لاکھوں کے جم غفیر میں وہ کھڑا اپنی قوم سے مخاطب تھا ۔
“قرآن ہمارا آئین ہے ۔ محمدﷺ ہمارے رہنما ہیں۔ جہاد فی سبیل اللہ ہمارا راستہ ہے ۔ اور اللہ کی راہ میں مرنا ہماری تمنا و خواہش ہے ۔ اور سب سے اوپر اللہ کی خوشنودی ہمارا مقصد زندگی ہے ۔ یہ امت اللہ کی نعمت سے خوب لطف اندوز ہو گی یہ امت پھر کھڑی ہوگی صرف اور صرف اسلامی شریعت سے ۔ “
یہ قیمتی الفاظ کہنے والے مصر کے صدر مرسی تھے ۔ جو حلف اٹھانے سے پہلے ایک اور حلف لینا چاہتے تھے۔ قوم نعرہ تکبیر بلند کرتی ، جوش و خروش کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے صدر کو سن رہی تھی ، صدر مرسی کہ رہے تھے ۔
” میں اللہ اور آپ سب سے حلف لینے سے پہلے ایک اور حلف لیتا ہوں۔ وہ یہ کہ موجودہ آئین قطع نظر ہمارا آئین اب اسلامی آئین ہوگا۔ ان شاءاللہ ہمارا آئین شریعت کی عکاسی کرے گا جو کہ مصر کے تمام علماء اسلام کا متفقہ اسلامی آئین ہوگا۔”
ان کی چوڑی پیشانی سے پھوٹتا نور ان کے عزم کے پختہ ہونے کا ثبوت تھا۔ وہ دشمنوں سے بےنیاز کہہ رہے تھے۔
“ہم اب دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی خلافت کیسی ہوگی۔” وہ روشن چمکتی آنکھوں سے اپنے لوگوں کو دیکھتے ہوئے مزید بولے
“خلافت کا ڈکٹر محمد مرسی کو احساس ہوچکا ہے اب اس کے بھائی ، اس کے چاہنے والے ، اس کی سیاسی جماعت خلافت عثمانیہ پھر قائم کرنے والی ہے۔ تمام عرب ممالک ایک بار پھر سے اکھٹے ہونے والے ہیں، جسے مرسی اور اس کے چاہنے والے قائم کریں گے۔ ” صدر مرسی کی بات جاری تھی جب ایک مصری نے زور دار نعرہ بلند کیا
“مرسی کل غزہ آزاز کروائے گا ۔ میں مصری ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے۔” قوم اب یک زبان ہونے لگی تھی۔
مصر کی زمینیں مصریوں کے نعروں سے لرز رہی تھیں۔
“لاکھوں شہدا اب مارچ کرتے ہوئے بیت المقدس جائیں گے ۔۔ یہودیوں کی نیندیں اڑ چکی ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔
آجاؤ شہدا سے پیار کرنے والوں تم سب حماس ہو۔” فضا ایک بار پھر نعروں سے گونجنے لگی۔ روشن پیشانی والے صدر مرسی نے اپنی بات کا ایک بار پھر آغاز کیا۔
میں اس فورم سے کہنا چاہتا ہوں تمام لوگوں کی طرف سے ، اپنے دل کی گہرائیوں سے اپنے مصر کے دل سے ۔ میں پوری دنیا کو بتانا چاہتا ہوں، ہم یہ صاف صاف بتادینا چاہتے ہیں کہ بیت المقدس فتح کرنا ہمارا اصل مقصد ہے۔ ہم اب نماز بیت المقدس میں ہی پڑھیں گے یا بیت المقدس میں ہی جام شہادت نوش کریں گے ۔”
اس کے مقاصد بلند تھے اس کے عزائم عزیم تھے ، اس نے حلف اٹھانے کے بعد اپنی تقریر میں کہا۔
“ہم رسولﷺ سے پیار کرتے ہیں ہم ہر اس شخص کی عزت کریں گے جو نبیﷺ کی عزت کرے گا۔ ہم اس سے دشمنی روا رکھیں گے جو ہمارے نبیﷺ سے دشمنی روا رکھے گا۔”
یہ تھے مصر کے عظیم صدر مرسی جنہوں نے محمد ﷺ کے دفاع میں تقریر کی پھر فلسطین کو آزاد کروانے اور اسلامی شریعت ملک میں نافز کرنے اور خلافت عثمانیہ کی بحالی کی بات کی۔ اور یہ بات اسرائیل اور امریکہ کے لیے جان لیوا ثابت ہوگئی۔ وہ کبھی نہیں چاہتے تھے کے سیکولر نظام کے متابدل اسلامی نظام آئے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کے مسلمان خلافت عثمانیہ کی طرح پھر سے اکھٹے ہوجائیں۔ جن کو انہوں نے ٹکڑے ٹکڑے کیا وہ جڑ جائیں یہ انہیں برداشت نا تھا۔ مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہی تو صلیبیوں کی کامیابی تھی۔ کیونکہ اس طرح ہر مسلمان صرف اپنے بارے میں سوچتا تھا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کے مسلمان پوری امت کے بارے میں سوچے۔ اسی خوف کے تحت انہوں نے صدر مرسی کو اپنی ایجنٹ مصری فوج سے اس کی حکومت ختم کروادی۔ اسلام دشمنوں کو تخت پر بیٹھایا گیا۔ اوروہ مرد مجاہد صدر منتخب ہونے کے بعد اقوام متحدہ کے پہلے اجلاس میں یہ الفاظ کہنے کی سزا میں سالہا سال زنداں کی نذر رہ کر آج شہید ہوگیا
” جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کرے گا ہم اسکی عزت کریں گے اور جو ان کی عزت نہیں کرے گا وہ ہمارا دشمن ہے
آل سعود تمہارے ہاتھوں پر لہو ہے مرسی کا
خدا تم سے بہت جلد حساب لے ان شاء اللہ