعوت پر 6 جنوری 1948 سے لے کر 16مارچ 1948 تک پانچ تقاریر اسلام کے معاشی ،سیاسی ، معاشرتی اور روحانی نظام کے حوالے سے ریڈیو پاکستان سے نشر کی گئیں ۔ یہ تقاریر قائد اعظم کی مرضی سے ہی نشر ہوئی تھیں ۔ بعد ازاں مولانا نفاذ اسلامی کے مطالبے کو لے کر ملک کے دورے پر نکل گئے اور اس مطالبے کی اہمیت پر  رائے عامہ کو ہموار کیا ۔ ان سرگرمیوں اور نفاذ اسلامی کی جدوجہد سے  مسلم لیگ میں شامل سیکولر عناصر میں کھلبلی مچ گئی ۔ منفی اور  جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے جماعت پر پابندیوں کاسلسلہ شروع کیا گیا  ۔ اخبارات کے مخالفانہ محاذ ،اور منبر و محراب کے معاندانہ حربوں نے ماحول کو مکدر کر دیا ۔آخر کار   قائد اعظم کی  وفات  کے محض تیئس دن بعد ہی مولانا اور ان کے رفقاء کو سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا گیا ۔ یہ لازمی طور پر قرارداد مقاصد سے روکنے کی کوشش تھی ۔ بعد ازاں علامہ شبیر احمد عثمانی نےقرارداد مقاصد کا متن نظر ثانی کرنے کے لئے جیل میں ہی مولانا کو بھجوایا ۔ اور صاف کہا کہ میں جوکچھ کر سکتا  تھا میں نے کر دیا۔ مسلم لیگ کےکئی سیکولر اذہان سرکردہ رہنما  اس کے حق میں نہیں تھے ۔ اور درپردہ وکھلم کھلا اس کی مخالفت کے درپے تھے۔

 غرض کہنا یہ مقصود ہے کہ نفاذ اسلامی کےلئے جدوجہد اور کوشش روکنے کے لئے ابتداء ہی سے سیکولر عناصر سرگرم ہو گئے تھے ۔ قرارداد مقاصد کی راہ میں  ڈالی جانے والی رکاوٹوں سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آئین پاکستان کی منزل کتنی کٹھن اور جدوجہد سے عبارت تھی اس سے اگر کوئی صرف نظر کرتاہے تو بڑی زیادتی کی بات ہے۔

            واضح رہے قیام پاکستان سے آج تک جماعت اسلامی کی  جدوجہد صرف ایک نظام کو بدلنے  کے لئے نہیں تھی نہ ہے ۔بلکہ  پورے نظام  کو بدلنے کے لئے تھی اور ہے ۔ مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کے قیام کے وقت ہی واضح کر دیا تھا کہ” مسلمانوں میں عام طور پر جو تحریکیں اٹھتی رہی ہیں ان میں یا تو اسلام کے کسی جزو یا دنیوی مقاصد میں سے کسی مقصد کو لے کر بنائے تحریک بنایا گیا ہے لیکن ہم عین اسلام اور اصل اسلام کو لے کر اٹھ رہے ہیں اور پورا پورا اسلام ہی ہماری تحریک ہے ” (روداد جماعت اسلامی۔ حصہ اول)   چنانچہ اس تحریک کا مقصد صرف سیاسی نظام کی درستگی نہیں  بلکہ معاشی ،معاشرتی پہلوؤں کو بھی اسلام کے مطابق ڈھالنا ہے ۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ زمام کارصالح افراد کے ہاتھ میں ہو ۔ ظاہر ہے صالح افراد کے بغیر نہ تو دستور پر عمل درآمد ممکن ہے اور نہ نظام کی درستگی ۔ مولانا مودودی نے اسی بنیاد پر انتخابی سیاست میں حصہ لیا اور آج تک جماعت اسلامی اس ڈگر پر چل رہی ہے۔ جماعت اسلامی کے قیام کا مقصد  نظریاتی اوراصولی تھا  آج بھی جماعت اسی نصب العین  کے ساتھ اپنی جگہ موجود ہے کہ “اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کا نفاذ “۔ وقت اور حالات کی مناسبت سے مختلف پالیسیز اختیار کی جاتی رہی ہیں ۔  اور یہ پالیسیز کبھی ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف نہیں گئیں ۔ جماعت اسلامی دیگر جماعتوں سے یوں بھی مختلف ہےکہ اس  کے پاس نہ صرف مولانا مودودی کی گرانقدر کتب کی صورت میں علمی ذخیرہ  موجود ہے بلکہ ایسی افرادی قوت بھی موجودہ ہے جو صاحب قلم بھی ہے۔اور بیک وقت عصری و فقہی علوم کی ماہر ہے ۔ یہاں ایک کارکن سے لے کر رکن جماعت تک کو متعین کردہ نصاب  کی کتب کا  لازمی  مطالعہ کرنا ہوتا ہے۔ جماعت کی قیادت بدعنوانی سے پاک اور با کردار ہے۔ بات یہی نہیں بلکہ اہم قومی،دینی و ملی معاملات کو سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلی میں اٹھانے کا سہرا بھی ان ہی “گنے چنے “افراد کے سر ہے۔

 ایسے میں سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ اتنی  خصوصیات  کے باوجود جماعت انتخابی سیاست میں کیوں ناکام ہے ؟؟ اور اس کا ذمہ دار جمہوری  نظام کو قرار دیا جاتا ہے ۔ لیکن عالمی طور پر دیکھا جائے تو اسی انتخابی عمل کے ذریعے الجزائر ، مصر، ترکی اور ملائشیا میں اسلام پسندوں کو غلبہ حاصل ہوا۔ ( دو اول الذکر میں جو کچھ ہوا یہ الگ افسوس ناک بحث ہے)۔ لہذا صرف انتخابی سیاست ہی اس  ناکامی کا باعث نہیں ۔ بلکہ اور بھی وجوہات ہیں جن کا جائز لینا ضروری ہے۔

 انتخابی سیاست میں رائے عامہ کا اہم کردار ہے ۔ ہمارے یہاں لوگوں کی ایک بڑی اکثریت انتخابی عمل کا حصہ نہیں بنتی۔ جس میں زیادہ تر تناسب دیندار لوگوں کا ہے ۔ کچھ سیاست کو دین سے الگ سمجھتے ہیں اس لئےانتخابی عمل سے لاتعلق رہتے ہیں۔ کچھ کی نظر میں جمہوریت کفریہ نظام ہے  ۔ لہذا ووٹ دینا بھی اس نظام کو تقویت پہنچانا ہے۔جب ان دینداروں کی اکثریت ووٹ نہیں ڈالتی تو صرف اور صرف دینی جماعتوں کا ووٹ بینک متاثر ہوتا ہے۔ اس وقت جمہوریت کے نام پر بہت سے لوگ انہی تصورات کاشکار ہیں بے شک  اسلامی نظام خلافت کا احیاء ہر صاحب سلیم کی خواہش ہے اور جمہوریت اسلامی نظام نہیں مگر ہماری نہ تو معیشت اسلامی ہے اور نہ تعلیمی و بینکاری نظام اور نہ معاشرت ۔ تو تیشہ صرف جمہوریت ہی پر کیوں چلتا ہے ۔  جمہوریت اگر بہت سے نقائص کا مجموعہ ہے  تو دوسری جانب خلافت بھی صالحین کے ہاتھ میں نہ ہو تو ملوکیت بن جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی  ہے کہ پورے نظام کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا جائے ۔  اور انتخابی عمل میں شمولیت  اور صالح لوگوں کو لانے کے لئے رائے عامہ  کو ہموار کیا جائے۔

      دوسرا یہ کہ  ہمارا انتخابی عمل بہت سی تبدیلیوں کا متقاضی ہے انکی اصلاح کے لئے مولانا مودودی نے11 نومبر1951 میں ایک تقریر کے دوران نشاندہی کی تھی اور قرار دیا تھا کہ اگر ان پانچ نکات کو لے کر انتخابات کروائے جائیں تو بہت حد تک جمہوریت کو پاک کیا جا سکتا ہے۔( اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات۔ صفحہ285) اس میں سے تین تو یہ ہیں کہ *اول ۔انتخابات اصولوں کی بنیاد پرہوں نہ کہ علاقائی ،شخصی یا قبائلی مفادات پر ۔* دوم۔ لوگوں کو ایسی تربیت دی جائے جس سے وہ یہ سمجھنے کے قابل ہو سکیں کہ ایک اصلاحی پروگرام کو نافذ کرنے کے لئے کس قسم کے آدمی موزوں ہو سکتے ہیں  اور ان میں کیا اخلاقی صفات اور ذہنی صلاحیتیں ہونی چاہئیں۔  * سوم۔ لوگوں کےخود امیدوار بن کرکھڑے  ہونے اور خود روپیہ صرف کر کے وو ٹ حاصل کرنے کا طریقہ بند ہونا چاہئے۔ کیونکہ اس طرح آنے والے لوگ کبھی بھی بے غرض ہو کر ملک و قوم کی خدمت نہ کر یں گے ۔

مذکورہ نکات ہی بہت خوب ہیں۔ اس میں موجودہ حالات کی مناسبت سے مزید اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے  ۔ لیکن اس پر عمل درآمد کے لئے صرف جماعت اسلامی ہی نہیں بلا تعصب ہر بغض و عناد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تمام ایسے طبقات کو اپنا حصہ ڈالنا ہو گا جو نظام کی تبدیلی کے خواہشمد ہیں ۔ قلمکار ، صداکار ،منبر و محراب ،علماءو دانشور سب ہی مل کر یک پہلوئی نہیں بلکہ ہم گیر تبدیلی

کے دست و بازو بنیں ۔۔۔۔۔

حصہ

2 تبصرے

  1. بہترین تحریر…
    اللہ ہمیں توفیق دے کہ اسلامی نفاذ کے لئے کوشش کرنے والوں کے دست وبازو بنیں.

جواب چھوڑ دیں