جناب وزیراعظم صاحب!

جناب وزیراعظم صاحب!
آپ ٹیکس وصولی کے جتنے راستے سوچیں گے
لوگ ٹیکس چوری کے اتنے ہی نئے راستے تلاش کر لیں گے
وجہ سوچیں !
آخر اربوں روپےرمضان میں زکوت و صدقات دینے والی قوم ٹیکس کیوں نہیں دینا چاہتی ؟
اس لئے کہ انہیں یقین ہے کہ انہیں زکوت و صدقات کے بدلے جو وعدےکئے گئے ہیں وہ ملیں گے
اور ٹیکس کے بدلےمیں جو وعدے کئے گئےوہ نہ ملے ہیں نہ ملیں گے
انہیں یقین ہے کہ ٹیکس وصولنے والے بد دیانت اور کرپٹ ہیں اور زکوت لینے والے دیانتدار
انہیں یقین ہے کہ صدقہ ٹھیک استعمال ہو جائے گا مگر ٹیکس کی رقم کسی نواز زرداری فرودس عاشق جہانگیر ترین کی تجوری میں چلی جائے گی
انہیں یقین ہے کہ صدقہ کے بدلے اللہ جنت وبرکت دے گا اور ٹیکس کے بدلے ٹوٹی سڑکیں تباہ حال اسپتال اور برباد تعلیمی ادارے ان کا مقدر ہوں گے
وہ صدقات سے بنی مسجد جائیں تو ہر چیز سے نظر آتا ہے کہ پیسے واقعی لگے ہیں اور وہ ٹیکس لیتی حکومت کے کسی آفس جائیں تو حبس سے دم گھٹنے لگتا ہے۔
پھر آخر وہ کیسے آپ پر بھروسہ کرلیں؟

چلیں اگر آپ کامضبوط لہجہ انہیں متاثر کر بھی لے تو آپ کے اردگرد کون کون ہیں جن کی بدولت وہ کسی حقیقی تبدیلی پر یقین قائم کر یں؟
آپ تمامتر سادگی کے باوجود اپنے وزیراعظم آفس پر خرچ کے لئے نواز شریف سے بھی 18% زیادہ پیسے مانگ لیں تو پھر یہ اعتماد بھی کتنے دن چلے گا؟
پہلے کچھ کر کے دکھائیں کوئی فرق کوئی تبدیلی کوئی بہتری کچھ بھی۔۔۔ وہاں تو مہنگائی جان لیوا ہو رہی ہے حالات بدتر ہورہے ہیں اور آپ قوم سے ٹیکس مانگ رہے ہیں

اور ہاں
اچھی تقریریں بہت سے لوگوں کو عارضی طور پر متاثر کر سکتی ہیں
کچھ لوگوں کو ہمیشہ کے لئے بھی
مگر بڑی اکثریت کو ہمیشہ کے لئے صرف تقریرولہجہ کا اعتماد متاثر نہیں کئے رکھتا

جناب وزیراعظم!
پہلے ماحول ہم آواز کیا جاتا ہے
پھر نغمہ کا آغاز کیا جاتا ہے

ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں

حصہ

جواب چھوڑ دیں