قصیدہ بُردہ شریف

دنیائے عشقِ حقیقی کا مدحت و ثنا خوانی پر مبنی ایک ایسا شہرہئ آفاق کلام جسے سرکارِ دوعالم خاتم النبیین والمرسلین والمعصومین حضور سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی شانِ اقدس میں لکھا گیا۔ اس بابرکت کلام مبارک اور اس کے خالق کو بدولتِ بارگاہِ رسالت مآب ﷺ وہ مقام حاصل ہوا جو بہت کم عشاقوں اور اُن کے کلاموں کو نصیب ہوا ہے۔
قصیدہ بردہ شریف پر روشنی ڈالنے سے قبل اس عظیم الشان مدحت کے خالق حضرت اقدس قبلہ جناب شیخ شرف الدین ابو عبداللہ البوصیری ؒ کا مختصراً تعارف قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ حضرت اقدس قبلہ جناب شیخ شرف الدین ابو عبد اللہ البوصیری ؒ ؒ یکم شوال 608ھ اور بعض روایات کے مطابق یکم شوال 610ھ میں بھشیم کے مقام پر پیدا ہوئے۔ حضرت شیخ شرف الدین ابو عبداللہ البوصیری ؒ نے دلاس میں پروش پائی۔آپؒ نسلاً” بربر ” تھے۔ حضرت شیخ شرف الدین ابو عبداللہ البوصیری ؒ روحانی سلسلہئ شاذلیہ سے تعلق رکھتے تھے اور ولی العصرحضرت ابو العباس احمد المرسیؒ سے بیعت تھے جوقطب اوّل حضرتِ عالی مقام قبلہ ابو الحسن شاذلی ؒ کے خلیفہ تھے۔حضرت ابو الحسن شاذلی ؒسلسلہئ شاذلیہ کے بانی اور اپنے شیخ حضرت عبدالسلام بن مشیشؒ کے خلیفہ تھے اور حضرت عبدالسلام بن مشیش ؒ، حضرت اما م ابوالمدین غوث المغربی ؒ کے خلیفہ تھے جو ماہتاب ِ ولایت، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلیفہ تھے۔ یعنی اگر یہ کہا جائے تو یقیناً غلط نہ ہوگا کہ حضرت اقدس قبلہ جناب شیخ شرف الدین ابو عبداللہ البوصیریؒ روحانی اعتبار سے پیرانِ پیر محبوبِ سبحانی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی چوتھی روحانی پشت میں بطورامامِ بر حق اور ولی اللہ کے آسمان ِرشد و ہدایت پرایک روشن تارے کی مانند نمودار ہوئے۔حضرت شیخ شرف الدین ابو عبداللہ البوصیری ؒ ؒ ایک مصری شاعر تھے آپ نے مصر کے ایک گاؤں جس کا نام” بو صیر ی” تھاابن ِ حناء کی زیرِ سرپرستی میں متعدد شاعرانہ کلام لکھے۔آپ ؒ کی تمام تر شاعری کا محور مذہب اور تصوف ہی رہا۔آپ ؒکے تمام کلاموں میں سے سے زیادہ مشہور و مقبول کلام “قصیدہ بردہ شریف ” ہے جو شافع محشر،ساقی کوثر، خاتم النبیّین والمرسلین والمعصومین حضور سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی مدحت و ثنا خوانی پر مبنی ہے۔حضرت اقدس قبلہ جناب شیخ شرف الدین ابو عبداللہ البوصیری ؒ کا وصال مصر کے شہر اسکندریہ میں ہو۔ آپ ؒ کے سنہئ وصال کی مختلف روایات ہیں۔ آپ ؒ کا وصال 694ھ، بعض کے مطابق 695ھ اورکچھ کے مطابق 696 ھ میں ہوا۔ حضرت اقدس قبلہ جناب شیخ شرف الدین ابو عبداللہ البوصیری ؒ ” فسطاط “کے مقام پر مسلک شافعی کے بانی، فقیہ اُمت، مجدد العصر، امامِ دین و ملت، قبلہ حضرت اقدس جناب امام شافعی ؒ کے قرب میں مدفون ہیں۔
قصیدہ بردہ شریف کو “قصیدۃمحمدیہ “بھی کہا جاتا ہے۔ بردہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی چادر ہے۔ قصیدہ بردہ شریف کا مکمل نام “القصیدۃالکواکب الدریہ فی مدح خیرالبریہ ” ہے۔اس قصیدے میں کُل 162 اشعارہیں۔ قصیدہ بردہ شریف کا پسِ منظر کیا ہے؟ اس کے فضائل و مناقب کیا ہیں؟ اب وہ ہم قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
سرکارِ دوعالم حضرت جنابِ سیدنا محمد مصطفی ﷺ اونی کپڑے کی دھاری دار چادر اوڑھا کرتے تھے۔ حضرت کعب بن زبیر ؓ (جن کا شمار عرب کے بہترین شاعروں میں ہوتا تھا) نے اسلام لاتے ہوئے بارگاہِ رسالتؐ میں ایک قصیدہ پڑھاجس سرکارِ دو عالم ﷺ کو اتنا پسند آیا کہ آپ ﷺ نے خوش ہو کر اپنی چادر اُتاری اورجنابِ حضرت کعب ؓ کو بطورانعام عطا فرمائی۔ سرکارکائنات رسالت مآب ﷺ کے پردہ فرماجانے کے بعد مشہور جلیل القدر صحابی اور کاتبِ وحی و کاتبِ قرآن امیر المومنین حضرت سیدنا امیر معاویہ ؓ نے یہ چادر حضرت کعب ؓ کے صاحبزادے سے خرید کر محفوظ کر لی۔ اُس کے بعد بنو عباس سے تعلق رکھنے والے خلفاء کے خزانوں میں یہ چادر محفوظ رہی۔بعد ازاں یہ بابرکت چادر مبارک قسطنطنیہ منتقل کر دی گئی اور آج بھی وہیں محفوظ ہے۔
حضرت اقدس قبلہ جناب شیخ شرف الدین ابو عبداللہ البوصیری ؒ کو فالج کے مرض نے بعض روایات کے مطابق کوڑھ کے مرض نے آگھیرا۔ یہ مرض لگ بھگ پندرہ سال تک آپ کے ساتھ رہا۔ آپؒ چوں کہ صوفی شاعر تھے تو ایک شب آپ ؒ نے حضور اقدس ﷺ کی شان میں اس کلام کو لکھاجب یہ کلام مکمل کرکے آپ ؒ رات کو سوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ دربارِ رسالت مآب ﷺ سجا ہوا ہے تمام اصحابِ کرامؓ، اولیأ کرام بھی موجود ہیں ایسے میں ساقی ئ کوثر ﷺ کی جانب سے حضرت بوصیری ؒ کو حکم ہوا کہ آپ ؒ اس کلام کو پڑھ کر سنائیں۔جب آپ ؒ اس کلام کوآقا ﷺ کے حضور پڑھا تو حضور اکرم ﷺ اس کلام کو سُن کر اتنا خوش ہوئے کہ آپ ﷺ نے اپنی یہ چادر (جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے) آپؒکو بطور انعام کے عطا فرما دی۔ جب شیخ شرف الدین ابو عبداللہ البوصیری ؒ نیندسے بیدار ہوئے تووہ چادر آپ ؒ کے شانوں پر موجود تھی اورسرکارِ دوعالم ﷺ کی آپؒ پر ایسی نظر کرم ہوئی کہ آپ اُس موذی مرض سے بلکل ایسے شفایاب ہو گئے جیسے کبھی بیمارہی نہ تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ آپ ؒصحت یاب ہو کر کھڑے ہوئے اور گھر سے باہر نکل کر بازا ر کی جانب تشریف لے گئے ابھی بازار میں داخل ہی ہو رہے تھے کہ کسی کے آپ ؒ کو نام لے کر پکارا، آپ ؒ نے پلٹ کر دیکھا تو ایک مجذوب فقیر کھڑا ہوا تھا اُس نے کہا اے بو صیریؒ! وہ رات والاقصیدہ تو سُنا دو۔۔۔ آپؒ یہ سُن کر بڑے حیران ہوئے، آپ ؒ نے دریافت کیا کہ تجھے کیسے معلوم کہ میں نے رات میں کون سا قصیدہ پڑھا تھا؟ مجذوب کہنے لگا کہ اے بو صیری ؒ جب آپ ؒ سرکارِ دوعالم ﷺ کو یہ کلام پڑھ کر سُنا رہے تھے تو میں بھی اُسے محفل میں موجود تھا اور دور کھڑا سُن رہا تھا۔بس پھر کیا تھا اس قصیدے کے چرچے شہر بھرمیں ہونے لگے۔بادشاہِ وقت کو جب یہ معلوم ہوا تو اُس نے اس مقدس قصیدے کے اوراق لے کر رکھ لئے اور جو بھی بیمار ہوتا وہ اُس کو دے دیتا اور وہ بیمار اس قصیدے کی برکت سے مستفید ہو کر شفا یاب ہو جایا کرتا۔
اولیاء اللہ اور بزگانِ دینؒ اس بابرکت قصیدے کا ہمیشہ بڑا اہتمام فرمایا کرتے تھے زیادہ تر بزرگانِ دینؒاس کلام کے حافظ تھے۔ اپنی ذکر و اذکار کی مجالس میں اس کو شامل حال فرمایا کرتے تھے۔
الحمد للہ آج بھی اس قصیدے کو باوضو ہو کر سرکارِ دو عالم ﷺ سے سچی محبت و عقیدت رکھتے ہوئے پڑھا جائے اس کے پڑھنے سے بیماریاں، پریشانیاں، دکھ درد، تکالیف غم صدموں سے نجات نصیب ہوتی ہے۔ یہ قصیدہئ مقدس دلوں کو پاک کرتا ہے۔ لاعلاج بیماریوں کے لئے مجرب نسخہ ہے۔اس کے پڑھنے سے مرادیں پوری ہوتی ہیں، بگڑے کام بننے لگتے ہیں اور ان سب سے بڑھ کراس کو تواتر سے عقیدت و احترام سے پڑھنے والے کو حضور ﷺ کا دیدار نصیب ہوتا ہے اور اگر کوئی اس کے حافظ ہو جائے توپھر توکیا ہی بات ہوگی۔
اللہ رب العزت ہم سب کو اس بابرکت قصیدہ بردہ شریف پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

حصہ

جواب چھوڑ دیں